بات کہنے کو ترستی ہے زبان میری



تقسیم ہند کے وقت مسیحیوں کے پاس تعلیم، صحت کے علاوہ دیگر ادارے موجود تھے مگر ذوالفقارعلی بھٹو نے جہاں احمدیوں کو اقلیت قراردیا وہیں مسیحی اداروں کو قومی تحویل میں لے کر تباہ کردیا۔ جو کچھ بچ گیا وہ ’نوسربازوں‘ نے بیچ دیا۔ بھٹو صاحب تو ملک میں بسنے والے مسیحیوں کے ساتھ اور بھی بہت کچھ کرنا چاہتے تھے مگر مہلت نہ ملی۔ جنرل ضیا الحق نے قوانین کو اتنا سخت کردیا کہ کو ئی زبان ہی نہ کھول سکے۔ جنرل پرویز مشرف نے نان مسلم کو بڑی سیاسی پارٹیوں کے زیر اثر کرکے سیاسی یتیم بنا کے رکھ دیا۔

جو سیاسی جماعتوں کی منت خوشامد کرکے ایوان تک جائے گا وہ کیسے اپنی برادری کے لیے بات کرسکتا ہے۔ آبادی کے بارے میں قومی ادارہ شماریات کے اعداد و شمار کچھ ایسے ہیں کہ 1998 ءمیں مسیحی کل آبادی کا 1.59 فی صد تھے جبکہ سال 2018 ءمیں بھی یہی تناسب ہے جبکہ ہندوؤں کی آبادی 1.59 فی صد سے بڑھا کر 1.85 فی صد ظاہر کی گئی ہے اور یوں ہندو آبادی کے لحاظ سے ملک کی سب سے بڑی اقلیت بتائے جاتے ہیں۔ حالانکہ زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ ہمارے اپنے خاندان میں تیسری نسل پروان چڑھ رہی ہے۔ اب سرکار کے ان اعداد و شمار کو عقل سلیم تسلیم کرنے کو تیار نہیں؟ جنرل ضیا الحق کے دور میں تو آمریت کی وجہ سے پابندیا ں تھی اب جمہوری حکومت کے دوران بھی غیر علانیہ آمریت معلوم ہوتی ہے۔

یہ کیسا دستور زباں بندی ہے تیر ی محفل میں
یاں تو بات کرنے کوترستی ہے زباں میری

کیا اندھیر نگری اور چوپٹ راج ہے۔ آپ کسی واقعے پر بات بھی نہیں کرسکتے۔ آزادی کے بعد سے لے کر کس طرح complex اورtricky طریقوں سے مسیحیوں کو پسماندہ رکھا گیا ہے کہ حیرانی ہوتی ہے، پھر کہا جاتا ہے کہ اس پر کوئی بات بھی نہ کرے اور اگر کوئی بولتا ہے تو پہلے اسے ڈرایا جاتا ہے اور کئی لو گ ڈر کر بیرون ملک بھاگ جاتے ہیں اور جو نہیں بھاگتے انہیں ماردیا جاتا ہے۔ پہلے تو ہمارے پاس کوئی منظم Platform ہی نہیں ہے، جس کے ذریعے ہم بات کرسکیں۔

اگر کسی ایشو پر لکھو تو کوئی ادارہ چھاپنے کے لئے تیار نہیں ہوتا اور اگر چھپ جائے تو آپ کی اور اس ادارے کی شامت آجاتی ہے۔ گھر والے اتنے ڈرے ہوئے ہوتے ہیں کہ سب سے پہلے وہ لکھنے سے روکتے ہیں، سب کو معلوم ہے کہ اس کے بعد کیا ہوتا ہے؟ معاشی استحصالی کس قدر منظم ہے کہ بہت سے لوگوں کو اس کا اندازہ ہی نہیں ہے۔ سرکاری یا پرائیویٹ اداروں میں کسی درخواست گزار کے نام کے ساتھ مسیح دیکھ لیا تو 50 فی صد نمبر تو پہلے ہی کم ہوگئے، پھر مقابلہ کیسا؟

ایسے ماحول میں کوئی مسیحی کسی بہتر پوزیشن پر پہنچ جائے تو اپنے آپ کو الگ مخلوق سمجھنے لگتا ہے۔ بظاہر لبرل نظر آنے والے مسلمان کے پیٹ میں چھ انچ داڑھی ہوتی ہے۔ مذہب پر کوئی بات ہی نہیں کرسکتا، بھئی ہم ہی اعلی وارفع ہیں۔ وجہ پوچھو کہ بھئی کوئی دلیل سے بات کر لو۔ نہیں دلیل تو کوئی نہیں ہے لیکن آپ نے زبان بند رکھنی ہے بس۔ کتنے مولوی ہیں جو مسیحیوں کو بلیک میل کرکے پیسے ہتھیا رہے ہوتے ہیں۔ لیکن کیا ہے اگر کوئی بات کی تو توہین مذہب کا قانون ہے، کوئی حقائق جاننے کی کوشش ہی نہیں کرے گا۔

سوشل میڈیا پر یا سرعام مسیح یسوع کے بارے میں کیا کیا خرافات اور کیسے کیسے توہین آمیز الفاظ استعمال نہیں کیے گئے۔ کچھ سکرین شارٹ تو میرے پاس بھی موجود ہیں، لیکن کوئی سنتا ہی نہیں۔ یہاں تک کہ آپ کے سلام کا جواب دینے میں بھی منافقت ہے۔ کسی نان مسلم کو جوابأ وعلیکم السلام نہیں کہتے بلکہ وعلیکم تک محدود رہتے ہیں۔ حالانکہ میں نے جوقرآنی آیات پڑھی ہیں، ان میں ہی لکھا ہے ’۔ وآل ابراہیم۔ ‘ دوہرا معیار ہر جگہ پر آپ کو نظر آئے گا۔

بھئی ہمیں تو مغربی ممالک میں پورے حقوق چاہیے جو مل بھی رہے ہیں پھر بھی اسلاموفوبیا کو راگ الاپتے رہتے ہیں۔ میں نے گزشتہ دنوں لکھا کہ کراچی اور دیگر علاقوں میں راشن کی تقسیم کے دوران بعض اداروں نے نان مسلم کو راشن دینے سے انکار کردیا کہ زکوۃ اور عشر کے پیسے سے کسی نا ن مسلم کی مدد نہیں کرسکتے۔ مطلب نان مسلم ممالک سے سال ہا سال سے امداد لے کر کھا سکتے ہیں جبکہ ملک کے اندر ناگہانی صورتحال میں بھی تقسیم مذہب کی بنیاد پر ہو گی۔ (یہاں وہ لوگ اور ادارے قابل تحسین ہیں جو بلاتفریق مذہب، رنگ ونسل غریبوں کی امداد کررہے ہیں ) ۔ فی الحال یہ کہنا ہے کہ اس وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال کے دوران حالات مزید سخت ہوگئے ہیں۔ بعض مذہبی، رفاہی ادارے اور صاحب حیثیت مسیحی رہنما انفرادی طور پر لوگوں کی مدد کررہے ہیں مگر وہ تمام لوگوں تک نہیں پہنچ سکتے۔ صورتحال مزید گمبھیر ہوچکی ہے اب غریب کے ساتھ متوسط طبقہ اور زیادہ متاثر ہورہا ہے۔

جو لوگ چھوٹی موٹی ملازمت کرکے اپنے خاندان کا پیٹ پالتے تھے وہ یا تو ملازمتوں سے فارغ ہوچکے ہیں یا پھر انہیں بغیر تنخواہ کے چھٹیاں دی گئی ہیں۔ اپریل تو جیسے تیسے گزر گیا، اگر یہی حالات مزید جاری رہے تو ایسے کب تک گزارا ہوگا۔ مزدوروں اور غریبوں کی مدد کے لئے تو اب لوگ باہر نکل رہے ہیں اور حکومت کا احساس پروگرام بھی پیسے تقسیم کررہا ہے مگر سفید پوش متوسط طبقے کے افراد کہاں جائیں، گھروں کے کرائے، بچوں کی تعلیم اور اشیاءخوردونوش کہاں سے آئیں گی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک منظم طریقے سے سفیدپوش کو برہنہ کرکے برباد کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments