جناب! دنیا رخصت پر ہے!


نوٹ! یہاں دنیا سے مراد زمین نہیں بلکہ اس پر بسنے والے انسان ہیں، جن کے دم سے دنیا پر حیات کا تصور قائم ہے۔

کائناتی کلاس روم میں حاضری کا رجسٹر کھلا ہے۔ چاند، ستارے، سیارے، اور سورج، استادِ ازل و ابد کے سامنے سرجھکائے سینوں پر ہاتھ باندھے مہنہ ٹھوڑیوں سے لگائے با ادب و ہوشیار کھڑے اپنی اپنی حاضری بول رہے ہیں۔ الوہی صدا! سورج، حاضر جناب۔ چاند، حاضر جناب۔ سیارگان، ستارے، آفاق اور آسمان کی تہہ بہ تہ بچھی پرتیں، اپنی اپنی حاضری نیچی آواز میں بولتی جا رہی ہیں۔

اب باری ہے۔ بادلوں، ہوا ؤں، بارشوں، دھوپوں، چھاؤں، صبحوں، شاموں پہاڑ وں، دریاوں، سمندر وں، ندی نالوں، کھیتوں کھلیانوں، شجر و حجر اور پنچھی پکھنوؤں کی تو مالکِ کون ومکان کے سامنے یہ تمام عناصر بھی اپنی اپنی جگہوں پر حاضر و موجود ہیں۔ ان کی ٹھوڑیاں بھی سینوں سے لگی ہیں، وہ بھی نگاہیں جھکائے کلاس روم میں با ادب اپنی اپنی حاضری بول رہے ہیں۔ اب الوہی آواز پڑتی ہے۔ دنیا؟ جواب میں خاموشی، گہری گمبھیر اور تاریک خاموشی۔

دوبارہ وہی الوہی صدا۔ دنیا تو خاموش کیوں ہے؟ اپنی حاضری بول؟ جواب میں کائناتی مساموں میں دم گھونٹ سناٹا طاری کرتی وہی خاموشی۔ جس پر تمام عناصرِ فطرت گھبرا کر کنکھیوں سے ایک دوجے کی جانب دیکھتے ہیں۔ پھر سب کی نگاہ بیک وقت دنیا کی جگہ پر جا ٹھہرتی ہے، جو خالی ہے۔ کلاس روم کی سب سے زیادہ ہنگامہ خیز، پر شور و پر خطر جگہ خالی ہے۔ یہ تو کائناتی کلاس روم میں اپنی ہیجان خیزی اور جلد بازی کی وجہ سے ہمیشہ بھونچال لائے رکھتی تھی۔

پھر آج یہ جان لیوا جمود یہ سناٹا کیسا؟ کہیں مر ور تو نہیں گئی کم بخت؟ تھی بھی تو کلاس روم کی سب سے مہنہ زور، نالائق اور کام چور سٹوڈنٹ؟ بے لگام اور بے ادب۔ جس کی حاضری بول کر ہی نہ دیتی تھی؟ ساری کلاس روم گہرے استعجاب میں ڈوبی مہنہ ٹھوڑیوں سے لگائے، نگاہیں جھکائے، پشت خم کیے، سانس روکے با ادب کھڑی ہے۔ اور ازل و ابد کا مالک کائناتی حاضری کے رجسٹر پرنگاہیں جمائے کلاس روم کی کرسی پر گہری سوچ میں ڈوبا بیٹھا ہے۔

اب حاضری کا رجسٹر لپیٹ دیا گیا ہے۔ جس کے بعد تمام سٹوڈنٹ اپنے اپنے فرائض کی انجام دہی میں جت گئے ہیں۔ سورج راجہ اپنے وقت کے نہایت پابند، کرونا کو خاطر میں لائے بغیر حسبِ معمول طلوع ہوئے جارہے ہیں۔ چاند میاں بھی چاندنی سے آنکھ مچولی میں برابر مصروف ہیں۔ ہوائیں، بادل، بجلی، روشنی، پرندے، درخت، پھول پودے تتلیاں، سب اپنے اپنے معمولات میں مگن ہیں۔ موسم گلابی اور حسین اتنا کہ دل چاہے نرم ہوا کو مٹھی میں بھر کر خوشبو کے سنگ اڑنے لگیں۔

ساری کائنات سبز گلابی پیراہن میں لپٹی نئی نویلی دلہن جیسی دکھائی دیتی ہے۔ مگر اسے دیکھنے والی آنکھیں اسے سراہنے سے محروم ہو چکی ہیں۔ اس وبا سے قبل بھی ان کی تیز رفتاری انہیں گھڑی پل فرصت نہ دیتی تھی کہ یہ چند لمحے ٹھہر کر اس دلہن کے حسن سے محظوظ ہو سکیں۔ اسے سراہ سکیں۔ کہ یہ وقت کے غلام گھڑی کی سوئیوں کے ہمراہ چلنے کے عادی تھے۔ سٹاک مارکیٹ، شیئرز کی گھٹی بڑھتی سانسیں، انویسٹ منٹ کے نت نئے منصوبہ جات۔

کن اقدامات سے صفروں کی تعداد میں کس قدر اضافہ ممکن ہو سکتا ہے۔ اعداد و شمار کے انہی زہریلے بچھوؤں کو پالنے کا مرض لگ چکا تھا انہیں۔ چنانچہ پھول کب کھلتے ہیں۔ ستارے کب ابھرتے ہیں، سیب اور خوبانی کے درختوں پر شگوفے کن موسموں میں پھوٹتے ہیں۔ اور یہ منظر کس قیامت کا حسین و دلربا ہو تا ہے۔ خزاں، بہار کا لبادہ کب ا وڑھتی ہے۔ کب برفیں پگھلتی ہیں، کب دریا پہاڑوں کا سینہ چیر کر چنگھاڑتے میدانوں کا رخ کرتے ہیں۔

ان تمام معاملات سے بے خبر سارے اشرف سارے اعلیٰ کولہو کے بیل کی مانند آنکھوں پر کھوپے چڑھائے اپنے اپنے دائروں میں گول گول گھوم رہے تھے۔ کہ اچانک ایک وائرس نے نمودار ہو کر اس کولہو کی چرخ چوں بند کر دی، جس کے بعد تمام اشرف و اعلیٰ اب دم بخود بیٹھے، کائناتی پہہئے کی گھومتی رفتار کو دیکھتے ہیں۔ اور دہل کر سوچتے ہیں، پہۂ تو چل رہا ہے، پھر ہم کیوں جامد ہو گئے؟ مشرق سے مغرب، شمال سے جنوب، ہر جانب ہو کا عالم ہے۔

دنیا کی اقتصادی نبضیں ڈوب چکیں۔ نباض خوف کی چادر میں لپٹے کہیں چاردیواروں کی خاموشیوں میں دبکے بیٹھے ہیں۔ اسلحہ منڈیوں کو تالے پڑ گئے۔ دنیا کی بلند و بالا کارپوریشنیں مہنہ کے بل جا گریں۔ زیر دست ملکوں کی تباہی کے جنگی منصوبے خاک چاٹنے لگے۔ جہاز راں کمپنیاں بند ہو گئیں۔ ہواؤں کو ہمہ وقت آلودہ کرنے والے جیٹ زمین بوس ہو گئے۔ سیال سونے کے کنوئیں تالہ بندی میں چلے گئے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اب یہ سونا اتنا بے وقعت ہو گیا کہ کوئی اسے مفت میں بھی خریدنے کو تیار نہیں۔

کیا امراء اور اشرافیہ کے محل اور کیا غریب کی جھونپڑی، سب ایک ہی خوف کے حصار میں بند، خود ساختہ سلاخوں کے قیدی۔ ایسی تنہائی سے جھوجھ رہے ہیں، جس کا حالیہ دور کی سائنس اور ٹیکنالوجی کی آسمانوں کو چھوتی ترقی کے دور میں تصور بھی محال تھا۔ ہاں البتہ پرانی یعنی قدیم دنیا ہمیشہ خطرناک وباؤں کا شکار رہی۔ جیسے 14 th centryمیں بلیک ڈیتھ جس نے چار برسوں میں دو ملین سے زیادہ انسانوں کو شکار کیا۔ اسی وبا میں قرنطینہ کے ذریعے وبا سے بچاؤ کا طریقہ اختیار کیا گیا، جسے بعد کے ادوار میں وبا کے علاج کے طور پر ساری دنیا نے اپنالیا۔

گریٹ پلیگ آف لندن جو 1665 ء میں لندن میں پھیلی اور اس نے ایک لاکھ سے زیادہ انسانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ چیچک کا شمار بھی ایسی ہی خوفناک وبا میں ہوتا ہے، جس نے صدیوں تک ایشیا، یورپ اور عرب ممالک کو اپنی لپیٹ میں لئے رکھا، 1796 ء میں اس کی ویکسین دریافت ہوئی، جس کے بعد انیسویں صدی کے وسط میں اس کا خاتمہ ہوا۔ زرد بخار، انفلوئنزا، اور ہیضیے جیسی مہلک وباؤں اور دو عالمی جنگوں کی تباہ خیزیوں سے گزرتی قدیم دنیا بیسویں صدی کے صنعتی اور محفوظ دور میں داخل ہوئی۔

اور پھر ٹیکنالوجی کے نت نئے ہتھیاروں سے لیس کمپیوٹر ایج توانسانی اذہان کی سراسر بلندی اور سفید فام ا قوام کی برتری کی صدی کہلائی۔ یہی وجہ اکیسویں صدی فرسٹ ورلڈ کے لئے انتہا سے زیادہ پر اعتماد صدی تھی۔ یہ خبر کی صدی تھی، تضادت اور ایجادات کی صدی۔ سیٹلائٹ اور فور جی، فائیو جی کی صدی۔ مادیت پسندی اور کمر شل ازم سے سر تا پا لبریز صدی۔ ڈیزی کٹر بموں سے انسانوں کو تورا بورا کرنے اور، کمزور اقوام پر قہر بن کر ٹوٹ پڑنے والے عالمی تھانیداروں کی صدی۔ جس میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون عملاً نافذ کر دیا گیا۔

ڈالر، یورو اور پاؤنڈ کے خداؤں نے کم تر اقوام کی خرید و فروخت کے لئے ایسی ہی منڈیاں سجا دیں جیسی کہ مڈ ایول زمانے میں غلاموں کی سجا کرتی تھیں۔ اور پھر اشرف اور اعلیٰ بکنے لگے دھڑا دھڑ۔ اور رہے ادنیٰ تو انہیں رشک و حسد کی کیفیات نے گھیر لیا۔ کہ اس منڈی میں ان کا کوئی خریدار کیوں نہ ہوا۔ اس صدی میں بظاہر تو د نیا کا جغرافیہ کچھ زیادہ تبدیل نہ ہوا، مگر ایران، توران، خراسان، اور عربستان کا حلیہ تباہ ہو کر رہ گیا۔

ایسی تباہی ایسی قیامت کہ الامان، مگر اس کے باوجود دنیا کو رخصت پر جانے کا خیال تک نہ ہوا۔ بغداد، شام، حلب، تیونس، یمن، لیبیا، عراق جلا کر راکھ کر دیے گئے، مگر دنیا کو رخصت پر جانے کا خیال تک نہ گزرا۔ پرانے وقتوں مین ایک انسانی جان کو ظلماً ما ردیئے جانے پر جو سرخ آندھیاں اٹھا کرتی تھیں، اک متھ میں بدل کر رہ گئیں، اور دنیا میں منٹوں سیکنڈوں کے شمار سے انسان ظلماً مارے جانے لگے۔ مگر دنیا کی بے حسی کہ اس کے ماتھے پر شکن تک نہ ابھری۔

تو پھر اب ایسا کیا ہو گیا؟ کلاس روم کے سناٹے میں استادِ ازل و ابد کے سامنے فطرت کے تمام عناصر سر نگوں ہیں۔ حاضر و موجود ہیں، مقرر ہیں اپنے اپنے مقام پر۔ مگر کمینی دنیا ہنوزغیر حاضر۔ یہ غیر حاضری توجہ طلب ہے۔ حد درجہ سوالیہ ہے۔ اک اندیکھا وائرس جو اپنی ذات میں حیات کا جوہر بھی نہیں رکھتا، اس کے ذریعے دنیا کو ساکت و صامت کرنے کے پیچھے مالک ِ کائنات کی اگر کوئی حکمت پوشیدہ ہے تو تنہائی کے انبار پر سر پکڑ کر بیٹھے اس کے خلیفہ کو جلد از جلد اسے بوجھ لینا چاہیے تاکہ غیر معینہ رخصت پر گئی دنیا اپنی حاضری کائناتی ریکارڈ پر لاسکے۔

اس کا تھم جانے والا پہۂ رواں ہو سکے۔ وہ اپنی رفتار پکڑ سکے۔ اور خوف کا یہ حصار ٹوٹ سکے، جس نے کرہِ ارض کے انسانوں کے گرد گھیرا تنگ کر رکھا ہے۔ مگر اس موقع پر یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے اور ہمیں دعوتِ فکر دیتا ہے کہ آیا وائرس کے خاتمے کے بعد یہ دنیا اپنا چلن بدلے گی یا کہ اسی پرانے چلن کو جاری رکھنے پر ہی اصرار کر ے گی؟ اگر ایسا ہوا تو خدشہ ہے کہ کائناتی کلاس روم میں بیٹھا استادِ ازل و ابد جس نے ابھی تو صرف دنیا کی غیر حاضری کا ہلکا سا نوٹس لیا ہے۔ کہیں آئندہ کونے میں کھڑا کر کے اس کے کان نہ پکڑوا دے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments