حریم شاہ رمضان ٹرانسمیشن تنازعہ



اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ماضی کی غلطیاں بہتر مستقبل کی نشاندہی کرتی ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں پاؤں کی زنجیر ہوتی ہیں جو آپ کو حال اور مستقبل میں آگے بڑھنے کے لیے چلنے کے قابل نہیں چھوڑتیں۔ اگر وہ غلطیاں خدا نخواسطہ عورت سے سرزد ہوجائیں تو وہ فوراً واجب القتل قرار دے جاتی ہے۔ پاکستان کی مشہور ٹک ٹاک گرل ”حریم شاہ“ نے جب سے رمضان ٹرانسمیشن کو ہوسٹ کرنے کا اعلان کیا ہے سوشل میڈیا پر ایک طوفانِ فتویٰ برپا ہے۔

طرح طرح کے القابات اور طنز کے تیر چلائے جارہے ہیں۔ حریم شاہ کے سکینڈلز کے بعد اس کے والد کی طرف سے ایک ویڈیو بیان جاری ہوا جس میں انہوں نے بتایا کہ حریم شاہ کا بیک گراؤنڈ مذہبی ہے۔ اس نے مدرسے سے تعلیم حاصل کی اور ”عالمہ و فاضلہ“ کا کورس بھی کیا ہے۔ عالمہ و فاضلہ کے کورس کا سنتے ہی ہر انسان کے ذہن میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنی مذہبی لڑکی جس نے نہ صرف اسلام بلکہ دوسرے مذاہب کو بھی پڑھا ہو کیسے اس طرح کی حرکتیں کرسکتی ہے، کیا چیز ہے جس نے اسے ایسا کرنے پر مجبور کیا۔

اس کا جواب ہر ذی شعور انسان دے سکتا ہے لیکن ایک محاورہ بھی زبان زدِ عام ہے کہ ”صبح کا بھولا اگر شام کو لوٹ آئے تو اسے بھولا نہیں کہتے“۔ حریم شاہ کے کیس میں بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ جس میں اس نے ماضی میں غلطیاں کیں لیکن تھوڑی دیر کے لیے بھٹک کر اگر اس رنگین دنیا میں کھو کر اپنے وجود کے مقصد کو بھول گئی تھی تو آج وہی حریم شاہ واپس لوٹ آئی ہے۔ یہی چیز رابی پیرزادہ کے کیس میں سامنے آئی لیکن خدا کی قدرت کہ آج اس جیسی قرأت اور کیلی گرافی شاید ہی کوئی کر سکتا ہو خاص طور پر وہ لوگ جو اس کے شوبز انڈسٹری چھوڑنے کے فیصلے کو مذاق کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور اس کی ذات پر طنز کیا کرتے تھے۔

ٹی وی شوز پر بیٹھ کر رمضان ٹرانسمیشن میں بہت بڑے علماء بھی ایسی ایسی بات کہہ چکے ہیں جس پر باقاعدہ طور پر فتوے جاری کیے گئے، ٹی وی پر ان کی انٹری بند کردی گئی کیونکہ وہ لوگ ریسرچ کے بغیر، پڑھے بغیر اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد بنا کر اپنے فائدے کی بات کرتے نظر آتے ہیں۔ جس رمضان ٹرانسمیشن کو لے کر اتنا ہنگامہ برپا ہے ان جیسی ہزاروں ٹراسمیشنز ایسی ہیں جس میں باقاعدہ طور پر گستاخیاں کی گئیں اور بعد میں معافیوں کا سلسلہ بھی جاری رہتا۔

حریم شاہ کے اس فیصلے کو غلط کہنے والے اور اس پر طنز کرنے والے اپنے کند ذہن ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایسے لوگوں کو طنز کرتے دیکھا جن کو شاید نماز تک نہیں پڑھنا آتی وہ تو پھر قرآن کو ترجمہ و تفسیر کے ساتھ پڑھ چکی ہے جو یہ دعویٰ کرتی ہے کہ اسے قرآنی آیات کی شان ِ نزول تک کا پتا ہے کہ کب، کیسے اور کیوں اس آیت کو اتارا گیا تو ایسا علم لینے میں دشواری کیوں؟

امت محمدی ﷺ اس وقت فرقوں میں بٹ چکی ہے۔ اور ہر فرقے کا اپنا عالم ہے جو ٹی وی پر بیٹھ کر اپنے ہی فرقے کو درست اور باقیوں کو غلط قرار دے کر ریٹنگ حاصل کرتا ہے۔ کیا حریم شاہ اس انسان سے بھی بد تر ہے جو مسجد میں امامت کرواتا ہے، ماتھے پر مہراب کا نشان ہے، سنت نبویﷺکے مطابق سفید داڑھی بھی ہے، اپنی شلوار کو ٹخنوں سے اوپر بھی رکھتا ہے، جیب میں مسواک بھی ہے لیکن چھوٹے بچوں کے ساتھ مسجد یا مدرسے کے احاطے میں زیادتی کرتا پکڑا جاتا ہے۔

اگر ہم اس انسان کے علم پر شک کیے بنا اس کی بات سنتے ہیں اور اس کو صحیح مانتے ہیں تو پھر حریم شاہ کو سننے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ اللہ جس کو چاہتا ہے سیدھی راہ دکھاتا ہے۔ موت سے قبل توبہ کے دروازے بند نہیں ہوتے۔ حریم شاہ کے ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے اس کے حال پر شک کرنا درست نہیں ہے بلکہ لوگوں کو اسے سپورٹ کرنا چاہیے۔ اگر وہ اپنی پہلی زندگی (اسلامی) میں واپس آگئی ہے تو اسے مجبور نہ کیا جائے کہ وہ 100 واں قتل کردے۔ اس کے پاس جو علم ہے اسے حاصل کرنا چاہیے تاکہ جس کو علم نہیں ہے اسے بھی حاصل ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments