ہنری چہارم کا ننگے پاؤں سفر، اور وزیراعظم پاکستان کا سوال!


ہمارے جلیل القدر علما کی اکثریت ہر تاریخی موڑپر انگریزی محاورے کے مطابق تاریخ کی غلط سمت میں ہی کھڑی نظر آئی ہے۔ قائد اعظم کی قیادت میں ہندوستان کے مسلمانوں کی ایک آزاد مملکت کے لئے برپا کی گئی عہد ساز تحریک ہو، جنرل ضیا الحق کے دور میں دوررس فیصلے کرنے کا وقت ہو، یا پھرجنرل مشرف کے دور میں ریاست کا دہشت گردی کے خلاف لڑنے کا فیصلہ، علما کی اکثریت بالعموم حالات کا صحیح ادراک کر نے میں ناکام رہی۔ موجودہ وبا کہ دنیا کا نظام جس نے تہہ و بالا کر کے رکھ دیا ہے، غیر معمولی اقدامات کی متقاضی ہے۔ معلوم یوں پڑتا ہے کہ ہمارے جلیل القدر علما نے ایک باراپنی پرانی روایت پر ہی قائم رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔

دنیا بھر میں ریاستوں نے قاتل جرثومے کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے ہر قسم کی مصروفیات کو ترک کر کے انسانوں کے مابین سماجی رابطوں کو ہر ممکن حد تک محدود کر دیا ہے۔ اربوں ڈالرز جن کے خزانوں میں دستیاب ہیں، اپنے عوام کو انہوں نے سختی سے گھروں تک محدود کر دیا۔ غریب ملکوں میں مگر حکمرانوں کو یہ مخمصہ در پیش ہے کہ بیماری سے بچ بھی گئے تو عوام کو غربت کے ہاتھوں مرنے سے کیسے بچایا جائے۔ محدود وسائل کے حامل ان ملکوں میں افلاس کے مارے طبقات کو با امرمجبوری محدود پیمانے پر کچھ خاص نو عیت کے کاروبار کھولنے کی اجازت دی گئی ہے۔ بحث مگر جاری ہے کہ ایسا کس حد تک کیا جا سکتا ہے۔ اختلاف رائے کی گنجائش کہ یہاں بہرحال موجود ہے۔

ایک معاملہ کہ جس کے باب میں مگر پوری دنیا کے اندربلا تفریق مذہب اور رنگ و نسل یکسوئی پائی جا رہی ہے وہ ہر قسم کے مذہبی اجتماعات کی معطلی ہے۔ عیسائیوں کے مقدس ترین مقام ویٹی کن سٹی سمیت تمام گرجا گھر وں میں دعائیہ اجتماعات روک دیے گئے ہیں۔ اس بار ایسٹر پر دنیا بھر میں پادریوں نے خالی عمارتوں میں مناجات پڑیں۔ ہیکل سلیمانی اور مسجد اقصٰی میں زائرین کا داخلہ بند ہے۔

مسلمانوں کے لئے حرمین الشریفین سے بڑھ کر کیا ہے کہ جہاں تمام اجتماعی عبادات روک دی گئی ہیں۔ عمرہ کے سفرکی اجازت نہیں ہے، جبکہ حج کے انعقاد کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔ یہ اسلامی تعلیمات ہی تو ہیں کہ جب انسانی جان خطر ے میں ہو تو فرض عبادت بھی موقوف کر کے ’متبادل‘ اپنایا جاتا ہیں۔ اللہ کے نبی ﷺ عبادات کے معاملے میں لوگوں کو آسانی کی راہ اپنانے کی نصیحت فرماتے تھے۔ کرونا وائرس کی نوعیت کے پیش نظر چونکہ اس امر کا واضح امکان موجود ہے کہ با جماعت نمازی خود اپنی جان خطرے میں ڈالنے کے علاوہ بیماری اپنے اپنے گھروں میں بھی لے جانے کا باعث بن سکتے ہیں، لہٰذا نا صرف سعودی عرب بلکہ دنیا بھر کے اہم اسلامی ملکوں میں مساجد کے اندر باجماعت نمازوں پر مکمل پابندی عائد کی جا چکی ہے۔

ہمارے جلیل القدر علما مگرایک مرتبہ پھر تاریخ کی غلط سمت میں ہی کھڑے نظر آتے ہیں۔ بضد ہیں کہ ماہ رمضان میں مساجد کو تالے نہیں لگنے دیں گے۔ مختلف مکاتب فکر کے علما اور حکومت کے مابین طے پانے والا معاہدہ دراصل لوگوں کا مذہبی استحصال کرنے والوں کے ہاتھوں ریاست کی کامل بے بسی کا بیان ہے۔ کیا پاکستان کے مقلد علما مصیبت کے حالات میں اجتماعی عبادات کے معاملے پر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی جانب سے عطا کی گئی رخصت اور آئمہ اربعین کی اس باب میں آرا سے بے خبر ہیں؟ فرض عبادات تو درکنار، نفلی مناجات بھی مساجد میں ہی ادا کرنے پر بضد ہیں۔

وبا کی سنگینی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ پھیلاؤ کی وجوہات بھی اب آشکار ہیں۔ اس سے پہلے ہونے والے مذہبی اجتماعات کے نتائج سب کو معلوم ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں مصیبت کیا رخ اختیار کر سکتی ہے، سب جانتے ہیں۔ معاملے پر شرعی احکامات میں بھی کوئی ابہام نہیں۔ ریاست چاہے تو احکامات پر عمل درآمد کروا سکتی ہے، ملک کے طول و عرض میں پھیلے مدرسوں کے ناظمین اور گنجان آباد محلّوں اور دور دراز بستیوں میں پھیلی مسجدوں کے نیم خواندہ پیش اماموں سے مگر خوف زدہ ہے۔ جلیل القدر علما کے جو نمائندے ہیں، جو ان کے حکم پر کسی بھی حکومت کو ناکوں چنے چبوا سکتے ہیں۔ کیادنیا میں ہے کوئی دیس ایسا کہ جہاں حکمران اللہ کے بندوں کو امان دینے میں اس قدر معذور ہو۔

وزیر اعظم جب پوچھتے ہیں کہ ایک آزاد ملک میں لوگوں کو مسجدوں میں جانے سے کیسے روکا جا سکتا ہے تودراصل یہ متکبّر مذہبی رہنماؤں کے حضور ان کی اسی بے چارگی کا اظہار ہے کہ جس کے عالم میں دس صدیوں قبل ناراض پوپ کو منانے کے لئے عیسائیوں کا بادشاہ ہنری چہارم، برف پرننگے پاؤں چلتے ہوئے مغرور مذہبی پیشوا کے دربار میں حاضر ہوا تھا۔ وہ یورپ کا زمانہ جاہلیت تھا، اب ماضی کا قصّہ ہے۔ ہم اب بھی مگر اسی دور میں جی رہے ہیں۔ اگروزیراعظم صاحب کی دلیل کو سچ مان لیا جائے تو پھرمذہب کے نام پر انسانوں کے جسموں کو بموں سے اڑانے والوں پر سے بھی پابندیا ں اٹھا لی جانی چاہیئں۔ وزیر اعظم سے یہ بھی پوچھا جانا چاہیے کہ آزاد ملک میں انسانی جان کی بھی کوئی حرمت ہے یا کہ نہیں؟

لاک ڈاؤن نرم کیے جانے کے بعد سے کرونا کے مریضوں میں اضافے کا تاثر مل رہا ہے۔ مئی کا مہینہ پاکستان کے لئے با لخصوص خطرناک قرار دیا جا رہا ہے۔ خدا نخواستہ آنے والے دنوں میں پاکستان کے عوام کسی المناک صورت حال سے دو چار ہوتے ہیں تو ایک بڑا الزام مسجدوں میں اجتماعی عبادات پر دہرا جائے گا۔ اسلام اور مسلمانوں سے متعلق عمومی عالمی رویّوں کی بنا پر اس الزام کی گونج پوری دنیا میں سنی جائے گی۔ مسلمانوں کے لئے زمین اور تنگ ہو کر رہ جا ئے گی۔ بھارتی مسلمانوں کی صورت حال ہمارے سامنے ہے۔

کیا پاکستان کے علما کو حالات کی سنگینی کا ادراک ہے؟ ملک کے اندرناگہانی صورت حال درپیش آتی ہے تونہ صرف نا حق ہلاکتوں و معاشی تباہی، بلکہ دین حق کی بدنامی کی بھی بڑی ذمّہ داری معاہدے کے ہر دو فریقین کے سر آئے گی۔ اس جہان میں نہ سہی، مگر کسی ایک دن جس کے لئے ان کو جواب دہ ہونا ہی پڑے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments