امداد کے مستحق کون ہیں؟ رشتے دار کیوں نہیں؟


ایک فقہی مسئلہ اور مسلمانوں کے عام رجحان میں مجھے بارہا تصادم نظر آیا وہ یہ کہ آخر کیا وجہ ہے کہ دین حنیف کی تعلیمات اور اصرار کے باوجود عموماً مسلمان اپنے قریبی رشتہ داروں کی مالی امداد کرنے سے گریز کرتے ہیں! ۔ ان دنوں لاک ڈاؤن سے متاثرین یومیہ مزدور اور دیگر ضرورت مندوں کی مدد روپے پیسے سے اور اناج سے کرنے کے لئے ماشاءاللہ بہت سارے لوگ پیش پیش ہیں یہ بلا شبہ قابل ستائش اور لائق شکر ہیں اللہ ان کے اس کار خیر کو قبولیت کا درجہ عطا کرے۔ تاہم قومی و ملی ہمدردی کے تحت امداد کے وقت اپنوں کو نظر انداز کرنا قطعاً مناسب نہیں ہے۔ کچھ لوگ مستحق اور غیر مستحق کہ کر اپنوں کو محروم رکھتے ہیں شاید اس لئے کہ انہوں نے اس پر غور نہیں کیا کہ اللہ ہم گنہگار غیر مستحق کو بھی نوازتا ہے اور مستحق کو بھی۔

مستحقین کی کیٹیگری اور مال کی تحدید صرف زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے ہے صدقہ ہدیہ عطیہ کے لئے نہیں۔ یہ سب احسان ہیں اور احسان اللہ کو بہت پسند ہے۔

أن اللہ یحب المحسنین۔ ان اللہ لا یضىع اجر المحسنین۔
گرچہ زکوٰۃ کی رقم ‌مستحقین کو دینے کے لئے نصاب (یعنی 87.45 گرام سونا یا 612.15 گرام چاندی یا اس کے مساوی سرپلس مال و دولت ہونا اور حولان حول یعنی اس پر سال گزرنا شرط ہے ) لیکن عموماً لوگ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں زکوٰۃ نکالتے ہیں اس لئے کہ رمضان المبارک میں ہر نیکی کا اجر کئی گنا زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن آفات و مصائب کی گھڑی میں کسی مصیبت زدہ کو وقت پر راحت رسانی کا اجر انشاءاللہ رمضان المبارک میں نکالنے سے کمتر نہیں ہوگا۔

یہ زکوٰۃ کی رقم کے مستحق صرف وہ لوگ نہیں ہیں جو صاحب نصاب کے ”اصول“ یعنی ماں باپ دادا دادی نانا نانی اور ”فروع“ یعنی بیٹا بیٹی پوتا پوتی اور ان کی اولاد۔ ان کے علاوہ کسی بھی مستحق کو دیا جا سکتا ہے تاہم ترجیح ان رشتہ داروں کو دینی چاہیے جو خود صاحب نصاب نہیں ہیں اور ضرورت مند ہیں گرچہ بادی النظر میں مستحق نظر نہیں آتے۔ اس میں دو اجر ہیں ایک زکوة ادا کرنے کا اور دوسرا صلہ رحمی کرنے کا۔ زکوٰۃ کے ذریعہ کفالت کا مقصد اپنے مستحق بھائیوں کو زکوٰۃ لینے والا نہیں زکوٰۃ دینے والا بنانا ہے۔

چھوٹے کسان بڑے جاگیردار نہیں :

ایک اور پیچیدہ مسئلہ یہ ہے یا لوگوں نے اپنے لئے مشکل بنا رکھا ہے وہ یہ کہ زمین کے مالک ہیں لیکن تنگی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ مالکان زمین کی ذہنیت کچھ ایسی ہی ہوتی ہے۔ اب اگر اس زمین کی قیمت دیکھی جائے تو لاکھوں روپے ہے اور صاحب زمین اس قیمت کے اعتبار سے صاحب نصاب ہے۔ مگر بعض اوقات مستحقین زکوٰۃ فقراء و مساکین سے بھی بدتر زندگی گزارتے ہیں۔ کاؤنسلنگ کرکے ان کی ذہنیت بدلنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح وہ زمین بیچ کر اس رقم کا بہتر انویسٹمنٹ کر سکتے ہیں اور اچھی زندگی گزار سکتے ہیں۔

زکوٰۃ کے مستحقین میں ایک وہ لوگ بھی ہیں جن کی گردن قرض میں پھنسی ہوئی ہے۔ ایسے لوگوں کی معاونت اور ان کی گردن چھڑانے کی طرف زکوة دینے والوں کی نظر عموماً نہیں جاتی۔ جبکہ قرآن کریم میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے والغارمین سے صراحت کے ساتھ ان کا ذکر کیا ہے : إنما الصدقات للفقراء والمساکین والعاملین علیھا والمؤلفة قلوبھم و فی الرقاب والغارمین و فی سبیل اللہ وابن السبیل فریضة من اللھ۔

بظاہر اچھے کھاتے پیتے نظر آنے والے رشتہ دار، پڑوسی، امام مسجد، مؤذن اور مدرس گھروں میں جاکر قرآن پڑھانے والے اور بالخصوص بڑے شہروں میں ٹیوشن پڑھانے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ایسے ہے جن کی روزی روٹی کا ذریعہ ٹیوشن تھا لاک ڈاؤن نے سے یہ ذریعہ آمدنی بند ہوگیا یہ تمام لوگ امداد کے مستحق ہیں یا نہیں اس کا پتہ کرنا ایک مشکل ترین کام ہے مگر خبر گیری ضروری ہے اور اس کا طریقہ کار ایسا ہو کہ ان کی عزت نفس کو ٹھیس نہ پہونچے۔

اس طرح کے سفید پوشوں کی اعانت کا ایک طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ لاگت سے بہت کم یعنی معمولی قیمت لے کر ان سے کھانے پینے اور دیگر ضرورت کی اشیاء فروخت کی جائیں تاکہ انہیں ”مفت خوری“ کے طعنے کا احساس نہ ہو۔

الا بعض الظن اثم۔ بعض ( بد) گمانی گناہ ہے کے تحت بہت سے مشاہدات لکھنے سے قاصر ہوں لیکن اس معاملے میں بھی بعض لوگوں کا رویہ ان کے اپنے رشتے داروں کے ساتھ ایسا دیکھا جیسے وہ اپنے سامنے اپنے رشتے داروں کا قد بڑھتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتے ہیں۔ یا خاندانی رنجش کی وجہ سے ان کا نام مستحقین کی فہرست میں نہیں لکھتے ہیں۔ اگر زکوٰۃ نہیں تو ایسے زمیندار رشتے داروں کو ”قرض حسنہ“ سے مدد کر سکتے ہیں اگر واقعی دل میں صلہ رحمی کا جذبہ ہے تو راستے نکل جاتے ہیں۔

یہ تو صلہ رحمی ہے جس پر قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اور احادیث میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد مقامات پر زور دیا ہے۔

سر پلس مال و دولت کا اقل مقدار، سال کا گزرنا اور مستحقین کی کیٹیگری زکوٰۃ کے لئے شرائط ہیں نہ کہ صدقہ، عطیہ اور قرض حسنہ کے لئے۔ اور کفالت سے مقصود کسی فرد کی اتنی کفالت کی جائے کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments