کیا صدر مملکت کو صرف یہی ایک گناہ نظر آیا ہے؟



پاکستان میں کوروناکی وبا شدت اختیار کرتی جارہی ہے۔ معاشی صورتحال کے پیش نظر لاک ڈاؤن میں بھی نرمی کی جارہی ہے۔ لیکن ماہرین کے مطابق یہ نرمی کیسز کے بڑھتے ہوئے صورتحال کے پیش نظر نقصان دہ ثابت ہوگی۔ اسی نرمی کے پیشِ نظر مساجد کو کھولنے کی بھی مشروط اجازت دی گئی۔ لیکن جوں جوں وقت گزرتا جارہا ہے بڑی شدو مد سے اسی بات پر زور دیاجا رہا ہے کہ اگر کورونا کیسز میں اضافہ ہوا تو مساجد کو بند کرنا پڑے گا۔ صدرِ مملکت کہہ رہے ہیں کہ بیس نکاتی اعلامیہ کی حیثیت اجماع کی مانند ہے لہٰذا اجماع کی مخالفت کرنے والے گنہگار ہوں گے۔

کیا صدرِ مملکت سے کوئی شخص یہ پوچھنے کی جسارت کرسکتا ہے کہ پاکستان میں انہیں صرف یہی ایک گناہ نظر آیاہے؟ بہرحال گزشتہ روز بھی وزیرِ اعظم عمران خان نے انٹرویو دیتے ہوئے یہی کہا تھاکہ اگر کورونا کیسز میں اضافہ ہوا تو مساجد کو بند کرنا پڑے گا۔ فردوس عاشق اعوان بھی یہی گیت گارہی ہیں۔ اب تو مختلف اسپتالوں کے ڈاکٹرز بھی یہی راگ الاپ رہے ہیں۔ انڈس اسپتال کے چیئرمین ڈاکٹر عبدالباری کہہ رہے ہیں کہ مساجد کھولنے سے کورونا وائرس بہت تیزی سے پھیلے گا۔

ان کا کہنا ہے کہ ڈیڑھ مہینے میں جتنے کیسز رپورٹ ہوئے وہ پانچ دن میں ڈبل ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ مساجد کھولنے سے کورونا تیزی سے پھیلے گا۔ لہٰذا علمائے کرام سے اپیل ہے کہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں، تراویح، سنتیں گھر پر پڑھ لیں۔ یہاں تک کہ باہر ممالک سے خطوط آرہے ہیں کہ حکومت اور علماء کو اپنے فیصلے پر نظرِ ثانی کرنی چاہیے۔

بات یہ ہے کہ صرف مساجد ہی کیوں؟ میڈیا انڈسٹری میں کام کرنے والے ملازمین، سڑکوں پر ٹریفک، بازاروں میں ہجوم، مارکیٹوں میں اژدحام کسی کوبھی نظر نہیں آرہا؟ کیا یہ وہ مقامات نہیں ہیں جہاں سے کورونا تیزی سے پھیل سکتا ہے؟ پھر کیوں صرف اور صرف مساجد کو نشانہ بنایا جارہا ہے؟ علماء اور مساجد انتظامیہ کو کیوں دھمکایا جارہا ہے کہ اگر بیس نکات پر عمل نہیں ہوا تو مساجد سیل کردی جائیں گی؟ اگر بنظرِ غائر دیکھا جائے تو جب سے مساجد کے متعلق اعلامیہ سامنے آیا ہے، اس کے فوراً بعد ہی علماء اور انتظامیہ نے عملد ر آمد شروع کردیاہے، اس کے برعکس مارکیٹوں اور بازاروں میں کسی قسم کی احتیاطی تدابیر نہیں دیکھی گئیں۔

افسوس ناک بات یہ ہے کہ ان بازاروں کی تصاویر اور ویڈیوز سامنے آنے کے باجود کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جارہی۔ یہ تمام حقائق سامنے ہونے کے باجود صرف اور صرف مساجد کو ہی نشانہ بنایا جارہا ہے۔ یقینی طور اعلیٰ حکام کے اس رویے اور بیانیے سے اسلام دشمنی کی بو آرہی ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر مساجد کے خلاف اعلامیے سے یہ خدشہ ظاہر ہوتا ہے کہ رمضان المبارک میں مساجد صرف چند دن ہی کھل سکیں گی۔ پھر اچانک کسی بات کو بنیاد بناکر مساجد بند کردی جائیں گی۔

نیز دوسرا خدشہ یہ بھی ہے کہ موجودہ حکومت میں تقریباً ہر معاملہ میں نت نئے طریقوں سے اسلام کو نشانہ بنایا گیا۔ لہٰذا اس معاملہ میں بھی اسلام ہی کو ٹارگٹ کیا جائے گا کہ مساجد کے کھلنے سے کورونا کیسز میں اضافہ ہوا۔ حالانکہ مساجد کے ساتھ ساتھ جوبازار، مارکیٹیں اور انڈسٹریز سمت تقریباًپورا ملک کھولا جارہا ہے، اس سے کوئی نقصان نہیں ہوگا؟ نقصان صرف مساجد کے کھلنے سے ہوگا؟ بہر حال جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے۔

حکومت جو فیصلہ کرے اس کی مرضی ہے، وہ اپنے آپ کو خودمختار مطلق العنان سمجھتی ہے تو سمجھے۔ عوام تو صرف عرض اور گزارش ہی کرسکتے ہیں۔ لہٰذا ایک عرض ہے کہ خدا کے لیے اسلام دشمنی چھوڑ کر کورونا سے بچاؤ کے مثبت اقدامات کیے جائیں۔ جتنا زور اسلام بیزار قوتیں اسلام اور علماء کو بدنام کرنے میں لگارہی ہیں ’اگر یہی قوتیں کورونا وائرس کو پھیلنے سے بچاؤ اور گرتی ہوئی معیشت کو تھامنے میں لگادیں تو پاکستان چند ہی دنوں میں مستحکم ہوسکتا ہے اور نقصان کا ازالہ ہوسکتاہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments