چائے، کافی اور قہوہ


ایک کا ماخذ مشکوک، کردار قابلِ قبول۔ ایک کا ماخذ ترکوں کی سرزمیں، کردار پر یورپ سالوں انگلیاں اٹھاتا رہا مگر پھر عشق ہو گیا تو کردار کی اہمیت نہ رہی۔ جبکہ تیسرے کا آغاز چین میں بتایا جاتا ہے اور اسے صدیوں سے دنیائے طب کی جان کہا جاتا ہے۔ بالترتیب چائے، کافی اور قہوہ کے ناموں سے آج جانتے ہیں۔

چائے

بہت شہرت ہے، کروڑوں دلوں کی محبوبہ ہے، رنگ ضرورت کے مطابق بدل لیتی ہے۔ اندر سے خالی ہے مگر شب شبہ بہت ہے۔ کوئی دودھ میں ڈال کر بناتا ہے تو کوئی بنا کر ڈال دیتا ہے۔ کوئی اس میں مٹھاس چاہتا ہے تو کوئی اس کی اصلیت اور پھیکے پن سے دل لگا بیٹھتا ہے۔ کسی کو رنگ و بو میں ملاوٹ چاہیے اور کسی کو یہ بغیر میک اپ کے۔ اور یہ بھی طوائف کی طرح دل لبھا ہی لیتی، بدل بدل کر، لہک کر چاہنے والے کے مطابق۔

 کافی

یہ بڑی سخت جان ہے۔ صدیوں انگریزوں اور اطالویوں کی نفرت کا مقابلہ کیا (the Renaissance era) مگر اپنا قلعہ نہ چھوڑا۔ عثمانیہ کی عظیم سلطنت کے طول و عرض میں اس کی شہرت محلوں کی ڈیوڑھیوں سے جھونپڑیوں تک بامِ فلک پر تھی۔ کوئی محبت رکھتا تھا کوئی عقیدت۔ جو اپنا لے چھوڑ نہ سکے۔ آخر رومن چرچ ہار مان گیا۔ جی ہاں اس کی دلفریبی نے دنیا کی طاقتوں سے بھی دادِ کامرانی وصول کر کے چھوڑی۔ رنگ دودھیا نہیں اور نہ ملاوٹ میں دلچسپی رکھتی ہے، ملاوٹ دیکھ لے تو مزہ نہیں دیتی۔ اس کی قربت بہت زورآور ہے اور آسانی سے سمجھ نہیں آتی۔ سمجھ میں آ جائے تو زندگی بھر ساتھ نہیں چھوڑتی۔

 قہوہ

وجہ شہرت اس کی وسیع قلبی ہے۔ مردانہ صنف ہے۔ بڑا طرح دار، وضع دار۔ باہر سے عام، خوش لباس مگر اندر سے بہت گہرا۔ چناب کے پانی جیسا گدلا، ذرا فاصلہ رکھتا ہے، کسی کو قریب نہیں کرتا زیادہ مگر جو آ جائے کچھ لے کر ہی جاتا ہے۔ ذائقہ عموماً کڑواہٹ بھرا ہے مگر اندر تک دیکھا جا سکتا ہے۔ کوئی ہیرا پھیری نہیں، کوئی بے ایمانی نہیں، لذت کا دعویٰ ہی نہیں۔ بس جو کہتا ہے وہی کرتا ہے۔ سب کی ضرورت ہے مگر محبت کسی سے نہیں۔ صرف وہی محبوب جانتے ہیں جو عشق کی حقیقت سمجھتے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments