کیا ہم واقعی اسلام پسند ہیں؟



فرض کریں آپ ایک ایسی عمارت میں رہتے ہیں جہاں اوپر نیچے دو خاندان آباد ہیں۔ ایک خاندان لاک ڈاؤن پر عمل کرنے کی پوری کوشش کر رہا ہے۔ پچاس سال کی عمر سے زیادہ والے افراد باہر نہ نکلنے کی ہدایات پر سو فی صد عمل کر رہے ہیں۔ انتہائی ضرورت کے وقت ایک نوجوان تمام حفاظتی انتظامات کے بعد ہی گھر سے نکلتا ہے۔ گھر میں سینی ٹائزر کا مناسب بندوبست بھی ہے، ڈاکٹرز کی ہدایات کے عین مطابق صابن سے ہاتھ بھی بار بار دھوئے جا رہے ہیں۔

ایک بندہ بھول چوک میں بھی کوئی کوتاہی کرتا ہے تو ایک سے زیادہ لوگ یاد دہانی کے لئے ہمہ وقت تیار ہیں۔ بجلی، ٹیلی فون اور دوسرے تمام بلز ایک خاص مدت تک ایک محفوظ جگہ پر رکھ کر اس کے بعد ہی ان کو ہاتھ لگایا جاتا ہے۔ گھر میں اخبارات بھی بند ہیں، حالانکہ وہ گھرانہ اخبارات اور رسائل پڑھنے کا بہت شوقین ہے۔ صفائی والی ”ماسی“ کو بھی عارضی طور پر چھٹی دے دی گئی ہے۔ سب لوگ اپنے اپنے صابن اور ٹوتھ پیسٹ استعمال کر رہے ہیں۔

سیر کرنے کا شوق بھی گھر کی چھوٹی سی گیلری میں پورا کیا جا رہا ہے۔ جمعہ سمیت تمام نمازوں کا اہتمام بھی گھر پر کیا جا رہا ہے۔ رشتہ داروں اور دوستوں کے ہاں جانے کا سلسلہ مکمل طور پر موقوف ہے۔ دوست احباب کے فون آتے ہیں تو ان کے سامنے لاک ڈاؤن کا ایسا نقشہ کھینچا جاتا ہے کہ اگر وہ ان کی طرف آنے کا کوئی موہوم سا ارادہ بھی رکھتے ہیں تو اسے فی الفور ختم کر دیں۔ گویا جتنی احتیاط ہو سکتی ہے وہ کر رہے ہیں۔

اس کے بر عکس دوسرے خاندان والے کافی لا پرواہی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ باہر آنے جانے میں بھی کافی آزادی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ان کے گھر مہمانوں کی آمد بھی ویسی ہی ہے، جیسی لاک ڈاؤن سے پہلے تھی۔ ان کے بچوں نے ان دنوں اس شہر کا بھی سفر کیا ہے، جہاں کرونا کے مریض دن بدن بڑھ رہے ہیں۔ نماز کے لئے بھی مسجد میں آزادانہ جاتے ہیں۔ دوسرے خاندان والے اس صورتحال پر سخت پریشان ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے ایک ہی عمارت میں رہتے ہوئے اگر ایک خاندان احتیاط کا مظاہرہ نہیں کر رہا تو پریشانی تو ہوگی۔

بہرحال احتیاط پسند خاندان کے قائل کرنے پر وہ کچھ پابندیاں اپنے اوپرلاگو کر لیتے ہیں۔ کچھ اطمینان کی فضا پیدا ہو جاتی ہے۔ دوسری احتیاطوں کے ساتھ ساتھ نماز کا بندوبست بھی گھر میں ہی کر لیتے ہیں۔ پھر ایک دن اچانک مولانا منیب الرحمٰن صاحب ٹی وی پر ظاہر ہو کر اعلان کر دیتے ہیں کہ ہم نمازیں مساجد میں ہی ادا کریں گے۔ ابھی علماء اور حکومت کے درمیان ہونے والا معاہدہ ہوا بھی نہیں تھا، صرف مولانا کے اعلان کے ساتھ ہی دوسرے خاندان کے افراد نے بغیر کسی حفاطتی بندوبست کے مسجد میں جانا شروع کر دیا۔

ان کی دیکھا دیکھی اور لوگ بھی تومولانا کی بات سن کر یقیناً مساجد میں آئے ہوں گے۔ بعد میں حکومت اور علماء کے درمیان معاہدہ بھی ہو گیا۔ اس معاہدہ کے بعد لوگوں نے زیادہ تعداد میں مساجد میں جانا شروع کر دیا ہے۔ آپ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں اور ایمانداری سے بتائیں کہ واقعی معاہدے کے مطابق تمام شرائط پر عمل ہو رہا ہے؟ مشاہدہ یہی ہے کہ ہر جگہ نہیں ہو رہا۔ لوگ حکومت کی دی ہوئی رعایت کا ناجائز فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں۔

ابھی تھوری دیر پہلے ٹی وی پر ڈاکٹرز کی پریس کانفرنس دیکھی جس میں وہ مریضوں کی تعداد میں اچانک اضافے کی بات کر رہے ہیں۔ ڈاکٹرز کی پریس کانفرنس کے بعد سوشل میڈیا پر علماء اور دوسرے لوگ یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ ڈاکٹرز کا یہ شور شرابہ مساجد اور اسلام کے خلاف سازش ہے۔ ساتھ ہی علماء کا شروع دن سے ہی اعتراض ہے کہ جب فلاں فلاں جگہوں پر لوگ اکٹھے ہو سکتے ہیں تو مساجد میں کیوں نہیں؟ کہنے کی حد تک ان کی دلیل غلط نہیں، لیکن ہمارا یہ خیال ہے کہ محض وہ اس دلیل کا سہارا نہ لیں اور لوگوں کی درست سمت میں رہنمائی فرمائیں۔

فرض کریں مساجد کھولنے کے اصرار کی وجہ سے مذکورہ خاندان جو احتیاط نہیں کر رہا کا کوئی فرد اللہ نہ کرے کرونا کا شکار ہو جاتا ہے تو ان میں اس خاندان کا کیا قصور جو تمام تر احتیاط کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ اس کے اور لوگ بھی صرف مساجد کی وجہ سے اس کا شکار ہو جاتے ہیں تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا اسلام ہمیں کسی دوسرے مسلمان یا انسان کی جان خطرے میں ڈالنے کی اجازت دیتا ہے؟ کیا ہم پورے عالمِ اسلام سے زیادہ اسلام پسند ہیں کہ ہم نے اس کو زندگی اورموت کا مسئلہ بنا لیا ہے؟

لوگ علماء کی بات مانتے ہیں، یہ لوگوں کو بھی سمجھائیں اور حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے کچھ عرصہ کے لئے مساجد کھولنے کے فیصلے پر نظر ثانی کر لیں۔ چند دن پہلے انور مسعود صاحب کا ایک وڈیو کلپ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اس وڈیو میں ایک بزرگ کھانا کھاتے وقت پلیٹ میں کچھ سالن بچا دیتے ہیں تو ایک نوجوان ان کو یاد دہانی کرواتا ہے کہ پلیٹ صاف کرنا سنت ہے۔ وہ بزرگ آگے سے جواب دیتے ہیں کہ بیٹا بات تو تمہاری ٹھیک ہے پر جان بچانا بھی فرض ہے۔ مطلب زیادہ کھا کر جان بھی تو جا سکتی ہے۔ تھا تو یہ ایک مزاحیہ کلپ، لیکن اس میں ہمارے لئے ایک سبق بھی ہے۔ یقیناًجان بچانا فرض بھی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments