وزیراعظم صاحب، اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہو گی


تاریخ کا ناقابلِ تردید سبق ہے کہ کوئی فرد یا قوم غلطی کرنے سے نہیں، غلطی پر اَڑنے سے برباد ہوتی ہے۔ اسی طرح مشہورِ عالَم یونانی ڈرامہ نویس سوفوکلیز کا ایک قول ہے کہ غلط شخص کے مشورے پر عمل ایسے شخص سے مشاورت سے بھی زیادہ نفرین انگیز اور ناقابلِ معافی عمل ہے۔ موجودہ صورتحال کے تناظر میں ہمارے حکمرانوں کے فیصلے انہی اقوال کی زندہ تشریحات ہیں۔ اول اول خالصتاً طبی معاملے میں علماءِ دین سے مشاورت اور آخر آخر ان کی تجاویز کے مطابق اعلامیہ۔

اس فیصلے کے اثرات جیسا کہ طبی ماہرین کی طرف سے خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے اس امر پر گواہ ہوں گے کہ اس مشاورت سے زیادہ ہولناک نتائج اس پر عملدرآمد کے تھے۔ طبی ماہرین پریس کانفرنسوں میں برسرِ عام ہاتھ جوڑ جوڑ کر آنے والے دنوں کی تباہ کاریوں سے بچنے کی دہائیاں دے رہے ہیں۔ اہلِ خرد گریہ کناں ہیں کہ مابدولت رحم، رحم۔ لیکن مہابلی اپنے فیصلے پر قائم و دائم ہیں۔ دہائیوں کا شور زیادہ بلند ہوتا ہے تو ان سر پھرے وطن اور انسانیت کی محبت کے مرض میں مبتلا عقل رسیدہ سائیلین کی اشک شوئی یہ کہہ کے کر دی جاتی ہے کہ خاطر جمع رکھیں، جہاں اس اعلامیے کی شرائط کی خلاف ورزی ہوئی مکرر پابندی عائد کردی جائے گی۔

سرکارِ عالی مرتبت! اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوگی، کہا نہ بہت دیر۔ وائس آف امریکہ کی اردو سروس میں اگلے روز بتایا گیا ہے کہ امریکہ میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق اگر عالمی ادارہِ صحت کی جاری کردہ ہدایات پر سختی سے عمل نہ کیا گیا تو پاکستان کی چودہ فیصد ابادی کرونا سے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ یہ میتھمیٹکل سٹڈی گزشتہ وباؤں، ان کے اثرات اور پھیلاؤ کی رفتار کے تناظر میں کی گئی ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ حکومت نے لاک ڈاؤن میں نرمی کرونا کے پھیلاؤ کے peak time پر کی ہے۔

گزشتہ ایک ماہ میں پاکستان میں کرونا کے ایک ہزار مریض سامنے آئے جو یہ تعداد اب ایک ہزار مریض یومیہ تک پہنچ چکی ہے۔ کرونا کے پھیلاؤ میں اس سرعت سے اضافہ اس امر کا متقاضی ہے کہ لاک ڈاؤن میں نرمی کے فیصلے پر فوری نظر ثانی کی جائے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وطنِ عزیز کی نڈھال معیشت طویل مدت تک لاک ڈاؤن کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی، بلک پاکستان ہی کیا، دنیا کی طاقتور معیشتیں بھی ایک خاص حد تک ہی لاک ڈاؤن سہار سکتی ہیں۔

لیکن peak time جیسے تیسے گزارنا ہی ہوگا کہ بے شک انسانی جان کا کوئی نعم البدل نہیں۔ معاشی ماہرین بدرجہ اولیٰ ان خرچوں سے آگاہ ہیں جنہیں وبا کے دنوں میں باہمی مشاورت سے کم کیا جا سکتا ہے، یہ وہی خرچے ہیں جو کہ عام دنوں میں بھی تقریبا دنیا کے تمام ممالک کا تعلیم اور صحت کے بجٹ کا وافر حصہ چاٹ جاتے ہیں۔ امید ہے، کرونا کی وبا نے اقوامِ عالم کو بجٹ کے درست اور بہتر استعمال کے کچھ نئے زاویوں سے ضرور روشناس کرایا ہوگا۔

افسوس ناک بات یہ ہے کہ لاک ڈاؤن میں نرمی ایک ایسے معاملے سے متعلق بھی کی گئی ہے جس کا تعلق ملکی معیشت کے بجائے ایک خاص گروہ کی معیشت سے ہے۔ یہ گروہ پہلے بھی اس وبا کے پھیلاؤ میں اپنا خاطر خواہ حصہ ڈال چکا ہے اور اب سیزن لگانے کے چکر میں ایک مرتبہ پھر اس ملک کے غریب عوام کی زندگیاں داؤ پر لگا رہا ہے۔ حکومت کے اس فیصلے کے بعد ملک کے سنجیدہ حلقوں میں ریاست اور اس گروہ کے تعلق سے متعلق ایک مرتبہ پھر سوالات جنم لے رہے ہیں۔

اس صورتحال میں حکومت کے ساتھ متفقہ اعلامیہ جاری کرنے والے علماء کا عمل بڑا چشم کشا ہے۔ یہ حضرات باری باری اعلان کر رہے ہیں کہ وہ تراویح اور نماز کا اہتمام اپنے اپنے گھروں پر ہی کریں گے۔ ظالمو! پریس کانفرنس میں کیے گئے اعلان اور متفقہ اعلامیہ کیا صرف غریب عوام کو مروانے کے لئے ہے۔ علماء کے اس عمل سے عوامِ پاکستان کی آنکھیں پوری طرح کھل جانی چاہئیں۔ صورتحال کی سنگینی ملاحظہ کیجئے کہ آج کی منعقدہ پریس کانفرنس میں ڈاکٹر حکومت سے ہاتھ جوڑ کر لاک ڈاؤن میں نرمی کا فیصلہ واپس لینے کی استدعا کر رہے تھے اور ملتمس تھے کہ بے شک اس فیصلے کی ذمے داری ڈاکٹروں پر ڈال دی جائے تاکہ حکومت کا اس گروہ کے دباؤ کا عذر بھی ختم ہو۔

حضورِ اقدس! صورتحال ہماری سوچ سے بھی زیادہ سنگین ہے۔ ہمارا صحت کا نظام اس وبا کا ابھی بھی بمشکل ہی بوجھ اٹھا پا رہا ہے۔ خدا نہ خواستہ اگر اس کا پھیلاؤ بڑھتا ہے تو سوچئے کیا منظر ہوگا۔ ڈاکٹر ابھی سے چتاؤنی دے رہے ہیں کہ اس صورت میں سارا صحت کا نظام collapse کر جائے گا۔ ایسی صورت میں ڈاکٹروں کے مطابق انہیں علاج کے ترجیحی نظرئے پر عمل پیرا ہونا پڑتا ہے یعنی پچیس سال کے مریض کے علاج کو ساٹھ سال کے مریض کے علاج پر ترجیح دینا پڑتی ہے۔ لیکن ان سارے حقائق کے باوجود حکومت کا ایک ہی جواب ہے، خاطر جمع رکھیں، جہاں اس اعلامیے کی شرائط کی خلاف ورزی ہوئی مکرر پابندی عائد کردی جائے گی۔ وزیرِِ اعظم صاحب! اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوگی، کہا نہ بہت دیر۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments