ڈاکٹر کی ڈائری۔ ٹی وی شو میں بچوں کا استحصال


معاشرے کو بگاڑ کی طرف ڈالنے والے راستے انجانے نہیں ہوتے، بلکہ بہت دیکھ بھال کر، سوچ سمجھ کر، روایتوں کو تبدیل کیا جاتا ہے۔

کوئی دور تھا پی ٹی وی کا سنہرا دور، معاشرتی روایتوں سے بھر پور پروگرام، مشرقی حسن اور ریتی رواجوں سے مزین ڈرامے اور تفریحی پروگرام۔ معین اختر اورطارق عزیز شو جیسے گیم شو۔ صاف ستھرا مذاق، صاحب ذوق مہمان، سوبر آڈینز۔ نہ کوئی اخلاق سے گرا کھیل نہ جملہ، نہ درست جواب پر بے ہنگم اچھل کود، اور نہ بھکاریوں کی طرح انعام مانگتے عوام۔

پھر وقت بدلا، پہلے ڈش کلچر، پھر کیبلز اور پھر مشرومز کی طرح پرائیویٹ چینلز آئے، اور مادر پدر آزاد میڈیا نے گلوبل ورلڈ کا ساتھ دینے کے لئے، ریٹنگ کا وہ بازار گرم کیا جو سب روایتوں کو جلا کر راکھ کر گیا۔ جہاں رشتوں اور خاندانوں کی آپس کی شرم وحیا ختم ہوئی وہیں کلچر اور تفریح کے نام پر بے حیائی اور ہلڑ بازی کا میلہ بھی سجا دیا گیا۔

فہد مصطفی اور ماہرہ خان نے تو معماروں کے آئیڈیل بننا ہی تھا، مگر قندیل بلوچ، حریم شاہ اور چائے والے جیسے کریکٹر بھی تخلیق کیے گئے۔ اور اسی سلسلے کی ایک اورکڑی، پانچ سال کا معصوم بچہ احمد خان ہے۔

ایک طرف تو بحیثیت ڈاکٹر اور ذمہ دار شہری، ہم بچوں کو جنسی استحصال سے بچانے کی تعلیم دینے کے لئے کمپین چلاتے ہیں، اور دوسری طرف خوبصورت اداکارائیں ہزاروں لوگوں کے سامنے اسکرین پر اس بچے کو نوچ نوچ کر پیار کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔

یاد رہے کہ بچوں کو سیکس ایجوکیشن میں یہ بتانا ہوتا ہے کہ آپ کے ہونٹوں، چھاتی اور پرائیویٹ پارٹس کو صرف ماں ہاتھ لگا سکتی ہے وہ بھی نہلاتے اور کپڑے بدلتے ہوئے۔ اور کوئی بھی چاہے اجنبی ہو یا مہربان چہرے پر زور سے چومنے کی اجازت نہیں دینی۔

تصویر کا دوسرا رخ، والدین کو رقم کی ادائیگی کے عوض پانچ سال کے بچے کو مسخرہ بنا کر دنیا کے سامنے پیش کرنا، بلاشبہ چائلڈ لیبر کی مکروہ شکل ہے۔

یہاں اعتراض یہ اٹھایا جاتا ہے کہ دنیا بھر میں چائلڈ اسٹارز ہوتے ہیں۔ بالکل ہوتے ہیں، اور مہذب دنیا میں بچوں کے اسٹارز کے طور پر کام کرنے کا معاوضہ بچوں کے اکاؤنٹس میں رکھا جاتا ہے، تاکہ وہ ان کی تعلیم تربیت پر خرچ کیا جا سکے۔

تصویر کا ایک اور رخ، ایکٹنگ اور تفریح کے نام پر بدتمیزی اور بدتہذیبی کے سبق دینا۔ نہ صرف احمد کا بد تہذیب رویہ بلکہ اسے دیکھ کر محظوظ ہونے والوں کی ذہنی بالیدگی۔ ماہر نفسیات کے مطابق، چھوٹی عمر میں ہونے والے واقعات، بچوں کی شخصیت کے بننے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

بہت چھوٹی عمر میں شہرت پا لینا، پھر سیلیبرٹیز کے ساتھ وقت گزارنا، ان کے ہاتھوں سے مختلف لمس کو محسوس کرنا، اور پھر بدتمیز رویوں پر داد و تحسین پانا۔

میڈیا تو کچھ دن کے بعد اسے ٹشو پیپر کی طرح کہیں پھینک کر، کوئی اگلا کردار ڈھونڈ لے گا۔ مگر یہ معصوم بچہ، اپنے بچپن سے لڑکپن میں داخل ہوتے ہوئے ہونے والی جسمانی اور ذہنی تبدیلیوں سے نبرد آزما ہوتے ہوئے، شہرت کو ڈھلتے، رویوں کو بدلتے اور کرداروں کو کھلتے برداشت نہیں کر پائے گا۔

خدارا ہماری نسلوں پر رحم کریں۔ عوام کو لالچ کے سمندر میں اتنا غرق نہ کر دیں کہ والدین خوشی سے اپنے بچوں کی زندگی اور موت کے سودے کرنے لگیں، کبھی زینب اور فرشتہ کی لاشوں کے، اور کبھی احمد خان کے زندہ مستقبل کا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments