صبر اور خوف کی جنگ


امریکہ ان دنوں کووڈ نائنٹین یا کرونا وائرس سے بری طرح متائثر نظر آ رہا ہے اور اس ملک میں ہزاروں اموات ہو چکی ہیں جو کہ دنیا کے دوسرے ممالک کی نسبت کہیں زیادہ ہیں۔ اگر آپ کو اپنے شہر ہیوسٹن کی صورتحال بتاؤں تو باقی ملک کی طرح یہاں بھی زندگی اب پہلے جیسی نہیں رہی۔

روزمرہ کے معاملات اور شیڈیولز، سب کچھ کرونا وائرس سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔ وبا پھیلنے سے پہلے یہاں کرونا کا کچھ نہ کچھ خوف تو تھا لیکن باقی امریکی ریاستوں کی طرح یہاں کے لوگ بھی اسے سیرئیس نہیں لے رہے تھے۔

دیکھتے ہی دیکھتے جب کرونا وائرس امریکہ میں تیزی سے پھیلا تو باقی ملک کی طرح قریباّ ڈیڑھ ماہ قبل ہیوسٹن میں بھی لاک ڈاؤن اور احتیاط کا عمل شروع ہوا۔ سب سے پہلے بچوں کے سکول بند ہوئے اور پھر مئیر آف ہیوسٹن اور شہری انتظامیہ کی مشاورت سے شہر کی ایک جج نے شہر میں جزوی لاک ڈاؤن اور سوشل ڈسٹنسنگ کا حکم دیا جو کہ اب بھی لاگو ہے۔

لاک ڈاؤن کیونکہ جزوی رہا اس لیے صرف ٹارگٹڈ لوگوں کو ہی علامات سامنے آنے پر کورنٹین کیا گیا۔
ٹیکسس میں کرونا پازیٹیو کیسز سے ہلاکتوں کے ابتدائی تخمینے تو زیادہ تھے لیکن احتیاطی تدابیر یا جزوی سوشل ڈسٹینسنگ سے تخمینوں سے پانچ گنا تک کم اموات ہوئی ہیں۔

ہیوسٹن میں کرونا وائرس کا پھیلاؤ اس لیے بھی کم رہا ہے کیونکہ یہاں نیویارک یا دوسرے بڑے امریکی شہروں کے مقابلے میں پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کم کیا جاتا ہے اور لوگ سفر کے لیے زیادہ تر پرائیوٹ گاڑیاں استعمال کرتے ہیں۔ یہاں کے لوگ وبا سے تو کم متائثر ہوئے ہیں لیکن یہاں کاروباری اور کارپوریٹ سرگرمیاں بند ہونے سے اچھا خاصا نقصان ہو رہا ہے۔

میں نارتھ ہیوسٹن میں رہتا ہوں جہاں دیسی کافی تعداد میں آباد ہیں۔ میری رہائش گاہ کے قریب نارتھ ہیوسٹن کے علاقے ہل کرافٹ اور ہاروِن کے مصروف ترین کاروباری بلاک میں بیشتر دکانیں اور دفاتر ایک عرصے سے بند ہیں جہاں صبح سے شام تک لوگوں کی چہل پہل رہتی تھی۔ شہر کی مصروف سڑکوں اور ہائی ویز پر ٹریفک بھی پہلے سے چوتھائی نظر آتی ہے اور یہ تھوڑی سی ٹریفک بھی ان لوگوں کی گاڑیوں پر مشتمل ہے جو کہ اپنے گھر سے ضروری خریداری کے لیے نکلتے ہیں یا پھر ان شعبوں سے وابستہ ہیں جنہیں لاک ڈاؤں سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔

ہیوسٹن میں کِئی ہزار مسلمان رہتے ہیں اور شہر میں درجنوں بڑی مساجد ہیں۔ یہ مساجد یہاں کی مسلم امیریکن کمیونٹی پرائیوٹ طور پر چلاتی ہیں۔ ہیوسٹن میں ان میں سے بیشتر مساجد کی سرپرستی ایک نجی تنظیم کرتی ہے جس کا نام اسلامک سوسائٹی آف گریٹر ہیوسٹن یا ’آئی ایس جی ایچ‘ ہے۔ ’آئی ایس جی ایچ‘ نے شہری انتظامیہ کے لاک ڈاؤن اور سوشل ڈسٹینسنگ کے حکم کے بعد باجماعت نمازوں اور مساجد میں ہر قسم کے درس و تدریس کا سلسلہ روک دیا ہے اور یہ پابندی ماہِ رمضان میں بھی جاری رہے گی تاکہ کرونا کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔

مساجد میں نہ تو تراویح کی نماز ہو گی اور نہ ہی افطار کی محافل ہوں گی۔ یہاں کے مسلمان گھر میں ہی روزہ افطار کریں گے اور گھر میں ہی نمازیں پڑھیں گے جب کے پچھلے سال تک یہاں مساجد میں ایک ساتھ افطار اور تراویح کے بڑے اجتماعات ہوتے تھے۔

میرے شہر میں کرونا وائرس کم پھیلنے کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہے کہ یہاں بڑی تعداد میں کرونا ٹیسٹس کر کے متائثرہ مریضوں کو آئیڈینٹیفائی کرنے کے بعد کورنٹین کر دیا گیا ہے۔ اور امریکہ کی دوسری ریاستوں سے ٹیکسس آنے والوں کو بھی چودہ دن تک کورنٹین میں رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ہیوسٹن اور اس سے منسلک شہروں میں شعبہِ صحت کے بہت سے پرائیوٹ اداروں نے کوئی چندہ یا فنڈنگ لیے بغیر عام لوگوں کے مفت کرونا ٹیسٹ کیے ہیں جس کی وجہ سے کرونا وائرس سے انفیکٹڈ مریضوں کی جلد تشخیص ممکن ہوئی ہے۔

کرونا وائرس کے پھیلنے کے بعد کی صورتحال نے ریاست ٹیکسس اور ہیوسٹن کے چھوٹے دکانداروں، غریب افراد، یہاں کی ورکنگ مڈل کلاس اور دیہاڑی دار افراد کو روزگار نہ ہونے کی وجہ سے بہت مشکل میں ڈال دیا ہے۔ یہاں بہت سے لوگ سیونگ نہیں کرتے اور پے چیک ٹو پے چیک چلتے ہیں۔ ایسے لوگ اب کرونا لاک ڈاؤن اور سوشل ڈسٹنسنگ سے اکتا چکے ہیں اور اپنے اخراجات یا بلز کی ادائیگی کے لیے پریشان ہیں کیونکہ امریکی حکام کی طرف سے ملنے والی امداد ان کے لیے ناکافی کہی جا رہی ہے اور لوگ اپنے کاموں پر واپس جانا چاہتے ہیں۔

یہاں کے ہیلتھ آفیشیلز کا خیال ہے کہ شوشل ڈسٹنسنگ اور جزوی بندش اب بھی ضروری ہے تاکہ کرونا کے پھیلاؤ اور اس سے ہونے والی اموات کو کم رکھا جا سکے اور جب تک کہ اس وائرس کے لیے کوئی مستند علاج یا ویکسین مارکیٹ میں نہیں آ جاتی لوگ کورنٹین میں رہیں۔ اس کشمکش میں ہیوسٹن شہر کی انتظامیہ اور مخیر تنظیمیں اپنے طور پر لوگوں کی کچھ نہ کچھ مدد تو کر رہی ہیں لیکن یہ امداد جو چند دن کے راشن، ہینڈ سینیٹائزرز اور ماسکس پر مشتمل ہے، اب ناکافی سمجھی جا رہی ہے۔

بہت سے لوگ نہیں چاہتے کہ وہ دیوالیہ ہو جائیں، ان کے قرض اور قسطوں پر لیے گئے گھر، گاڑیاں، دکانیں او کاروبار مالی اداروں کی جانب سے ضبط کر کے اونے پونے بیچ دی جائیں اور وہ سڑک پر آ جائیں۔ اس لیے اب ہیوسٹن میں بہت سے لوگوں کے لیے لاک ڈاؤن اور سوشل ڈسٹینسنگ کے عمل کو زیادہ عرصے تک جاری رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ جس سے خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنا مزید مشکل ہو جائے گا۔

یہ معاملہ اب ہیوسٹن اور امریکہ کے بہت سے لوگوں کے صبر اور وبا سے موت کے خوف کے بیچ ایک ایسی جنگ بنتا جا رہا ہے جس میں ہار صبر کی ہوتی نظر آ رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments