دنیا ہی بدل گئی



پچھلے چار مہینوں میں تو ہماری دنیا ہی بدل گئی ایک نظر نہ آنے والے وائرس کی بدولت۔ سونا جاگنا، کھانا پینا، آنا جانا، پڑھنا لکھنا، گھر دفتر، غرض سب کچھ ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔ یہ وبا ہے یا بلا جس نے مسجد، مندر، گردوارہ، چرچ، کعبہ، کلیسا سب سونے کر دیے، ۔ عبادت کے آداب بدل گئے۔ میل ملاپ، پکنک، پارٹیاں، میلے ٹھیلے، دعوت ہلا گلا سب بند۔ صرف گھر کی چہار دیواری اور گھر میں رہنے والے وہ چند افراد جنھیں آپس میں بات کرنے کی فرصت نہیں ملتی تھی، اب وہی محور اور مرکز ہیں، قریبی دوست رشتے دار بھی صرف فون یا ویڈیو کال پر ملتے ہیں بات کرتے ہیں اللہ اللہ خیر صلا۔ لوگ گھروں میں مقید ہیں اس ظالم کے خاتمے تک، آن لائن اسکول کالج چل رہے ہی، دفتر بھی گھر میں کھلے ہیں۔

پھرنا پھرانا ختم کرد، آیا گیا تمام شد
عہدِ وبا شروع شد، عہدِ وفا تمام شد
سعود عثمانی
یہ وبائی انقلاب ایک وائرس کی بدولت آیس یعنی کووڈ 19 جسے عرفِ عام میں کورونا وائرس کہا جارہا ہے۔ اس نے وبا کی صورت میں تمام دنیا کو لپیٹ میں لے لیا۔ ہم نے کب ایسا سوچا تھا، سب اپنی اپنی دنیا مین مست تھے سب کچھ تہہ وبالا کردیا اس وبا نے، اس کورونا کی بدولت معاشرتی آداب ہی بدل گئے۔ سماجی فاصلہ رکھنا لازم ہوگیا، مصافحہ اور معانقہ ممنوع ہوا، کھانسنا چھینکنا جرم قرار پایا۔ بھارت میں ایک ناکام عاشق نے کورونا میں مبتلا ہونے کے بعد اپنی محبوبہ سے محبت کا ثبوت یوں دیا کہ اس کے پاس جاکر چھینک مار دی اس جرم میں پولیس نے اسے پکڑ لیا لیکن بے چاری محبوبہ کو پندرہ دن کے لیے قرنطینہ میں رہنا پڑا۔ پہلے جو بد تہذیبی تھی تہذیب ہوئی دور سے آداب کہنا درست یا پھر ہیلو ہائے بائے وہ بھی چھ فٹ کے فاصلے سے۔ ہاتھ دھونا بار بار دھونا لازم ہوا، الکحل ستر فیصد سینٹائزر ہاتھوں پہ ملنا ضروری چاہے مسلم ہو یا غیر مسلم۔

خموش بیٹھے ہو کب سے کرونا بات کوئی
یہ بات سن کے وہ کچھ اور دور جا بیٹھا
باصر کاظمی
ماہرین کا کہنا ہے کہ وبا ختم ہونے کے بعد بھی وبا کے اثرات دو سال تک رہیں گے اور یہی طرز معاشرت دوسال تک برقرار رکھنی پڑے گی، پھر ہم عادی ہو جائیں گے اس طرز کے۔ ہماری آنے والی نسلیں دعا سلام سے بھی گئیں، ہم انھیں بتایا کریں گے کہ کیسے پہلے کے لوگ سلام کرکے ہاتھ ملاتے تھے، گلے ملتے تھے دے تالی کہہ کر داد دیتے تھے۔ بزرگ سر پر ہاتھ پھیر کر دعا دیتے تھے۔ کتنا ظالم ہے یہ وائرس جادو کی جھپی کا جادو ختم کردیا۔

محبت کرنے کے اطوار پرانے ہوگئے اب دوبارہ سے اشاروں اشاروں میں دل کی باتیں کہی اور سنی جائیں گی، نگاہوں کی زبان محبت کرنے والوں میں قبول عام ہوگی۔ ”آ سینے نال لگ جا ٹھا کرکے“ جیسے ڈائیلاگ ماضی کا حصہ بن گئے، ”کیوں دور دور رہنے ہو حضور میرے کولوں“ جیسے گانے بھی اچھے نہیں سمجھے جائیں گے بلکہ دور رہنے میں ہی عافیت اور زندگی ہے میرے حضور۔ دوریاں اور فاصلے پیارے ہوگئے کیونکہ زندگی زیادہ پیاری ہے۔ ملن کے دن خواب ہوئے، ہائے کورونا تونے کیا کیا، بڑا ہی بد اخلاق وائرس ہے ساری اخلاقی قدریں ہی بدل دیں۔

یہ تو بھلا ہو سوشل میڈیا کا لوگ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، حال احوال سب اس کی بدولت پتہ چل جاتا ہے، انٹر نیٹ کا شکریہ کہ اس وبا میں بھی رابطہ قائم ہے۔ ہم جیسوں کے لیے سوشل میڈیا سہارا ہے، دعائیں، دوائیں، ٹوٹکے تو چل ہی رہے ہیں، ویڈیوز بنا کر دل خوش کیا جارہا ہے کوئی کھانے کی تراکیب شیئر کررہا ہے کوئی کتاب کے اقتباسات پڑھ کر وقت گزار رہا ہت، اس کے ساتھ ساتھ کورونائی ادب بھی تخلیق ہورہا ہے اس وقت تو یہ ایک جزوقتی مشغلہ ہے ان شاء اللہ وقت بدلے گا اور حالات نارمل ہوں گے تب اس شعری ادب کو ایک اہم مقام حاصل ہوگا کیونکہ اسے پڑھ کر وبا کے دنوں کی شدت کا اندازہ ہوگا

کیا کسی اور سے اب حرفِ تسلی کہیے
روئیے خود سے لپٹ کر کے وبا کے دن ہیں
عقیل عباس جعفری
کسی ایک ملک کا رونا نہیں بلکہ ساری دنیا کا کورونا ہے، ساری حکومتوں کا ناک میں دم کردیا اس نے سب کی اکانومی جواب دے رہی ہیں ہر ملک کی نظر ورلڈ بینک اور ڈبلیو ایچ او پر لگی ہے۔ بہت ترقی یافتہ بنتے تھے ساری ترقی دھری رہ گئی

دنیا کو انتہائے ترقی پہ ناز تھا!
اوندھی پڑی ہے خاک پہ اس انتہا کے بعد
یشب تمنا
مانگ لو رب سے رحم وکرم کیونکہ فی الحال اسی طرح جینا ہوگا ورنہ کورونا کی موت مرنا عبرتناک ہے، نہ کفن نہ دفن، نہ نمازِ جنازہ، پلاسٹک کے تھیلوں مین چپ چپاتے تدفین

کون کہتا ہے یہ وبا کے دن ہیں؟
آنکھیں کھولو یہ سزا کے دن ہیں
مانگ لو معافیاں رب سے عاجز
بات سمجھو یہ دعا کے دن ہیں
حماد عاجز۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments