میں نے اپنی روتی ہوئی بیٹی کو گلے نہیں لگایا



چند دن پہلے میری بارہ سالہ بیٹی کنزیٰ ایمان مجھ سے پیسے لے کر حسبِ معمول ہنستی مسکراتی محلے کی دکان پر چیز لینے گئی، واپس آئی تو وہ زاروقطار رونے لگی۔

میں نے حیران ہو کر پوچھا:
”کیا ہوا بیٹا! کیوں رو رہی ہو؟ “
مگر وہ آنکھیں ملتے ہوئے موٹے موٹے آنسو بہاتی مسلسل روئے جا رہی تھی۔ میں حیران و پریشان اسے دیکھنے لگا۔ میرے بار بار پوچھنے پر وہ بدستور روتے ہوئے کانپتی آواز میں گویا ہوئی:

”بابا! دکان پر کوئی داڑھی والا انکل کھڑا تھا جو مجھے گندی گندی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ “
میں اس کی بات سن کر ششدر رہ گیا۔ یہ کسی مرد کا میری بیٹی کو دیا ہوا پہلا آنسو تھا۔ میں نے ٹسوے بہاتی اپنی بیٹی کو غور سے دیکھا جو روتے ہوئے کانپتی جا رہی تھی اور مجھے مظلوموں کی طرح رحم بھری نظروں سے یوں دیکھ رہی تھی کہ بابا مجھے ابھی گلے لگا کر خوب پیار کریں گے اور حوصلہ دیں گے مگر سچی بات ہے کہ میں نے بیٹی کو نہ تو گلے لگا کر پیار کیا اور نہ ہی دکاندار کے پاس بھاگا بھاگا گیا کہ دیکھوں تو وہ کون انکل تھا؟

کیونکہ میرے دماغ میں کچھ اور چل رہا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ آج وہ باہر سے جو آنسو لے کر آئی ہے وہ اسے کبھی نہ بھولے اور اس کی چبھن ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھوں میں قید کر لے۔ اصل میں مجھے یہ خدشہ لاحق تھا کہ اگر اس موقع پر میں نے اپنی بیٹی کو گلے لگا کر اسے پچکارا تو وہ لمحہ بھر میں کمزور پڑ جائے گی اور پھر ہمیشہ میرے پاس روتی ہوئی آئے گی اور مجھے گلے لگا کر اسے پیار کر کے حوصلہ تسلی دینا پڑے گی جبکہ میں ایسا ہر گز نہیں چاہتا تھا۔

میں نے روتی ہوئی اپنی بیٹی کو پیار سے اپنے سامنے بٹھایا اور کہا:
”دیکھو کنزیٰ! یہ جنگ میری نہیں، تمہاری ہے اور تم نے ہی اسے لڑنا ہے اور وہ بھی اکیلے۔ یوں رو دھو کر تم یہ جنگ نہیں جیت سکتی بلکہ روتے وہ لوگ ہیں جو کمزور ہوتے ہیں اور کچھ کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔ اگر تم کمزور ہو اور کچھ نہیں کر سکتی تو یہ لو ٹشو اور ادھر کونے میں بیٹھ کر جی بھر کے آنسو بہا لو، میں تمہیں نہیں روکوں گا۔ “

میری بیٹی نے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا:
”نہیں بابا! میں کمزور نہیں ہوں۔ “
”تو پھر اس طرح میرے سامنے کیوں رو رہی ہو؟ “
میری بات سن کر اس نے فوراً آنسو صاف کیے اور رونا بند کر دیا۔
میں نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا:
”دیکھو بیٹا! اگر پھر کبھی کوئی انکل یا لڑکا تمہیں یوں گھور گھور کر دیکھے تو بالکل بھی مت ڈرنا اور نہ خاموش رہنا بلکہ بلند آواز میں سب کے سامنے کہنا کیا بات ہے انکل یا بھیا! کیوں مجھے اس طرح گھور گھور کر دیکھ رہے ہیں؟ اتنی اونچی آواز میں کہنا کہ آس پاس کھڑے سب لوگ تمہاری بات سن لیں۔ “

میری بیٹی نے یوں سر ہلایا جیسے بات اس کی سمجھ میں آ گئی ہو۔
اتفاق سے کچھ دنوں بعد میں اس کی چپل لینے اسے ایک دکان پر لے گیا، وہاں دو تین گاھک اور بھی موجود تھے۔ میں بیٹی کے لیے چپل دیکھنے میں محو ہو گیا کہ اچانک دکان پر میری بیٹی کی آواز گونجی:

”بھیا! آپ کیوں میری طرف بار بار دیکھ رہے ہیں؟ “
میں نے چونک کر دیکھا تو میری بیٹی ساتھ ہی کھڑے ایک بیس بائیس سالہ لڑکے سے مخاطب تھی جو یقیناً جوتے خریدنے آیا تھا۔ وہاں کھڑے سبھی لوگ اس لڑکے کی طرف دیکھنے لگے جبکہ اس کے چہرے کا ایک رنگ آ رہا تھا اور دوسرا جا رہا تھا۔ میں نے اس لڑکے کو چبھتی نگاہوں سے گھور کر دیکھا تو وہ اور بھی سٹپٹا گیا۔ دکاندار نے معاملہ بھانپ لیا اور فوراً اس لڑکے کو وہاں سے چلتا کیا۔ میں نے مسکراتے ہوئے بیٹی کی طرف دیکھا تو وہ مجھے فاتحانہ انداز میں یوں دیکھ رہی تھی جیسے اس نے اپنی زندگی کی پہلی جنگ جیت لی ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments