” الف کو گناہ سے بچائیں“ کے بارے میں الف کے تحفظات


ہمارے ایک یار عزیز اور معروف کالم نگار نے اپنے کالم ”الف کو گناہ سے بچائیں“ میں الف کو درپیش مسائل کا تذکرہ کیا ہے۔ میرے یہ دوست بلاشبہ بڑے باکمال کالم نگار ہیں۔ ایک زمانہ اُن کے اندازِ تحریر اور شگفتہ بیانی کا قتیل ہے۔ وہ جس طرح سلگتے سماجی مسائل کو بڑے ہلکے پھلکے لیکن نہایت مدلّل انداز سے زیرِ بحث لاتے ہیں وہ بے حد قابلِ تحسین ہے۔ متذکرہ بالا کالم میں الف کے بارے میں اُن کے خدشات بجا لیکن زیادہ بہتر ہوتا اگر وہ الف کے مسائل تحریر کرتے ہوئے ایک آدھ بار الف سے ملاقات بھی کر لیتے۔

اور اگر ملاقات ممکن نہیں تھی تو کم از کم الف کی رائے ہی معلوم کر لیتے۔ اب اتفاق کی بات ہے کہ جس الف کا تذکرہ قابلِ احترام کالم نگار نے کیا ہے میری اس سے دیرینہ شناسائی ہے اور اکثر ملاقات بھی رہتی ہے۔ کالم سامنے آیا تو میں نے فوراً الف کا موقف جاننے کی کوشش کی۔ موصوف نے بتایا کہ وہ بھی کالم پڑھ چکے ہیں اور اس پہ تفصیلی بات کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے ملاقات کے لیے کہا تو الف نے کرونا وائرس کی وجہ سے پیدا شدہ نفسا نفسی کی کیفیت کے باوجود اپنی متحمل مزاجی اور نفیس طبیعت کی بنا پر ملنے کی ہامی بھر لی۔

الف میرے ہاں آیا، گفتگو شروع ہوئی تو میں نے بغیر وقت ضائع کیے اس سے سوال کیا کہ کیا وہ کالم نگار کی رائے سے متفق ہے۔ اس پر الف نے بتایا، ”بہت معذرت کے ساتھ! میں کہنا چاہتا ہوں کہ کالم ’الف کو گناہ سے بچائیں‘ میں جو موضوع زیرِ بحث لایا گیا ہے فاضل کالم نگار کو اس کی الف ب کا بھی پتہ نہیں۔“ اس پر میں نے الف کو ٹوکتے ہوئے کہا کہ شاید اسے علم نہیں کہ میرے وہ دوست بڑے منجھے ہوئے، صاحبِ اسلوب اور ہر دلعزیز کالم نگار ہیں۔

اس پر الف نے کہا، ”میں بھی اس بات کا معترف اور ان کا باقاعدہ قاری ہوں۔ اکثر وہ بڑی پتے کی باتیں اپنے مخصوص شگفتہ انداز میں بہت خوبصورتی سے بیان کرتے ہیں اور کبھی تو اپنے کمال سے حیران کر دیتے ہیں لیکن گاہ مایوسی بھی ہوتی ہے جیسا کہ زیر بحث کالم پڑھنے کے بعد ہوئی۔“ میں نے پوچھا کہ آپ کو اس کالم پر بڑا اعتراض کیا ہے؟ اس پر الف کہنے لگا، ”کالم کے پہلے حصے میں جو میری تصویر کشی کی گئی ہے، اگر خود نمائی نہ ہو تو میں کہوں گا کہ وہ کافی حد تک درست ہے لیکن بعد ازاں میری جو خواہشات بتائی گئی ہیں اور ان کی عدم تکمیل کی صورت میں بے چینی اور مایوسی کی جو باتیں میرے ساتھ منسوب کی گئی ہیں حقیقت میں اُن سے میرا دور کا واسطہ بھی نہیں ہے اور یہی میرا بڑا اعتراض ہے۔“

”مجھے افسوس سے کہنا پڑرہا ہے کہ بعض اوقات ہمارے کچھ کالم نگار معاشرے کے کسی طبقے کا کندھا استعمال کرتے ہوئے اپنا ذاتی نقطہ نظربیان کرتے ہیں۔ میں اگر غلطی پر نہیں توشاید اس کالم میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ مزید برآں میں عرض کروں گا کہ جس طرح ہمارے ہاں بعض نام نہاد این جی اوزصرف اُن خواتین کو ہی مظلوم سمجھتی ہیں جو گھر سے بھاگی ہوئی ہوں یا بھاگنا چاہتی ہوں اور اُنہیں اُن خواتین سے ہونے والی دیگر معاشرتی نا انصافیاں اتنی قابلِ توجہ نہیں لگتیں میرے خیال میں ایسی این جی اوزکی طرح ہمارے وہ ادیب اور کالم نگار بھی غلطی پرہیں جو سمجھتے ہیں کہ کسی انسان کو صرف دنیاوی آسائشیں ہی راہِ راست پررکھ سکتی ہیں ورنہ وہ گناہ کی طرف چلا جائے گا۔“

یہاں میں نے الف سے پوچھا کہ کیا وہ اُس کالم میں مذکور مسائل کا شکار نہیں ہے اور کیا یہاں اٹھائے گئے سوال اس کے ذہن میں نہیں آتے۔ اس پر الف نے تفصیلی بتایا کہ، ”نہیں ایسا بالکل نہیں ہے۔ دیکھیں! مجھے لگتا ہے جو کردار یہاں زیرِبحث لایا گیا ہے ان کے بارے میں موصوف کالم نگار کی معلومات شاید بہت ہی محدودہیں۔ وہ خود اس کردار یعنی الف کے بارے میں لکھ رہے ہیں کہ وہ ایک بے ریا اور باعمل مسلمان رہا اور فرائض منصبی یوں دیانت داری سے ادا کیے کہ لقمہ حرام کو کبھی پاس پھٹکنے بھی نہ دیا تو پھر سوچیے بھلا ایسا شفاف انسان گناہ کا تصور کر کے اپنی منزل کیوں کھوٹی کرنا چاہے گا کیا وہ چاہے گا کہ اس کی تیار فصل تباہ ہو جائے۔

کالم نگار نے لکھا ہے کہ الف سوچتا ہے کہ اس کو تقویٰ کا صلہ کیا ملا۔ نامحترم نا! الف ایسا بالکل نہیں سوچتا۔ اُسے پتہ ہے کہ نیکی توآپ اپنا صلہ ہوتی ہے۔ اور دوسرے تقویٰ اور عبادت سوداگری تھوڑی ہوتی ہے۔ اس پر تو بقول اقبالؔ بندے کو جزا کی تمنا بھی ایک طرف رکھنی پڑتی ہے۔ اور پھر ہمیں تو حکم ہے کہ اوپر کی بجائے نیچے دیکھنا چاہیے کہ اس سے شکر گزاری آتی ہے اور کیا یہ حقیقت نہیں کہ میرے احوال کروڑوں لوگوں سے بہتر ہیں۔

اور پھر رحمتِ الہی سے اگر زندگی صاف ستھری گزر جائے تو اس سے بڑی کیا نعمت! اور اس سے ملنے والی تسکین اور سرشاری کا نعم البدل اور کیا ہوسکتا ہے۔ دانشؔ نے کہا تھا۔ ”صد شکر کہ افلاس کی یلغار میں دانشؔ۔ فاقہ کوئی توہین ہنر تک نہیں پہنچا۔“ طمانیت بھرا یہ مقام کسی کم نصیب کو تھوڑی ملتا ہے۔ ہاں اس کے لیے ”مزے جہاں کے اپنی نظر میں خاک نہیں“ والی کیفیت ضروری ہے جوخونِ جگر کے ذائقے کے بغیر ممکن نہیں۔

اور پھر ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اس دنیا کی حیثیت ایک مومن کے لیے تو ویسے بھی قید خانے کے سوا کچھ نہیں۔ اسلامی تاریخ پر اگر ایک مخلصانہ نظر ممکن ہو تو ہر حالت میں شکر گزاری ساتھ رہتی ہے۔ اگر غزوہ تبوک میں کے صحابہ کرامؓ کے احوال سامنے ہوں، عمر بن عبدالعزیزکے اپنے شاندار دور خلافت میں اُن کی ضرب المثل درویشی پیش ِ نظر رہے اور سب سے بڑھ کر اگر سردارِدو عالم رسول ِاکرم ﷺ کی حیاتِ مبارک سامنے ہو جن کے گھر میں اکثر فاقوں کے ڈیرے رہتے تھے تو بندہ زندگی میں تقوے کے صلے کے لیے پریشان نہیں ہوتا۔

اور نہ ہی وہ آسائشیں نہ ملنے سے ناآسودہ ہوتا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جب سردارالانبیاء حضوراکرم ﷺ کے جسمِ اطہر پر حضرت عمر ؓ نے ننگی چٹائی کے نشان دیکھے تو پریشان ہو گئے اور قیصرو کسریٰ کی آسائش بھری زندگی کا تذکرہ کیا جس پر حضورپاک ﷺ کے فرمان کا مفہوم تھا کہ قیصرو کسریٰ کے لیے یہ زندگی ہے اور ہمارے لیے آخرت۔

الف نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا، ”اور آخر میں میں کہوں گا کہ متذکرہ کالم میں محترم کالم نگارنے میرے Behalf پر جن سوالوں اور الجھنوں کا تذکرہ کیا ہے وہ میرے ذہن میں تو کبھی نہیں آئے البتہ میں آپ کے توسّط سے اُن محترم سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ کیاآسائشیں، سہولتیں ملنے سے زندگی میں سکون یقینی ہے؟ کیا ایسی خواہشیں پوری ہو جانے سے انسان مطمئن ہو ہو جاتا ہے؟ سکندر کی موت سے منسوب حکایت میں ایک سبق ہے کہ ایک قبر اب اس کے لیے بہت کافی ہے جس کے لیے ساری دنیا ناکافی تھی۔ تمنا کا دوسرا قدم کہیں نہیں ملتا، دشتِ امکاں میں نقشِ پا ملتے ہیں۔ اور پھر یہ اپنے نصیب کی بات ہوتی ہے کہ کوئی کروڑ کی گاڑی میں سکون تلاش کرتا ہے اور کوئی رات کے پچھلے پہر سجدے میں!

تیری خاک میں ہے اگر شرر تو خیالِ فقروغنا نہ کر
کہ جہاں میں نانِ شعیر پر ہے مدارِ قوتِ حیدری


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments