لاک ڈاون کے اثرات یا واقعی فطرت بدل رہی ہے؟


کچھ ماحولیاتی تبدیلیاں حال ہی میں ایسی رونما ہوئی ہیں جو غیر معمولی ہیں کیا ان کو ہم اس طرح لے سکتے ہیں کی فطرت بدل رہی ہے۔ واقعات تو بے شک انوکھی ہیں لیکن کیایہ فطرت کے حقیقی ریسپانس ہیں یا ان تبدیلیوں کا تعلق انسانوں کی معمولات زندگی سے ہے۔

پہلے کچھ تبدیلیوں کا ذکر کرتے ہیں بعد میں اس کی کچھ جمع تفریق پیش کرتے ہیں۔
ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے امریکی خلائی ادارہ ناسا اور یوروپین اسپس ایجنسی نے کچھ سیٹلائٹ تصاویرکے مطالعہ کے بعد یہ بتایا کہ فضائی آلودگی اُن علاقوں میں کم ہوئی جہاں کی تصویریں اتاری گئی ہیں۔ ناسا نے یہ تصاوہر چین، اٹلی، اسپین، امریکہ اور لبنان کے مختلف علاقوں کی لی ہیں۔

جنگلی حیات کے حوالے سے بہت ساری خبریں ہیں کہ وہ مٹک مٹک کر شہرکی طرف نکل جاتی ہیں۔ جیسے اب وہ اپنی پرانی رہاہش گاہ سے بیزارہیں۔ وہ کیوں اس طرح شہرنکل جاتے ہیں کیا ان میں کچھ حیاتیاتی تبدیلیاں رونما ہوگئی ہیں یا اب ان کو انسانوں سے ڈر نہیں لگتا یا انسانوں کی معمولات زندگی کرونا کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ تو یہ اب ان ذمہ داریوں کو سنبھالنے تو نہیں جارہی ہیں۔ واقعات تو بہت ہوئی لیکن سب سے زیادہ اہمینت ویلز برطانیہ کے ایک ٹاون سے آنے والی خبر کو ملی ہے۔

کچھ لوگوں نے وینَس کینال اٹلی کے پانی کی شفافیت کواس چیز کا نام دیا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔

اسکے علاوہ ایک حد تک اس خبر کو شاید ماحولیات کے ماہرین اپنے لیے ایک کامیابی گردانیں کہ چین نے زندہ جانوروں کی مارکیٹں بند کی ہیں۔ اوران کے کھانے اور ان کی تجارت پر پابندی لگائی ہے۔ خیراس خبرکا تعلق ہماری رویوں سے ہے اوراگرجنگلی حیات کو اس سے فائدہ ملتا ہے توبے شک اس کا اثرہماری ماحول کو اورفطرت کی حیاتیاتی تنوع کو ملے گا۔

جو وجوہات بتائی گئی ہیں ایک حد تک تو غیرمعمولی ہیں۔ ان واقعات کو اور تبدیلیوں کو ذرا چھان پھٹک کر دیکھ لیا جاتا تومعلوم ہوجاتا کہ ان کے تانے بانے کہاں سے جوڑے ہیں۔

ناسا کی اور وینَس کینال کی لوگوں کی کھینچی ہوئی تصاویر کی صحت پر ہم سوال نہیں اُٹھاتے کہ وہ درست منظر پیش نہیں کررہے ہیں۔ لیکن اس کی توجیہ تو پیش کرسکتے ہیں کہ اگر تبدیلی آئی ہے تو اس کے محرکات کیا ہیں۔

جیسے، دھواں علامت ہے کہ کہیں کچھ جل رہا ہے۔ جب گزشتہ دو تین مہینوں سے کچھ جل نہیں رہا ہے تو اس کا مطلب ہے دھواں بھی نہیں اُڑ رہا ہے۔ تو ظاہر ہے فضا میں آلودگی کے کم ہونے کا تعلق جن آلات سے ہے یاتو وہ سب دھواں چھوڑنا بھول گئے یا ان کو چلایا نہیں جارہا ہے۔

بالکل ویسا ہی مظہروینَس کینال کے پانی کے ساتھ وابستہ ہے۔ وہاں سیاح نہیں جارہے اور ان کو لانے لیجانے کے لئے کشتیاں بھی نہیں چل رہی ہیں۔ تو ظاہر ہے جب گندگی پھینکی نہیں جارہی ہے تو پانی کا شفاف ہونا کوئی انوکھی بات نہیں ہونا چاہیے۔

ویلزبرطانیہ کی ٹاون کے ساتھ ساتھ دنیا میں بہت ساری جگہوں پر جنگلی حیات شہر گھومنے چلے گئے۔ کیونکہ شہراورجنگل کا فرق مٹ گیا ہے کیونکہ اس فرق کو لوگ اپنی موجودگی کا احساس دلا کر بنا رہے تھے جب لوگ گھروں میں ہیں اور باہر کوئی نہیں ہے تو جانوروں کے لئے کیا شہر اور کیا جنگل۔ جب جنگل کی سرحدیں وسعت پاچکی ہیں تو جانوروں کا بے فکری میں یوں شہر کی طرف جانے کو بھی کوئی غیرمعمولی واقعہ کے طور پر نہیں لینا چاہیے۔

برازیل کے ساحلوں پر ٹرٹلز کی بڑی تعداد میں ہیچنگ ( ننے ٹرٹلز کا انڈوں سے باہر آنے ) کی خبر ایک انوارنمنٹلسٹ نے دی ہے ان کے مطابق ایسا ان کی زندگی میں پہلی بار ہوا ہے کہ اتنے ننے ٹرٹلز انڈوں سے نکل کر سمندرکی طرف جا رہے ہیں۔ بہرحال اگر یہ خبردرست ہے تو وجہ انسانوں کی مداخلت ہے۔ لاک ڈاون ٹرٹلز کی زندگی میں امن کا پیغام لایا ہوگا جس سے ان میں حیاتیاتی تبدیلیاں رونما ہو گئی ہوں گی ۔

رہی بات چین کے زندہ جانوروں کی منڈیوں کے بند ہونی کی توماحول دوست لوگ خود سے اس فیصلہ کو ایک آدھی کامیاب کہتے ہیں۔ کیونکہ چین نے ان جانوروں کا استعمال دوا بنانے کے لئے منع نہیں کیا ہے۔ یوں وہ سمجھتے ہیں کہ انکاغیرقانونی شکارنہیں رکے گا۔ اور پھر چین شاید ان کے کاروبارکوآن لائن وسیلوں سے پھر سے شروع کرے۔

ان تمام واقعات کے پیچھے صرف ایک عنصرمشترک ہے وہ ہے حضرتِ انسان اوراسکی سرگرمیاں اورمعمولات زندگی۔ میرا خیال ہے کہ پہلے اسے بحال ہونے دیتے ہیں اگرپھربھی فطرت کاجواب ایک جیسا رہا تو تب ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ دنیا واقعی بدلی رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments