کرونا وائرس کے بعد معیشت کی صورت حال کیا ہو گی؟


صحت سے متعلق عالمی اداروں مختلف وائرس پر تحقیق کرنے والے وایرولوجسٹس اور دیگر طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس یعنی 19۔ کووڈ کا نہ تو ابھی تک کوئی حتمی علاج دریافت کیا گیا ہے۔ اور بہ ہی کوئی ویکسین ایجاد ہوئی ہے۔ لہذا اس بات کی کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی ہے کہ یہ خطرناک وبا اس دنیا سے کب تک ختم ہو گی اور کتنی جانوں کا نذرانہ لے کر جائے گی۔ معاشی نقصانات کا اندازہ لگانا تو فی الحال نہایت مشکل کام ہے۔ یقین سے تو نہیں کہا جا سکتا لیکن اس بات کی امید کی جا سکتی ہے کہ اس وقت دنیا اور بالخصوص ترقی یافتہ ممالک کی انتہائی جدید لیباریٹریز۔ فارما کمپنیاں۔ اور تجربہ کار طبی ماہرین دن رات اس کوشش میں جٹے ہوئے ہیں کہ 6 سے 12 ماہ کے عرصے میں اس موذی وائرس کی کوئی دوا علاج یا ویکسین دریافت کر لی جائے۔ تاکہ انسانیت کو اس وبا سے چھٹکارا دلایا جا سکے۔
انسانی تاریخ میں مختلف وباؤں جیسے کوڑھ۔ پلیگ۔ اور انفلوینزا سے کروڑوں افراد ہلاک ہوئے۔ 1918-20 کے دوران صرف اسپینش فلو کی وبا سے پوری دنیا میں دو کروڑ انسان موت کے منہ میں چلے گئے۔ لیکن انسان پھر ہی زندہ رہا اور ان خطرناک وباؤں سے لڑتا رہا اور ہار نہیں مانی۔ انسانی دماغ، ٹیکنالوجی اور میڈیکل سائنس نے اتنی ترقی کر لی کہ ان وبائی امراض کا علاج دریافت کر کے لاکھوں انسانوں کی جانیں بچا لی گئیں۔ لیکن آپ اندازہ لگائیے کہ 20۔ 1918 کے دوران تقریباً دو کروڑ افراد انفلوینزا سے ہلاک ہوئے تھے۔ جب کہ کووڈ۔ 19 سے مرنے والوں کی تعداد اندازاً دو لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ بلا شبہ اج کے ترقی یافتہ دور میں اتنی بڑی تعداد میں انسانی جانوں کا ضیاع نہایت افسوس ناک ہے۔ لیکن یہ میڈیکل سائنس اور طبی ماہرین کا کمال ہے کہ ان وبائی امراض سے مرنے والوں کی تعداد کروڑوں سے کم ہو کر لاکھوں تک آ گئی۔

کورونا وائرس کا بھی ایک دن خاتمہ ہو جائے گا۔ لیکن اس وبا سے تباہی کے بعد عالمی معیشت اور بالخصوص غریب اور پس ماندہ ممالک کی معیشت پر جو منفی اثرات مرتب ہوں گے وہ دنیا کی ترقی کو کم از کم دس سال پیچھے دھکیل دیں گے۔ 1929 کے گریٹ ڈپریشن اور سال 2008 کے مورٹگیج کرائسس کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ اگر ہم پاکستان کی مثال لیں تو جس ملک کی معیشت پہلے ہی نڈھال ہو، کورونا وائرس کے بعد اس کی صورت حال ابھی سے عیاں ہے۔ اگر ہم موجودہ حکومت کے گزشتہ دو سالوں کی معاشی اور اقتصادی کارکردگی کا ایک جایزہ لیں تو تصویر کچھ اس طرح سامنے آتی ہے۔

آی ایم ایف کی ایک رپورٹ کے مطابق سال 2018 میں پاکستان کی جی ڈی پی 314.588 بلین ڈالر تھی جو 2019 میں گھٹ کر 284.214 رہ گئی۔ جی ڈی پی کی شرح نمو 2018 میں 5.5 فی صد تھی جو 2019 میں کم ہو کر 3.3 فی صد پر آ گئی اور 2020 میں منفی 1.5 فی صد رہنے کا امکان ہے۔ جو پچاس کی دہائی کے بعد پہلی مرتبہ منفی میں ہو گی۔
مئی 2019 میں عالمی ادارے نے پاکستان کے بگڑتے ہوئے معاشی حالات دیکھتے ہوئے اپنی ہی پیش گوئی پر نظر ثانی کی اور اندازہ لگایا کہ 2019 میں جی ڈی پی کی شرح نمو 2.9 فی صد ہو گی جو جنوبی ایشیا میں کم ترین ہو گی۔

2016 میں امریکہ کی ایک ایجنسی اٹلانٹک میڈیا کمپنی نے پاکستان کی درجہ بندی جنوبی ایشیا میں نسبتاً مضبوط معیشت والے ممالک میں کی تھی اور امید ظاہر کی تھی کہ ملک مستقبل میں بہتر کارکردگی دکھائے گا۔ اس ایجنسی کے مطابق جنوری۔ جولائی 2016 میں انڈین اسٹاک مارکیٹ میں 100 انڈیکس 6.7 فی صد تھا جب کہ کراچی اسٹاک ایکسچینج کا 100 انڈیکس 17 فی صد تھا۔ اس سے پاکستان کی شیئر مارکیٹ کی تیزی کا اندازہ ہوتا ہے۔ اکتوبر 2016 میں پاکستان کے دورے پر آی ہوئی آی ایم ایف کی چیف کرسٹائنا لا گارڈے کا کہنا تھا کہ پاکستانی معیشت اب بحران سے باہر نکل آئی ہے۔ اسی سال ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 24 ارب ڈالر کی حد سے عبور کر گئے جو بقول اسٹینڈرڈ اینڈ پورز کی ریٹنگ کے مطابق مستحکم تھے۔

یہاں ہم معیشت کے ان اعشاریوں کا ذکر کرتے ہیں جن کا تعلق براہ راست عوام کے ساتھ ہے۔
مالی سال 2018 میں حکومت کا ریونیو 5228 ارب روپے تھا جو 2019 میں گھٹ کر 4900 ارب رہ گیا۔ اخراجات 7488 ارب روپے تھے جو 2019 میں بڑھ کر 8435 ارب روپے ہو گئے۔ سال 2018 میں پاکستان کے بیرونی قرضہ جات 5642 ملین ڈالر تھے جو 2019 میں بڑھ کر 9478 ملین ہو گئے۔ اور اب 100 ارب ڈالرز سے عبور کر چکے ہیں۔

زرمبادلہ کے ذخائر سال 2018 میں 16.384 بلین ڈالرز تھے جو 2019 میں گر کر 14.477 ارب ڈالرز پر آگئے اور جنوری 2020 میں 11.503 ارب ڈالر تک رہ گئے۔ اکنامکس سروے آف پاکستان کے مطابق مہنگائی کی شرح جولائی 2018 میں 5.8 فی صد تھی جو اب تقریباً 12 فی صد کو چھو رہی ہے۔

سب سے بڑا جھٹکا پی ایس ڈی پی یعنی پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام کو لگا ہے جس کا بجٹ 2018۔ 19 میں 1650 ارب روپے رکھا گیا تھا جو کئی مرتبہ نظر ثانی کے بعد نصف کر دیا گیا اور ایک اخباری خبر کے مطابق 675 ارب روپے رہ گیا ہے۔ صحت کا بجٹ جو عام حالات میں بھی ترجیح کا متقاضی ہے اس کو کسی دور میں بھی اہمیت نہیں دی گئی اور اقوام متحدہ کے عالمی معیار کے مطابق نہیں رکھا گیا۔ اکنامک سروے آف پاکستان کے مطابق سال 19۔ 2018 میں یہ رقم 13991 ملین روپے مختص کی گئی تھی جس کو کم کر کے 11058 ملین کر دیا گیا۔ دیکھا جائے تو یہ حقیر رقم ہماری جی ڈی پی کا ایک فی صد یا کچھ زیادہ بنتی ہے۔

موجودہ حکومت کا ایک اور کارنامہ یہ ہے کہ حکومت سنبھا تے ہی روپے کو بے قدر کر دیا۔ جو ڈالر گزشتہ حکومت کے ہٹتے ہی 104 روپے سے 110 روپے میں مل رہاتھا آئی ایم ایف کے دباؤ میں آ کر قدر 30 فی صد تک گرا دی اور ڈالر 150 تک پہنچا دیا جو اب 160 روپے کو چھو رہا ہے یعنی 40 فی صد تک گراوٹ جو روپے کی تاریخ میں آج تک نہیں آئی۔

19۔ کووڈ سے پیدا ہونے والی معاشی اور اقتصادی تباہی سے بچنے کے لئے ہمیں ایک واضح۔ مستحکم۔ جامعہ۔ خود مختار۔ شفاف۔ انتقام اور ہٹ دھرمی سے پاک سویلینز کی ترتیب دی ہوئی معاشی پالیسی اختیار کرنی ہوگی۔ ملک کو ایک سیکورٹی اسٹیٹ کے بجائے ایک فلاحی ریاست بنانا ہوگا۔ صحت۔ تعلیم۔ اور غربت کے خاتمے کے لئے ہر شعبے اور ہر ادارے پر ترجیح دینی ہو گی۔ ہمیں اپنا صحت اور تعلیم کا بجٹ بڑھانا ہو گا۔ کورونا وائرس کی وبا ہمارے لئے ایک سبق ہے۔ اس سے پیشتر کہ اسی طرح کی کوئی دوسری وبا انسانوں پر حملہ آور ہو ہمیں اس کی پیش بندی کر لینی چاہیے۔
ہمیں اپنی پالیسیاں۔ بیانیہ۔ اور ترجیحات تبدیل کرنا ہوں گی۔ ایسی پالیسیاں اختیار کرنی ہوں گی جو ایک فلاحی ریاست کے لئے ضروری ہوتی ہیں۔ وگرنہ جب 19۔ کووڈ جیسی وبائیں لاکھوں کروڑوں انسانوں کو نگل لیں گی تو پھر یہ سیکورٹی کسی کے کام نہیں آئے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments