کورونا آیا ۔۔۔ اور زمانے یاد آئے


لاک ڈاؤن کی مدت بڑھا دی گئی ہے۔ہم گاڑی چلاتے ہوئے مریض دیکھنے جا رہے ہیں اور گاڑی میں ایک خوبصورت آواز گونج رہی ہے،

شہر خالی، خانہ خالی، کوچہ خالی، جادہ خالی

یوں لگتا ہے شاعر ہمارے ساتھ والی نشت پہ براجمان چاروں طرف دیکھ رہا ہے۔ چہار سو پھیلی خاموشی، ویرانی، تنہائی اور خالی پن کا درد قلم پہ الفاظ کی صورت اتر آیا ہے۔

وبا کے کارن شاعر کی چشم تصور مجسم ہونے کا کیا یہ سبب تو نہیں کہ انسان کے ہاتھوں تباہ ہوتی ہوئی نڈھال فطرت نے کائنات سے مدد مانگنے کا سندیسہ بھیجا ہو۔ فطرت کو اس انسان کی چاہ ہو جو اس کی آغوش میں پناہ لیتا تھا، جس نے اپنی زندگی مشین اور دوڑتے بھاگتے وقت کے ہاتھوں رہن نہیں رکھی تھی۔

کبھی کبھی تو اپنے آپ کو مورد الزام ٹھہرانے کو جی چاہتا ہے۔ ہم جو شہر اور کوچے میں امڈتے ہوئے ہجوم سے شاکی تھے۔ ہمیں زندگی کا فطرت سے ٹوٹتا ہوا تعلق اداس کرتا تھا اور ہم ماضی کے ان لمحوں کو بے طرح یاد کرتے تھے جب اشیا کے انبار ، روپے پیسے کی چکاچوند، اشیائے تعیش کی فراوانی، وقت کی کمیابی نے زندگی کو اس قدر ارزاں نہیں کیا تھا۔ تو کیا یہ خواہش پوری کر دی گئی ؟

کبھی کبھی آرکائیوز میں سے سن ساٹھ کے زمانے کا کوئی پرانا وڈیو کلپ دیکھنے کو ملتا تھا جس میں خالی سڑک پہ دور دور تک کوئی متنفس نہیں دکھتا تھا، خال خال گاڑی یا کوئی اور سواری نظر آتی تھی۔ ہم حیرت سے سوچا کرتے تھے، کیا شہر اور کوچے کبھی ایسے بھی تھے؟ اگلا خیال یہ ہوتا کہ فطرت کے نزدیک زندگی دلفریب ہوتی ہوگی، وقت اور سرمائے نے ابھی انسان کو گرفت میں نہیں لیا تھا۔ درخت، پرندے ، پھول پودے، ہوا، بادل، آسمان،دھنک، رم جھم اور برسات کا اپنا ہی لطف ہوتا ہو گا۔

ہم اسی کی دہائی کے وسط میں لاہور پہنچے۔ تین منزلہ ہوسٹل کی بالائی منزل پہ کمرہ ملا۔ ہر کمرے میں چار چارپائیاں اور دو پنکھے، اے سی کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھا۔ سچ لگتی کہیے تو کمی بھی محسوس نہیں ہوئی۔ خدا جانے عمر کے میٹھے برس تھے یا ابھی عادات نہیں بگڑی تھیں۔

لاہور کی گرم دوپہریں شام میں ڈھلتیں تو زبان کا چٹخارا ٹک کر بیٹھنے نہ دیتا۔ کبھی ریگل چوک کے دہی بھلے آواز دیتے اور کبھی چمن کی آئس کریم۔ مزنگ چونگی سے تھوڑا آگے بے نظیر قلفے میں تو سب ہی کی جان تھی۔

وارث روڈ کے بس سٹاپ سے ویگن پہ بیٹھتے یا ماڈل ٹاؤن بس سروس لیتے اور منزل پہ پہنچ جاتے۔ ویک اینڈ ہوتا تو انارکلی کی فروٹ چاٹ اور لبرٹی مارکیٹ کے مزے لینے چل پڑتے۔

رات کے کھانے کے بعد میٹھے کی یاد ستاتی تو پیدل مزنگ چونگی پہ واقع شیزان بیکری کی طرف چل پڑتے جہاں کے لیمن ٹارٹس کی لذت کی یاد ابھی بھی منہ میں رس گھولتی ہے۔

مال روڈ پہ فیروز سنز پہ کتابوں کی پہروں ورق گردانی اور نقی مارکیٹ میں ونڈو شاپنگ میں گزارا وقت بھلائے نہیں بھولتا۔

سردیوں اور بہار میں ہوسٹل کے پچھلے دروازے سے نکل کے لارنس گارڈن تک پیدل چلنا اور پھر باغ میں پھول کی روشوں پہ چہل قدمی کرتے ہوئے پہروں گھومنا۔ مقبرہ جہانگیر اورکامران کی بارہ دری میں یقیناً ان چنچل لڑکیوں کی ہنسی آج بھی گونجتی ہو گی۔

سڑکوں پہ نہ ٹریفک کا اژدہام ہوتا اور نہ ہی کھوے سے کھوا چھلتا۔ عوامی سواری پہ سفر کرنا سہل بھی تھا اور محفوظ بھی۔ پیدل چلنے کی تو کیا ہی بات تھی۔

 نہ لاہور سموگ کی علت میں مبتلا ہوا تھا اور نہ ہی آبادی کے جم غفیر سے ہر منظر دھندلایا تھا۔ نیلگوں آسمان اصل رنگ میں آنکھ میں سماتا تھا، پرندوں کی چہچہاہٹ ٹریفک کے شور میں گم نہیں ہوئی تھی۔ درخت اتنے مٹیالے نہیں دکھتے تھے۔ فطرت کا حسن اور دلکشی ماند نہیں پڑی تھی۔

پھر وہ زمانے خواب ہوئے۔ ہم اپنے تعلیمی دور سے کیا جدا ہوئے کہ زندگی کی ایک متاع گراں مایہ ہی سے کٹ گئے۔ زندگی نے ہمیں گزارا یا ہم نے زندگی کو، یہ تو خبر نہیں لیکن جب آنکھ کھلی تو وہ کوچے، وہ گلیاں ویسی نہیں تھیں جیسی ہم نے چھوڑی تھیں۔ لمبی جدائی میں منظر ہی بدل گئے تھے۔

ہنگامہ آلود ماحول، شور و غل، پہلے سے دو گنا آبادی، شہر کا بے ہنگم پھیلاؤ، سہولتوں کا فقدان، فطرت کا میلا کچیلا روپ، نہر کا گدلا پانی، بے پناہ ٹریفک ، پیدل چلنا نا ممکنات میں شامل، نواحی بستیوں کا ہریالا پن کنکریٹ کے جنگل میں بدلا دیکھ کے ہم بہت افسردہ ہوئے تھے،

“ ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی ملاقاتوں کے بعد” والا حال تھا۔

ترقی تو ہوئی تھی مگر یہ ترقی کچھ روایتیں اور کچھ حکایتیں نگل گئی تھی۔ آبادی کو قابو میں رکھنے کی منصوبہ بندی کو مولوی کے ہاتھوں مذہب کا کفن پہنا کے دفن کر دیا گیا تھا۔ بیسیوں صدی کے آخرمیں جو دھرتی 14 کروڑ کا وزن سنبھالتی تھی، پچیس برس کے قلیل عرصے میں بائیس کروڑ اس کی چھاتی پہ مونگ دلتے تھےاور فطرت ہار رہی تھی۔

تو کیا نڈھال ہوتی زمین کی سن لی گئ؟ دم توڑتی فطرت کی جاں بلبی پہ قدرت کو رحم آ گیا؟ کیا انسان کی حد سے بڑھی مادیت پسندی کو لگام دینے کا وقت آ گیا؟ کیا وبا نے انسان کو اس کے اصل کی طرف لوٹانے کی کوشش کی گئی ہے؟ وہ اصل جہاں مصنوعی پن کے عفریت نے انسانی قدروں کو فطرت سے ہم آہنگ نہیں رہنے دیا تھا۔

کورونا نے ہمیں اس خواب جیسی زندگی اور سکون کی جھلک دکھا کے کچھ سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ قدرت کا یہ انتباہ ہر صدی میں انسان کی بڑھتی ہوئی سرکشی اور لاپروائی پہ آیا کرتا ہے۔

سپینش فلو کو گزرے سو سال ہوئے جب پانچ کروڑ عدم کو سدھارے اور بقیہ نے زندگی کی قدر کرتے ہوئے اسے جیا۔

شاید وہی قدر اب ہم کریں گے، اگر بچ نکلے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments