کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے جراثیم کش گزر گاہیں کتنی مفید ہیں؟


اسپتالوں، بازاروں، عبادت گاہوں، عمارات اور دفاتر کے لیے جراثیم کش گزر گاہوں کی تنصیب آپ نے اخبارات، ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا پر دیکھی ہوں گی۔ یہ راستے کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے کتنے مفید ہیں؟

دسمبر 2019 میں چین کے شہر ووہان سے شروع ہونے والے کورونا وائرس سے اب تک دنیا میں تقریباً 24 لاکھ افراد متاثر ہو چکے ہیں۔ یہ وائرس جسے سارس۔ کووی۔ 2 کا نام دیا گیا ہے، زیریں نظام تنفس کو متاثر کرتا ہے جس کی وجہ سے شدید بخار، خشک کھانسی اور سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔ اس بیماری کو کووڈ۔ 19 کا نام دیا گیا ہے اور اس سے اب تک 1 لاکھ 65 ہزار افراد اپنی جان کی بازی ہار چکے ہیں جبکہ صحت یاب ہونے والے مریضوں کی تعداد 6 لاکھ 25 ہزار ہے۔

عالمی ادارہ صحت اس بیماری کو عالمی وبا قرار دے چکا ہے اور ویکسین یا دوا کی عدم دستیابی کی وجہ سے صرف احتیاطی تدابیر سے ہی اس وائرس کا پھیلاؤ روکا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت آدھی سے زیادہ دنیا میں لاک ڈاؤن ہے، دفاتر، مساجد، تعلیمی ادارے بند ہیں اور صرف روزمرہ کی اشیا کی دکانیں، ریستوران، اسپتال اور دواخانے کھلے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت وائرس سے بچاؤ کے لیے باہمی میل جول میں 6 فٹ کا فاصلہ، مصافحے اور معانقے سے پرہیز، اور دن میں کئی بار صابن اور صاف پانی سے بیس سیکنڈ تک ہاتھ دھونا تجویز کرتا ہے۔ صابن یا صاف پانی کی عدم دستیابی کی صورت میں الکوحل پر مشتمل جراثیم کش محلول ( سینیٹائزرز) بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ مگر یاد رہے کہ ان میں الکوحل کی کم از کم مقدار بھی 60 فیصد ہونی چاہیے۔

کورونا وائرس کی اس وبا میں نت نئے کاروبار بھی پنپ رہے ہیں۔ مثلاً سینیٹائیزرز کی شدید قلت کی وجہ سے بہت ساری کمپنیاں مقامی طور پر ایسے جراثیم کش محلول تیار کر رہی ہیں جن کی ترکیب اور افادیت پاکستان معیارات اور کوالٹی کنٹرول اتھارٹی سے تصدیق شدہ نہیں۔ اسی طرح کچھ کمپنیوں نے بازاروں، عمارتوں، اسپتالوں اور مساجد کے باہر تنصیب کے لیے ایسی گزر گاہیں بنائی ہیں جو گزرنے والے پر جراثیم کش محلول کی پھوار پھینکتی ہیں۔ دعویٰ یہ کیا جاتا ہے کہ ان دروازوں سے بندہ جراثیم سے پاک ہو کر نکلتا ہے۔ مگر یہ وائرس کے پھیلاؤ کی روک تھام میں کتنی موثر ہیں؟

کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا اولین ذریعہ مریض کے منہ یا ناک سے، چھینکنے یا کھانسنے کو صور ت میں نکلنے والے باریک قطرے ہیں۔ یہ رطوبتی پھوار زمین پر گرنے سے پہلے چھ فٹ تک کا فاصلہ طے کر سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روزمرہ میل جول میں 6 فٹ فاصلہ رکھنا تجویز کیا جاتا ہے ان قطروں میں موجود وائرس سطحوں پرپڑنے کے بعد کئی دنوں تک متحرک رہ سکتا ہے۔ مثال کے طور پر کرنسی نوٹوں پر چار دن، لکڑی اور کپڑے پر دو دن جبکہ اسٹیل، پلاسٹک اور سرجیکل ماسک پر سات دن متحرک رہ سکتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ روزمرہ زندگی میں متواتر مس ہونے والی سطحوں کی جراثیم کش محالل کے ساتھ صفائی بھی کووڈ۔ 19 کی روک تھا م مدد دے سکتی ہے۔ دیکھا جائے تو غیر ہموار سطحوں پر وائرس کم قیام پذیر ہے جبکہ ہموار سطحو ں پر اس کی فعالیت نسبتاً زیادہ دیرتک رہ سکتی ہے۔ تا ہم ہموار سطحوں کو جراثیم کش محالل سے صاف کرنا آسان ہے۔ اس ساری تفصیل سے بتانا صرف یہ مقصود ہے کہ منہ، ناک اور آنکھوں کو نہ چھونے اور باقاعدگی سے صابن سے ہاتھ دھونے سے ہی اس مرض کا پھیلاؤ روکا جا سکتا ہے۔

لہٰذا مساجد یا بازاروں میں جراثیم کش گزر گاہوں کی تنصیب بے معنی ہے۔ ایسے دروازوں سے گزرنے کے بعد مریض اپنی چھینک اور کھانسی سے دوسروں تک وائرس منتقل کر سکتا ہے۔ جہاں تک کپڑوں پر وائرس کی ممکنا موجودگی کی بات ہے تو گھر جانے پر فوراً ہی ان کو اتار کر صابن یا غیر صابن ی مصفی (ڈیٹرجنٹس) اور گرم پانی کے ساتھ دھو نا کافی ہوگا۔

اب آتے ہیں جراثیم کش کیمیائی مرکبات کے ایک اور پہلو کی طرف۔ عمومی استعمال کے جراثیم کش کیمیائی مرکبات میں کلورین (اور اس کے مرکبات جیسا کہ گھریلو بلیچ) ، ہائیڈروجن پر آکسائیڈ، فینولکس اور الکوحل (ایتھانول اور آئسو پروپانول) اور کچھ ایلڈی ہائیڈز (فارم ایلڈی ہائیڈ، گلوٹرایلڈی ہائیڈ) شامل ہیں۔ جراثیم کشی کے لیے ان مرکبات کی مجوزہ مقدار پانی میں حل کر کے سطحو ں پر لگائی جاتی ہے۔ ان محالل کی افادیت کے لیے ضروری ہے کہ انہیں سطحوں پر پانچ سے دس منٹ تک لگا رہنے دیا جائے اور پانی سے صاف کرنے کے بجائے ہوا سے خشک ہونے دیا جائے۔ مزید براں، ان کیمیکلز کی مجوزہ مقدار ہی جراثیم کے خلاف مفید ہے اس لیے استعمال کے پہلے لیبل پر دی گئی ہدایات کے مطابق کی محالل بنانے چاہییں۔

امریکی ادارہ برائے تدارک امراض کے مطابق، ایلڈی ہائیڈز اور کلورین ہسپتالوں میں صفائی پر متعین عملے میں پیشہ ورانہ بیماریوں کا سبب بنتے رہے ہیں۔ لہٰذا حفاظتی تدابیر جیسا کہ دستانوں کا استعمال اور اچھی ہواداری (وینٹیلیشن) نہایت ضروری ہیں۔ یہ کیمیکلز دمہ اور سانس کی دوسری بیماریوں میں مبتلا مریضوں کے لیے بھی بہت خطرناک ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح سوڈیم ہائپو کلورائیٹ (گھریلوبلیچ میں موجود مقدار پانچ سے چھ فیصد) جو کہ سطحوں کی صفائی کے لیے نہایت مفید ہے، کا پھوار کی صورت میں جراثیم کش گزر گاہوں میں استعمال نہایت خطرناک ہو سکتا ہے کیونکہ یہ کیمیکل آنکھوں جلد اور پھیپھڑوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ تاہم سطحوں کی جراثیم کشی کے لیے یہ مرکب مفید ہے اور امریکی ادارہ برائے تحفط ماحول کے مطابق ماحول کے لیے نقصان دہ نہیں۔

ہائیڈروجن پرآکسائیڈ کا پانی میں محلول (تین سے چھ فیصد) وائرس، بیکٹیریا اور فنجائی کے خاتمے کے لیے زود اثر ہے۔ اس کے علاوہ یہ اینڈوسکوپ، وینٹیلیٹر، کنٹیکٹ لینز کی جراثیم کشی کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ تاہم جراثیم کش گزر گاہوں میں اس کیمیکل کا استعمال آنکھوں اور جلد کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں ہائیڈروجن پرآکسائیڈ کے محلول کا پھوار کی صورت میں استعمال دمہ یا الرجی کے مریضوں کے لیے مہلک ہو سکتا ہے۔

فینول اور اس سے بننے والے مرکبات (فینولکس) بھی ماحولیاتی سطحوں (ٹیبل، فرش، مشینیں وغیرہ) کی جراثیم کشی کے لیے، ادارہ برائے تحفظ ماحول کے منظور کردہ ہیں۔ تاہم نو مولود بچوں میں یہ ایک طرح کے یرقان کا باعث بنتے رہے ہیں۔ (ڈیٹول کا شمار فینولکس میں ہوتا ہے )

کھلی جگہوں پر متواتر جراثیم کشی ماحولیاتی آلودگی کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ علاوہ ازیں جراثیم کش مرکبات کو اس پیمانے پر استعمال کرنا روپے کا بے جا اصراف ہے۔ دنیا بھر میں جراثیم کش کیمیائی مرکبات کی کمی بھی ہے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ انہیں وہاں استعمال میں لایا جائے جہاں ان کی صحیح معنوں میں ضرورت ہے، جیسا کے اسپتال۔

کسی بھی طرح کے جراثیم کش کیمیکل کا پھوار کی صورت میں گزرگاہوں میں استعمال صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ مزید یہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی روک تھام میں بھی مددگار نہیں اور عالمی ادارہ صحت بھی اپنی ویب سائٹ پر پورے جسم پر جراثیم کش سپرے کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ یہ جراثیم کش گزر گاہیں گزرنے والوں کو جراثیم سے پاک ہونے کی ایک جھوٹی امید بھی دلاتی ہیں جس کی وجہ سے وہ صابن سے ہاتھ دھونے کو نظر انداز کرتے ہوئے وائرس سے متاثر ہو سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments