ذرا ہٹ کے


ان دنوں مملکت خداداد کی حالت یک انار صد بیمار کی تصویر پیش کرتی ہے وسائل کی فراوانی ہو تو ہرمستحق تک پہنچا بھی جا سکتا ہے، مدد بھی ممکن ہیں اور اصول بھی یہ ہی ہے کہ یہ ریاست کی ذمہ داری بھی ہونی چاہیے مگر اس کے لئے اولین شرط نیت ہے کہ جس کا فقدان وسائل ہو یا نہ ہو سب پر بھاری ہوتا ہے۔ اس تاب و تب کی تو بات ہی کیا نارمل حالات میں بھی حکومت تدلیس پر ہی گزارا کرتی چلی آ رہی ہے۔ اور آج کل بھی اس کا چلن ہے۔

خیر یہ تو روٹین کی بات ہوئی اور ہم لوگ اس کے کسی قدر عادی بھی ہو چکے ہیں۔ لیکن عوام شناسی کے خود ساختہ دانشور آج بھی اپنے دلفریب نعرے، دلکش انداز، اور دلربا جلوؤں کے ساتھ میدان کارزار میں اترے ہوئے ہیں۔ وہ ہی سبز باغ دکھا کر یو ٹرن اس سوکھے سوکھے بے مزہ موسم میں بھی غم غلط کرنے کی خاطر ایک الگ، علیحدہ علیحدہ، اور ایک ایک کر کے ٹھہرے ہوئے پانی کی سطح پر نمودار ہونے والی سبز کاہی کو صحن گلستاں پر تعبیر کر رہے ہیں۔

اس خانماں بربادی کے دور میں تبدیلی آب و ہوا کی خاطر بھی کہیں کا سفر ممکن نہیں کیوں کہ یک آواز گیت سے ایک ہی سر نکل رہا ہے اور وہ ہے ”کرونا کرونا“ سو اشراف و امرا ہو یا مجھ جیسا حقیر سب اعوذ باللہ پڑھکر خدا کی پناہ چاہتے ہیں۔ اور دنیا کے کونے کونے میں بسے ہوئے ابن آدم کی خیر مانگتے ہیں۔ اللہ جانے کب آب حیات تک پہنچنے والے پہنچینگے ابھی تو دور دور تک ایسی کسی ویکسین کی خبر ندارد۔ ۔ سو راقم الحروف بھی کسر ذہانت کا مظاہرہ اس کالم کے توسط سے کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور وہ یوں کہ حفظان صحت کے رہنما اصول بتا نے کی بجائے بر محل اور بر موقع ایسی خوشخبریاں آپ سے شیئر ‏کروں کہ جن کو جملے بے سوچے سمجھے بولنے والوں نے اب تک بولا نہ ہو اور لکھنے والوں نے لکھا نہ ہو۔

ذرا سنیے اسی موسم میں رمضان کی آمد آمد ہے بس جو الہی فرض کی ادائیگی میں استقلال صبر اور مستقل مزاجی سے اپنے پیارے رب سے رشتہ استوار کرنا چاہے کر سکتا ہے اعتکاف کے لیے وقت بھی میسر ہے اور وقت کا تقاضا بھی یہی ہے یعنی سیلف آئسولیشن۔ دوئم نیک شگون کے طور پر آج کل وائی فائی کی سپیڈ کو لیا جاسکتا ہے سوشل ڈسٹنسنگ پر پیاری قوم عمل پیرا ہو یا نہ ہو مگر موبائل کمپیوٹر لیپ ٹاپ سے اللہ ان کو ڈسٹنس کر دیں آمین۔

جس طرح مجرم پیشہ لوگوں کی مخصوص بولی ہوتی ہے بالکل اسی طرح وبائی امراض کے دوران بھی کچھ مخصوص انداز و اطوار سے سامنا ہے جو کسی زمانے میں مجرموں کے ہی زیر استعمال ہوا کرتے تھے جیسے دستانے اور نقاب اگر یہی کسی نازک اندام سے متعلق ہوں تو ”قطار بند“ جھنڈ کے جھنڈ سلامی دیتے نظر آتے مگر آج کل تو یہ ایک ثانوی سی بات ہی بن چکی بلکہ دکھائی دیتی ہے سو بذریعہ مضمون ہذا قارئین کو اطلاع دی جاتی ہے کہ وہ بھی اگر چاہیں تو اپنے ذہن رسا سے مرتب ایسی تجاویز ارسال کر سکتیے ہیں اور ارسال کرنے کی بہترین جگہ سوشل میڈیا ہوگا بشرطیکہ وائی فائی چل رہا ہو، جس میں خلق خدا کے لئے مزید خوشخبریاں یا دلچسپیاں ہواور پاکستانی اقدار کی پاسداری ہوسکے کیونکہ ہم بہت سے معاملات میں یا تقریباً سبھی معاملات میں اقوام عالم سے قدر منفرد واقع ہوئے ہیں سو اس انفرادیت کو امید ہے اور کر بھی یہی رہے ہیں کہ خاص وبائی دور میں بھی ضرور برقرار رکھا جانا چاہیے اور حکومتی اوامر و فرامین کو محض رضاکارانہ طور پر ہرگز ہرگز نہیں ماننا چاہیے اور سچ یہ ہے کہ حکومت، حزب اختلاف اور ماہرین صحت کے مشوروں کے باوجود تسلیم کر بھی نہیں رہے ہیں۔

اپنی تیاری شان کے بھی کچھ تقاضے اور پیمانے ہیں بخار کے بعد ہونٹ کی پھنسی کا علاج پہاڑی نمک سے ہی کرنا ہے چاہے یہ فارمولا دنیا کے کسی سائنسی لیبارٹری میں تصدیق شدہ ہو یا نہ ہو۔ رہی آخری بات تو شگون کے طورپر قیافہ شناسوں سے سنا ہے کہ اس موسم میں کوئی شوخی مارنے اختلاف کرنے یا انصرام و اہتمام سے مکمل پرہیز کرے ورنہ صرف دھمکی پر گزارا نہیں کیا جائے گا جن کے پاس ڈنڈا ہے وہ ابھی بھی ڈنڈا چلا دیں گے سو سیاسی کارکنوں اور اخبارنویسوں سے درخواست ہے کہ کسی قسم کی رپورٹ شائع کرنے یا نیا بیان دینے سے کہیں بہتر ہے بے چون وچرا حکومتی اقدامات کا بے انتہا شکریہ ادا کرتے نظر آئے چاہے اقدامات ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہو یا نہ نظر آ رہے ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments