احمقوں کا انقلاب (Revolution of the Idiots)


واقعہ کیا ہونے والا ہے، یقیناً یہ کسی کے وہم و گمان میں نہیں تھا۔ انسان پچھلی چند دہائیوں میں اپنی تمام تر غلطیوں، بیوقوفیوں، توہم پرستیوں اور اندھے عقائد وغیرہ کے باوجود ایک ایسی سمت وضع کر چکا تھا جس نے بڑے بڑے برج گرا دیے تھے۔ انسانی حقوق، قوموں کے درمیان تعلق، جنگی قوانین، خواتین کی حقوق ہر محاذ پر انسان آگے کی طرف جارہا تھا۔ معاشرے کے وہ طبقات جو ان معاملات کے مخالف تھے وہ وقتی مزاحمت تو کرتے تھے مگر مستقل اور طویل مدت پر ایسے طبقات، افکار کی شکست واضح تھی۔

کس نے سوچا تھا کہ غلامی کے نظام ختم ہوگا، بلکہ ایک سیاہ فام امریکہ کا صدر بن جائے گا۔ کس نے سوچا تھا کہ عوام کی اکثریت خواتین کو دنیا کے مختلف ملکوں میں سربراہ کے مسند پر پہنچا دے گی، کس نے سوچا تھا یورپ طویل جنگوں کے بعد ایک اتحاد بن کر ابھرے گا، کس نے سوچا تھا کہ لندن کا میئر بنیادی طور پر امیگرنٹ طبقہ سے ہوگا، کس نے سوچا تھا کہ دنیا بہت سے کامن کاز کے لئے مل کر لڑے گی اور پولیو سے لے کر بہت سی بیماریوں کا دنیا میں اکا دکا ممالک کے علاوہ خاتمہ ہوجائے گا۔

انسانیت تمام تر مشکلات، جنگوں، تنازوں، مذہبی اور معاشرتی عقائد کے باوجود فتح کے جھنڈے گاڑ رہی تھی۔ مگر ایک طبقہ تھا جس کی آواز غیر اہم ہوگئی تھی اور خود بھی غیر اہم ہوتا جارہا تھا۔ وہ طبقہ سازش کو ترویج دینے والا طبقہ تھا، وہ طبقہ مذہب کی بنیاد پر استحصال کرنے والا طبقہ تھا، وہ طبقہ قومیتوں کی بنیاد پر نفرت کا علمبردار طبقہ تھا، وہ طبقہ جو توہم پرستی پر یقین رکھتا تھا، جو فکر اور تحقیق سے بھاگنے والا طبقہ تھا۔

اس سیگمنٹ نے طویل پسپائی اختیار کی ہوئی تھی۔ مگر سوشل میڈیا کے ظہور نے اس طبقہ کو روشنی کی کرن دکھائی۔ وہ افکار جو مین اسٹریم میڈیا میں شجر ممنوعہ کا درجہ اختیار کر گئے تھے وہ اس غیر روایتی میڈیا میں آہستہ آہستہ پھیلنے لگے اور لوگوں میں چھپے خوف اور کمزوری کی بدولت قبول عام کا درجہ اختیار کرنے لگے۔ لوگ حقائق جانے بغیر اس کو آگے بڑھاتے رہے اور اس کے ساتھ یہ جھوٹ بھی پروان چڑھا کہ میں سٹریم پر جو کچھ ہے وہ سازش ہے، وہ فیک ہے۔

معاشرے آہستہ آہستہ تبدیل ہونے لگے، جھوٹ کو سچ پر فوقیت ملنے لگی، سازش حقیقت پر غالب آنے لگی۔ معاشرے کے پڑھے لکھے افراد بھی اس لپیٹ میں آگئے۔ جن کو ہم ایک وقت تک ایکسپرٹ سمجھتے تھے وہ بھی غلط اور بے بنیاد باتوں کی ترویج کرتے نظر آنے لگے، آرٹ اور آرٹسٹ جو ایک زمانے میں انسان دوست اور سیکولر نظریات کے پرچار نظر آتے تھے وہ نفرت کا پرچار کرتے نظر آنے لگے اور جو کچھ بچ گئے انھوں نے خاموشی کی چادر پہن لی۔

ہم سے کسی کے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ اوباما کے بعد امریکا ٹرمپ جیسا لیڈر دے گی یا انڈیا میں مودی جیسا حکمران آئے گا اور دنیا کے باقی ممالک آہستہ آہستہ اس پاپولر سوچ کے بھینٹ چڑھ جائیں گے۔ یہ بہت اچانک ہوا کہ انسان کی سماجی اور معاشرتی ترقی کو بریک لگ گئے۔ ہم آج اس وبا کے دنوں میں ملکوں اور عوام کو جانچتے ہیں تو یہ تلخ حقیقت ہے کہ انقلاب آچکا ہے۔ آج معاشروں کی اکثریت وبا سے زیادہ اس کو سازش اور نفرت کے پرچار کے طور پر دیکھ رہی ہے۔

جب چین کہتا ہے کہ یہ امریکا کی سازش ہے اور امریکی صدر اس کو چائنیز وائرس گردانتا ہے۔ جب انڈیا میں اکثریت یہ بات پھیلاتی نظر آئے کہ انڈیا میں اس وائرس کی وجہ مسلمان ہیں، جب مختلف طبقات میں ڈیٹا کے باوجود، سڑکوں پر لاشیں نظر آنے کے باوجود یہ نظریہ ہو کہ سارا ڈیٹا منیوپلیٹڈ ہے، یہ مین سٹریم میڈیا خوف انجیکٹ کر رہا ہے جبکہ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں، جب ملکوں میں بندوقیں اٹھائے افراد ریاستی حکومتی بندش کے خلاف سڑکوں پر جمع ہوں اور وفاق صحت کے تمام اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قانون شکنی کی حمایت کرتے نظر آرہا ہو۔

ہمارے اپنے ملک میں ایک پڑھے لکھے سابق اقوام متحدہ کے سفیر غلط معلومات کی بنیاد پر ایک سازشی تھیوری پروان چڑھاتے نظر آرہے ہو اور ایک محترم سابق ہائر ایجوکیشن کے وزیر اس کو انڈورس کرتے میڈیا میں نمودار ہوں۔ تو یہ بات منانے میں عار نہیں ہونی چائیے کہ ایک انقلاب ہمارے سر پر ہے جس نے انسانیت کی پچھلی دہائیوں کی ساری کامیابیوں کو ریورس گیئر لگا دیا ہے۔

ہوسکتا ہے یہ انقلاب وقتی ہو اور اجتماعی دانش بحال ہو۔ جو سپیس اس طبقے کو ملی ہے وہ عارضی ہو مگر کس نے سوچا تھا کہ واقعی یہ ہونے جارہا ہے اور اس ریوولوشن اوف ایڈیٹس سے اس قدر نقصان ہم اس دوران اٹھائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments