معاشی گینگ ریپ اور احتساب
پاکستان کا المیہ ہے کہ اس ملک کو کبھی بھی کوئی قیادت خالص نہیں ملی اگر کوئی فوجی آمر اقتدار پر قابض ہوا تو اس نے کچھ مدت بعد جمہوری بننے کی کوششیں شروع کردیں اور انتخابات کے ذریعے سیاہ وسفید بننے کی کوشش کی اور اگر کوئی جمہوری حکمران آیا تو اُس نے جمہوری راستے کو چھوڑ کر مطلق العنان آمر بننے کی کوشش کی حتیٰ کہ امیرالمومنین بننے کا سوچنے لگے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہر دوطرح کے اقتدار میں ملک وقوم کا بھلا نا ہوسکا۔
اکتوبر 1999 ء میں جب نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ کر جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ تو قوم سے بطور چیف ایگزیٹو خطاب کے دوران جنرل پرویز مشرف نے اپناسات نکاتی ایجنڈا پیش کیا جس میں سب سے اہم پوائنٹ بلاتفریق اور بلا امتیاز احتساب کا تھا۔ اس سات نکاتی ایجنڈے کا اس وقت عمران خان سمیت پوری قوم نے خیر مقدم کیا۔
مشرف دور میں احتساب عملی طورپر شروع ہوگیا۔ نومبر 1999 میں نیب کا قانون ایک آرڈیننس کے ذریعے نافذ کردیا گیا اور نیب چیئرمین جنرل امجد کی سربراہی میں سیاسی، کاروباری اور کرپٹ بیوروکریٹس کی گرفتاریاں شروع ہوگئیں۔ یہاں تک تو سارے معاملات ٹھیک چلتے رہے مگر جب ملک کے چیف ایگزیٹو جنرل مشرف کو احساس ہوا کہ ُان کواپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے سیاسی حمایت درکار ہے اور یہ سیاسی حمایت جن سیاسی خانوادوں نے دینی ہے وہ تو نیب کے زیر عتاب ہیں تو پھر احتساب پر سیاسی مصلحت غالب آنا شروع ہوگئی۔
نیب زدہ افراد جیلوں سے سیدھا ایوانوں میں پہنچنے لگے اوراس طرح جنرل مشرف کی سیاسی حمایت اور سیاسی طاقت میں دن بدن اضافہ ہونے لگا۔ بہرحال یہ کسی المیے سے کم نہیں کہ جنرل مشرف نے محض اپنے اقتدارکے دوام کی خاطر کرپشن کے خلاف شروع کی جانے والی جنگ ہار دی۔ اس کے بعد وہی ہوا جو ہر فوجی آمر کے ساتھ ہوتا آیا ہے۔ جنرل مشرف مستعفی ہوگئے یوں ایک بار پھر ملک بھر کی کرپٹ اشرافیہ اورمافیاز کے خلاف احتساب کا خواب ادھورا رہ گیا۔
11 مئی 2013 کو ملک بھر میں عام انتخابات ہوئے اور اس بار مسلم لیگ ن کی باری تھی۔ نواز شریف تیسری بار ملک کے وزیراعظم بن گئے۔ نئی حکومت نے کام شروع کیا تو اپوزیشن نے ان انتخابی نتائج کو مسترد کردیا۔ پہلی بار ملک کی سیاسی تاریخ کا طویل ترین دھرنا دیا گیا۔ عمران خان کے احتساب کے بیانیے کو میڈیا نے بھی پروان چڑھایا۔ کپتان کی حمایت میں دن رات غیر معمولی اضافہ ہونے لگا۔ طے ہوگیا کہ اگلا وزیراعظم عمران خان ہی ہوگا۔
مگرجب 2018 کے عام انتخابات کا بگل بجا تو معلوم ہوا کہ کپتان کے پاس تو مطلوبہ کھلاڑی ہی نہیں ہیں جن کو انتخابی میدان میں اتارا جائے۔ لہذانمبرز کو پورا کرنے کے لیے امیدواروں کی سیاسی وفاداریاں تبدیل ہوئیں، سیاسی جماعتوں کے امیدواروں سے ٹکٹیں واپس کرائی گئیں گویا ہر وہ حربہ استعمال ہوا جس سے کپتان کی کامیابی یقینی ہوسکے۔ اور بالآخر 25 جولائی کی شام کپتان نے اس لکیر کو پار کرہی لیا جس کے بعد کی منزل وزیراعظم ہاؤس تھی۔
اوراب انتخابی مہم کے دوران کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے کا وقت تھا۔ عوام پر امید نظروں سے کپتان کی طرف دیکھنے لگے۔ تبدیلی سرکار نے کام شروع کردیا مگر ملک کے معاشی حالات پہلے سے زیادہ خراب ہوتے گئے۔ عام آدمی کی معاشی حالت روزبروز خراب ہونے لگی۔ لاکھوں گھر اور کروڑ نوکریوں کے وعدے کیا وفا ہوتے بلکہ پہلے سے موجود نوکریوں سے بھی عام آدمی ہاتھ دھونے لگا۔ یوں محسوس ہونے لگا کہ وقت کا پہیہ الٹا چل پڑا ہے۔ معاشی طورپر پریشان حال ملک میں آٹے اور چینی کا بحران آگیا۔ اس کی انکوائری ہوئی تو اس میں ملوث افراد اپنے ہی آشنا نکلے۔ اس کے ساتھ ساتھ آئی پی پی پیز کو ہوشرباغیرقانونی ادائیگیوں کا معاملہ سامنے آگیا جس پر صدرمملکت جناب عارف علوی کو کہنا پڑا کہ اگر آئی پی پی پیز کے حوالے سے رپورٹ درست ہے تو مافیا نے ملک کے ساتھ ریپ نہیں گینگ ریپ کیا ہے۔
اب ایک بار پھر بے رحم احتساب کی بازگشت سنائی دینے لگی ہے۔ اچھی بات ہے اور اس بات سے کسی کو اختلاف نہیں کہ جس نے ملکی دولت کو لوٹا ہے اس سے کوئی رعایت کیے بغیر لوٹی ہوئی دولت واپس لی جائے اور ملکی خزانے میں جمع کرائی جائے بس مطالبہ صرف یہ ہے کہ احتساب بلا امتیاز اور ذاتی پسند وناپسند سے بالاتر ہونا چاہیے۔ مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا احتساب جیسا کام موجودہ حکومت کے بس کی بات ہے۔ وہ حکومت جو اتحادیوں کے سہارے بہت تھوڑے سے ووٹوں کے فرق سے اقتدار میں موجود ہے۔
وہ حکومت جس کو اپوزیشن کی طرف سے کسی قسم کی عملی مزاحمت کا سامنا نہیں ہے مگر اس کے باوجود وہ پرفارم نہیں کرپارہی۔ جو حکومت پشاور بی آر ٹی کا منصوبہ مقررہ وقت پر پورا نہیں کرسکی اور ایف آئی اے کی انکوائری کو رکوا دیا کیا اورجو خود فارن فنڈنگ کیس کا سامنا کررہی ہے کیا وہ ان مافیاز کے خلاف احتساب کرسکے گی؟
مشکل ہے بلکہ ناممکن سی بات ہے کہ یہ حکومت بے خوف ہوکر بلا امتیاز احتساب کرسکے۔ ملک کے مقتدر حلقوں کو سوچنا ہوگا کہ کرپشن کے خاتمے اور بلا امتیاز احتساب کی خواہش ہر پاکستانی کی ہے یہ ایک ایسا پوائنٹ ہے جس پر کسی کو اختلاف نہیں ہے مگر اس کو موجودہ حکومت کے ہاتھوں سے شروع کراکے متنازعہ نا بنایا جائے۔ اگر واقعی ملک کے لئے کچھ کرنا ہے تو ایک ایسا کمیشن تشکیل دیا جائے جس کی معاونت تمام حکومتی خفیہ ایجنسیز، ایف بی آر، نیب کریں یہ کمیشن اس طرح کا ہو کہ اس کی ساکھ پر کوئی انگلی نا اٹھا سکے اور وہ ہر اہم مالیاتی بددیانتی کی تحقیقات کرئے اور ذمہ داروں کومضبوط شواہد کی بنا پرناصرف کٹہرے میں لائے بلکہ ان سے لوٹی گئی دولت بھی وصول کرئے۔ اس سے ایک تو حکومت کو دیگر امور سرانجام دینے کا موقع مل جائے گا اور دوسرا کرپشن کے خلاف احتساب کا عمل بھی بنا کسی رکاوٹ کے جاری رہے گا۔
اگراس کے علاوہ کوئی اور طریقہ اختیار کیا جاتا ہے تو اس سے موجودہ حکومت کو کچھ وقت تو مزید مل سکتا ہے حکومت کرنے کے لیے مگر احتساب کا خواب شاید پورا نا ہو سکے۔
- ایوانوں سے بالا خانوں تک - 25/11/2023
- کیا زرداری کا سیاسی تیر نشانے سے چوک گیا ہے؟ - 18/11/2023
- پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی اور کم ہوتے وسائل - 03/11/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).