شیخ رشید کی پیش گوئیاں اور میری ایک پیش گوئی


وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے شیخ رشید احمد کا شمار ان سیاست دانوں میں بھی ہوتا ہے جن کو خبروں میں رہنے کا فن آتا ہے یہی نہیں بلکہ ان کا شمار ان سیاست دانوں میں بھی کیا جاتا ہے جن کو حکومتوں میں رہنے کا فن بھی آتا ہے۔ نواز شریف کی محبت میں عمران خان کو ٹی وی ٹاک شوز میں لتاڑنے والے شیخ رشید اس وقت ناصرف اسی عمران خان کی کابینہ میں اہم وزارت کے منصب پر فائز ہیں بلکہ ان کو عمران خان کا اعتماد بھی حاصل ہے۔

یہی نہیں بلکہ وزیر ریلوے ہونے کے باوجود وہ حکومت کے ترجمان کا کردار بھی ادا کرتے نظر آتے ہیں اپنی ذومعنی گفتگو اور پیش گوئیوں کی بدولت میڈیا کی توجہ کا مرکز رہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ میں نے دم کیا تو شہبازشریف گرفتاری سے بچ گیا ہے۔ اس بیان پر نیب جیسے ادارے کو پریس ریلیز جاری کرنی پڑی کہ نیب پر کسی کے دم کا اثر نہیں ہوتا۔ حال ہی میں شیخ رشید کا ایک نیوز چینل پر ایک انٹر ویو نشر ہوا ہے جس میں وہ بہت سارے انکشافات کرتے نظر آرہے ہیں۔

بظاہر اس انٹرویو کی مجھے تو کوئی وجہ نظر نہیں آرہی کہ کیوں کیا گیا مگر پھر بھی یہ انٹر ویو ایک اہم وقت پر کیا گیا اور شاید جو بات عوام تک پہنچائی جانی تھی وہ احسن طریقے سے شیخ رشید کے ذریعے پہنچا دی گئی ہے۔ اس انٹرویو میں شیخ رشید نے کافی ساری پیش گوئیاں بھی کی ہیں اب یہ پیش گوئیاں ٹھیک ثابت ہوتی ہیں یا پھر غلط، اس کا فیصلہ تو وقت کرے گا مگر فی الحال اس انٹرویو کا یہ فائدہ ضرور ہوگا کہ حکومت سے متعلق جو افواہوں کا بازار گرم تھا اور شہبازشریف کی آمد کو مسلم لیگ ن جس انداز میں پیش کر رہی تھی وہ سلسلہ رک جائے گا۔

میں سمجھتا ہوں کہ شاید یہی وہ اہم باتیں تھیں جو شیخ رشید نے کی ہیں باقی گفتگو تو ثانوی حیثیت رکھتی ہے جس میں آٹا، چینی اور آئی پی پیز کی ادائیگیوں، سبسڈی اور بحران شامل ہیں تاہم اس میں شامل فریقین کو بھی ایک واضح پیغام دیا گیا ہے اور وہ یہ اگرعمران خان اپنے قریبی ترین ساتھی جہانگیر خان ترین کے ساتھ یہ کچھ کرسکتا ہے تو بقول شیخ رشید کے باقی تو ہلکی پھلکی موسیقی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔

انٹرویو میں ایک سوال کے جواب میں سب سے اہم بات جو شیخ رشید نے وضاحت کے ساتھ بیان کی ہے وہ شہبازشریف کی لندن سے واپسی پر تھی۔ شیخ رشید کے مطابق شہباز آخری فلائیٹ پکڑ کر یہ سوچ کر واپس آیا تھا کہ معاشی بحران اور اس پر کورونا کے سبب حکومت ختم ہونے والی ہے اس لیے واپسی کی جائے کہ شاید حکومت میں کوئی حصہ مل جائے۔ شیخ رشید نے کہا کہ شہباز یہاں پر آکر پھنس گیا ہے اور اب واپسی کے لئے لابنگ کررہا ہے کہ واپس جانے دیں کہ بھائی کا آپریشن ہونا ہے۔ مگر شیخ رشید کا یہ کہنا تھا کہ اب رمضان شریف کے بعد فیصلہ ہوگا کہ شہباز لندن جائے گا یا پھر جیل جائے گا۔ شیخ رشید کے مطابق شہبازشریف اور حمزہ شہباز پر اہم اور مضبوط کیسز ہیں اور ان کے بچنے کے کوئی چانس نہیں ہیں۔

انٹرویو میں میزبان سوالات کررہا تھا اور شیخ رشید صاحب ایک بڑے سے آرام دہ صوفہ پر بیٹھے سکون سے سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے پیش گوئیاں کررہے تھے ایک سوال تھا کہ کیا ن لیگ کے اسٹیبلیشمنٹ سے معاملات اب طے ہوسکتے ہیں تو شیخ رشید نے کہا کہ میراخیال ہے اب کافی دیر ہوچکی ہے اور مجھے لگتا ہے کہ ٹرین مس ہوگئی ہے۔ ایک اور سوال تھا کہ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ سیاست دانوں کی سلیکشن ہوتی ہے تو اس پر شیخ رشید نے کہا کہ سلیکشن کا تومجھے پتہ نہیں ہے مگر یہ مجھے معلوم ہے کہ نواز شریف اورشہبازشریف جی ایچ کیو کے گیٹ نمبر چار کی پیداوار ہیں اور میں اس کا گواہ ہوں۔

اس پروگرام میں میزبان نے کافی سارے دیگر بحرانوں اور حکومتی کارکردگی پر سوالات کیے اور شیخ رشید نے ان کے جواب دیے مگر میرے نقطہ نظر سے مندرجہ بالا سوالات اور ان کے جوابات ہی وہ اہم حصہ تھے جن کے لیے شاید یہ انٹرویو کیا گیا۔ اب اگر اس ساری گفتگو کا بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ حکومت سے متعلق گردش کرنے والی تمام افواہیں جھوٹ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اور ن لیگ کا یہ تاثر دینا کہ کسی اہم رابطے میں ہے اور کسی رعایت کی صورت میں اقتدار کا حصہ بن سکتی ہے تو اس تاثر کی بھی شیخ رشید نے مکمل اور قطعی طورپر نفی کی ہے۔ بلکہ ن لیگ کی موجودہ دستیاب قیادت شہبازشریف کے حوالے سے واشگاف الفاظ میں ان کو پیش آنے والی پریشانیوں کا ذکر کرکے شیخ رشید نے کم سے کم پنجاب میں بڑھتی ہوئی سیاسی بے یقینی کی کیفیت کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔

اب اگر بالفرض شیخ رشید کی یہ پیش گوئیاں حرف بہ حرف سچ ثابت ہوتی ہیں تو پھر مستقبل قریب کا سیاسی منظر نامہ کیا ہوگا۔ تو پھر مستقبل قریب کا سیاسی منظرنامہ حال سے مختلف نہیں ہوگا۔ ن لیگ کی قیادت نے اب تک جتنی گاجریں کھائی ہیں ان کا تو بہرحال جواب دینا پڑے گا ان کو اور اس کے ساتھ ساتھ اب شوگر اور آٹا مافیا پر بھی پکا ہاتھ پڑنے والا ہے اور ان سے گزشتہ اور موجودہ سبسڈیز کانا صرف حساب لیا جائے گا بلکہ رقم وصول کرکے قومی خزانے میں جمع کرائی جائے گی۔

آئی پی پیز کے معاہدوں اور ان کو ہونے والی ادائیگیوں کو بھی کڑے آڈٹ سے گزرنا پڑے گا اور اگر قومی خزانے کو نقصان پہنچا ہے تو وہ نقصان ان سے پوراکیا جائے گا، مطلب یہ معافی نہیں ملنے والی۔ اور کسی حد تک یہ بات ہے بھی ٹھیک کہ جس جس نے بھی قومی خزانے کو نقصان پہنچایا ہے اس کا احتساب ضرور کیا جائے مگر یہ تب کامیاب ہوگا جب یہ احتساب بلاتفریق اور بلا امتیاز ہوگا اس میں حکومت اور اپوزیشن کا فرق نہیں رکھا جائے گا وگرنہ یہ احتساب نہیں انتقا م تصور کیا جائے گا اس طرح کے احتساب سے اپوزیشن عوام میں ہمدردیاں حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔ اور کپتان جو کہ کرپشن کے خلاف احتساب کا مینڈیٹ لے کر آئے تھے ان کو بہرحال بلا امتیاز احتساب کرنا ہوگا۔ اور اگر ایسا ہوا تو شاید ہی کوئی پاکستانی ہو جو اس سے انکار کرئے سب اس طرح کے احتساب کی حمایت کریں گے اور ساتھ دیں گے۔

وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید کی مندرجہ بالا پیش گوئیوں کے بعد سیاست کے ایک طالبعلم کی حیثیت سے میں صرف ایک پیش گوئی کروں گاکہ تحریک انصاف کے موجودہ سیٹ اپ اورطرز حکمرانی سے ملک کسی صورت نہیں چلنے والا اور اگر ملک چلانا ہے تو نا صرف اہم حکومتی عہدوں پر تبدیلیاں کرنا ہوں گی بلکہ طرز حکمرانی کو بھی بدلنا ہوگا۔ وگرنہ یہ طے ہے ٹیکنوکریٹس اور ناتجربہ کار ٹیم کے ساتھ یہ حکومت پاکستان کی عوام کی زندگیوں میں کسی قسم کی بہتری لانے کی اہل نہیں ہے۔

وسیع تر قومی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے بہت سے اقدامات بہت جلد اور ہنگامی بنیادوں پرکرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ایسا کچھ نہیں کیا جاتا تو بظاہر موجودہ حکومت کا یہ تجربہ ناکام ہوچکا ہے۔ اور اس حقیقت کو جتنی جلد ہو تسلیم کرلیاجائے اتنا ہی اچھاہے اوراسی میں ہی عافیت ہے۔ اگر یہ تسلیم کرلیا گیا تو کوئی شک نہیں کہ پھر اس بحران سے نکلنے کے لیے کسی نئے سیٹ اپ پر غور ہوسکتا ہے اور شاید یہ سیٹ اپ پارلیمانی کی بجائے صدارتی ہو۔ گوکہ پھر ایک نیا تجربہ ہوگا مگر مجھے لگتا ہے کم سے کم موجودہ تجربے سے بہرحال بہتر ہی ہوگا اور شاید یہ سب کچھ نا ہو اور کچھ اور ہی ہوجائے اور یہ کچھ اور کیا ہے؟ اس کے متعلق پھر کبھی بات ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments