وزیراعظم کورونا پہ قوم کو متحد کرنے میں ناکام کیوں رہے؟



پاکستان میں کورونا وائرس کا پہلا کیس 26 فروری کو رپورٹ ہوا تو سندھ پہلا صوبہ تھا جس نے انتہائی تیزرفتاری سے نہ صرف اس قدرتی آفت سے بچاؤ کے اقدامات اٹھانے شروع کیے بلکہ ایک اسپیشل ٹاسک فورس بنا کر اپنے صوبے کی عوام کی صحت و زندگیوں کی حفاظت کے لئے عملی طور پر کام شروع کیا۔ سندھ حکومت نے سب سے پہلے ملک میں لاک ڈاؤن کرکے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی کوشش کی جس کی تقلید بقایا تمام صوبوں نے بھی کی جبکہ اس دوران وزیراعظم عمران خان اور وفاقی حکومت سندھ کے اقدامات کی مخالفت تو کرتے رہے مگر اپنی پارٹی کی صوبائی حکومتوں کو سندھ کی تقلید سے منع بھی نہیں کیا۔

خان صاحب کورونا وائرس کا معاملہ شروع ہونے سے لے کر آج تک ان دو ماہ میں ایک لمحے کے لئے بھی ایک باہمت، بلند حوصلہ قومی رہنما کے روپ میں نظر نہیں آئے۔ وہ اس وبا کے مہلک اثرات سے لاتعلق، عوام کی صحت و زندگیوں کع لاحق خطرات سے بے فکر، سیاسی بصیرت سے عاری ایک پارٹی کے سربراہ تو لگتے ہیں مگر ملک کی سیاسی تاریخ میں ریکارڈ ووٹ حاصل کرکے مسند اقتدار ہونے والے ایک قومی عوامی لیڈر کسی بھی زاویے سے نہیں نظر آئے۔

آج بھی وزیراعظم کی ترجیحات کورونا وائرس سے نمٹنا اور اسے شکست دینا نہیں بلکہ اپنے سیاسی مخالفین کے گرد انتقامی احتساب کا گھیرا تنگ کرنا اور کورونا کے نام پہ پوری دنیا اور سمندر پار پاکستانیوں سے چندے اور امداد مانگنا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ 22 کروڑ پاکستانیوں پہ کورونا وائرس کے باعث اموات کا خطرہ بڑھ رہا ہے اور وبا کے پھیلاؤ میں مسلسل تیزی اضافہ بھی ہو رہا ہے، لیکن ہمارے وزیراعظم کی سنجیدگی کا اندازہ ان کے روزانہ کی بنیاد پہ بدلتے بیانات سے لگایا جا سکتا ہے۔

وزیراعظم ایک دن کہتے ہیں کہ لاک ڈاؤن سے بھوک اور بیروزگاری کی صورتحال خراب ہو جائے گی تو دوسرے دن کہتے ہیں کہ مئی کورونا کے پھیلاؤ کے حوالے سے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے جس سے ہزاروں اموات بھی ہو سکتی ہیں اس لئے عوام گھروں میں رہیں۔ ایک دن خود ہی بتدریج انڈسٹریز کو کھولنے کے احکامات صادر فرماتے ہیں اور پھر دوسرے ہی دن اس کے بھیانک نتائج سے قوم میں خوف و ہراس بھی خود ہی پھیلاتے ہیں۔ وزیر اعظم کی آشیرباد سے ان کی کابینہ کے کچھ وزرا ہر روز سندھ حکومت پہ کورونا کے پھیلاؤ کے الزامات لگاتے ہیں جبکہ وہ خود اور گورنر سندھ کھلے عام سماجی فاصلے رکھنے کے حکومتی احکامات و ہدایات کی دھجیاں بھی اڑاتے ہیں اور ہجوم کے ساتھ شاہی پروٹوکول لے کر بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی رقوم بانٹنے کے ڈرامے بھی کرتے ہیں۔

وفاقی حکومت کے ان اقدامات اور سندھ حکومت پہ تابڑ توڑ حملے نہ صرف وزیراعظم صاحب اور ان کے حواریوں کی بوکھلاہٹ کا واضح ثبوت ہیں بلکہ اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ وزیراعظم صاحب سندھ حکومت کے کورونا وائرس سے نمٹنے کے بروقت اور دلیرانہ اقدامات کو نہ صرف اپنی تیزی سے گرتی مقبولیت کے لئے خطرناک سمجھتے ہیں بلکہ روز بروز عوامی اور عالمی سطح پر سندھ حکومت کی پذیرائی سے بھی خائف ہیں۔ پچھلے دنوں ایک چینی ماہر کے چینی حکومت کی جانب سے کورونا وائرس کے پھیلاؤ اور اس سے نمٹنے کے لئے اٹھائے گئے اقدامات پہ ایک تجزیاتی رپورٹ منظرعام پر آئی جس میں اس نے کورونا وائرس سے نمٹنے کے لئے چین حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات میں ٹائمنگ کو پہلا نمبر دیتے ہوئے بتایا تھا کہ چین نے کورونا وائرس کے منظرعام پہ آتے ہی فوری طور پر ووہان میں لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا اور یہ فیصلہ صرف تین دن کے اندر لے لیا گیا اور اس پر مکمل عملدرآمد بھی کروایا گیا جس سے اس موذی وبا کی روک تھام میں مدد ملی، مگر ہماری، سیاسی بصیرت، انسانی احساسات اور قومی ذمے داریوں سے نابلد حکومت ایک صوبائی حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے بروقت اقدامات کو سبوتاژ کرنے میں جُت گئی۔

وزیراعظم عمران خان کو ایک مقبول عوامی لیڈر کا کردار ادا کرتے ہوئے فوری طور پوری حزب اختلاف سمیت، صوبائی حکومتوں، علماء کرام، سول سوسائٹی اور ملک کے مقتدر اداروں کو ساتھ بٹھا کر یک رائے قومی فیصلے کرنے چاہیں تھے، مگر بدقسمتی سے سیاسی فیصلہ سازی میں کمزور اور سیاسی عدم استحکام کے شکار وزیراعظم ایسا کرنے سے قاصر رہے۔ وزیراعظم صاحب آج دو ماہ کے بعد بھی قوم کو یکجا کرنے اور کورونا وائرس سے نمٹنے کے حوالے سے ایک متفقہ لائحہ عمل تیار کرنے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔

وزیراعظم آج بھی صرف مخالفین کے خلاف احتسابی انتقام کو تیز کرنے اور اپنے بدزبان، بے لگام بھان متی کے کنبے کے ذریعے سندھ حکومت کے اقدامات کو متنازع بنانے اور پیپلز پارٹی کی لیڈرشپ کو گالیاں پڑوانے کے نئے نئے طریقے آزمانے میں مصروف ہیں۔ گزشتہ روز ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے پوری دنیا کو لاک ڈاؤن نرم کرنے کے حوالے سے نہ صرف اپنے خدشات سے آگاہ کیا بلکہ ان اقدامات کے نتیجے میں کورونا کے مزید تیز پھیلاؤ کے خطرے سے بھی آگاہ کیا۔

پاکستان میں بھی تمام سیاسی تجزیہ نگار اور خاص طور پر ملک میں کورونا وائرس سے جنگ میں مصروف ہمارے صف اول کے سپاہی ملک کے مختلف صوبوں میں مصروفِ عمل بڑے بڑے ڈاکٹرز وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت سے بڑی عاجزانہ دردمندانہ درخواستیں کرتے نظر آ رہے ہیں کہ خدارا لاک ڈاؤن کو مزید سخت کریں، وہ علماء سے اپیلیں کرتے نظر آ رہے ہیں کہ رمضان المبارک میں تراویح کے اجتماعات سے گریز کریں کیونکہ انسانی زندگی کی حفاظت سب سے افضل عبادت ہے، ایسی صورت میں جب مسجد نبوی اور حرم پاک میں تراویح دس رکعت تک محدود اور اجتماع پر پابندی عائد کردی گئی ہے پاکستان میں بھی عبادات گھروں میں کرنے کی ضرورت ہے۔

ایسی صورت حال میں جب وزیراعظم پاکستان کو ایک لیڈر کا کردار ادا کرنا چاہیے اور یک رائے دلیرانہ فیصلے لینے چاہیں، وہ ایک کنفیوزڈ، سیاسی بصیرت سے عاری ایک جماعت کے ایسے سربراہ کے طور پر نظر آ رہے ہیں جو کسی معاملے پر اپنی جماعت میں بھی اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تو قوم کو اس قدرتی آفت میں کس طرح یکجا رکھ سکتا ہے اور ایسا شاید اس لئے ہے کہ عمران خان صاحب آج تک اپنی ذات کے حصار سے نہیں نکل سکے ہیں، وہ اپنی ذات سے بالاتر کسی کو نہیں سمجھتے، وہ اپنے سیاسی ذاتی اختلافات کو قومی عوامی اور ملکی مفادات پہ فوقیت دیتے ہیں، برداشت اور درگزر جیسی خصلتوں سے عاری نظر آتے ہیں حالانکہ وہ اس وقت اسلامی جمہوری پاکستان کے وزیراعظم ہیں اور انہیں اپنے تمام تر اختلافات، نفرتیں، دشمنیاں بالائے طاق رکھ کر پوری قوم کو متحد کرکے اس قدرتی وبا سے نمٹنے کے اقدامات کرنے چاہئیں اور اپنی لیڈرشپ کا ثبوت دینا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments