ہمیں کیوں کرونا کے ساتھ رہنا ہے؟


احساس پروگرام کے ٹیلی تھون کو دیکھتے ہوئے وزیر اعظم صاحب کی بعض باتوں پر دماغ کئی بار عجیب کشمکش کا شکار ہوا۔ حیرت ہوئی جب لاک ڈاؤن میں نرمی کے حوالے سے انہوں نے کہا ”ہمیں اب کرونا کے ساتھ رہنا ہے“ تو حیرت کے ساتھ افسوس بھی ہوا کہ کاش وزیراعظم صاحب یہ بھی بتادیتے کہ کن لوگوں کو کرونا کے ساتھ رہنا ہے تو مشکل آسان ہو جاتی۔ یقینا وزیراعظم صاحب اور ان کے ساتھی ان لوگوں میں شامل نہیں ہوں گے جنہوں نے اس وبا کے ساتھ رہنا ہے کیونکہ وہ دیہاڑی دار، تنخواہ دار اور مزدور طبقہ سے تعلق نہیں رکھتے کہ انہیں اندازہ بھی ہوسکے کہ یہ لوگ کن حالات میں کام کرتے ہیں۔

سماجی دوری کا تصور ایسے حالات میں مکمل طور پر ناکام ہوجاتا ہے۔ اس کا انہیں بھلا کہاں علم ہوسکتا ہے۔ تو یقینا یہ دیہاڑی دار، تنخواہ دار اور مزدور طبقہ ہی ہوگا جن کو کرونا کے ساتھ رہنا ہے۔ چونکہ اس طبقہ کے عوام غذا کے بنیادی اصولوں پر پورے نہیں اترتے تو یقینا اپنے کمزور مدافعتی نظام کے باعث موت کے منہ میں جانے والا بھی یہی طبقہ ہوگا۔ وزیراعظم کے اہلِ طبقہ تو صحت یاب ہوتے آئے ہیں تو انہیں فکر کرنے کی بھلا کیا ضرورت ہو گی۔

پھر کاروباری سرگرمیوں کی بحالی سے متعلق بھی ان کا زور کنسٹرکشن انڈسٹری پر ہی تھا۔ آخر کنسٹرکشن ہی کیوں؟ کیا مزدور صرف کنسٹرکشن۔ سے وابستہ محنت کش طبقہ کا نام ہے یا یہ مخلوق دیگر فیکٹریوں میں بھی کام کرتی ہے؟ آخر ایسے کون سے عوامل ہیں جو وزیراعظم صاحب کو کنسٹرکشن انڈسٹری کی طرف اس طرح راغب کررہے ہیں؟ پھر وزیراعظم صاحب کا حسبِ معمول سندھ حکومت پر تنقید کرنا۔

ٹیلی تھون کی میڈیا بیٹھک کو دیکھتے ہوئے کئی اور سوالات نے بھی جنم لیا۔ سب سے اہم کہ کیا ہماری گورنمنٹ کا سیاسی شعور کیا ایک عام آدمی سے بھی کم تر ہے جو کسی بھی متوازن پالیسی کو بنانے سے قاصر ہے؟ یا اس کی ذہنی وسعت اور معاشرتی باریک بینی اتنی محدود ہے کہ وہ موجودہ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ لگانے کے قابل نہیں۔ اس کے بعد ایسے نازک موڑ پر بھی سیاسی مخالفت کی بنیاد پر انتہائی نازک معاملات پر اختلاف کرکے عوام کو گمراہ کرنا اور لاک ڈاؤن میں نرمی پر انتہائی غیر سنجیدہ اور کنفیوزڈ حکمت عملی بنانا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کرونا کے باعث منجمد کاروباری سرگرمی کو اگر بحال کیا جاتا ہے تو کیا کرونا کی وبا جو پہلے ہی بہت تیزی سے پھیل رہی ہے اس وقت اور زیادہ لوگوں کو متاثر نہیں کرے گی؟ اور ایسی صورت میں ہیومین ورک فورس بیماری کا شکار ہونے لگے گی تو کیا کاروباری آپریشنز جاری رہ پائیں گے؟ اس صورتحال میں صحت کا کیا عالم ہوگا؟ ہسپتال اور دیگر ہیلتھ کئیر سینٹرز اس بڑھتی ہوئی گمبھیر صورتحال کو جھیلنے کے متحمل ہو سکیں گے؟

پیرامیڈکس، نرسز اور ڈاکٹرز جو خود بیماری کا شکار ہورہے ہیں اس وقت کس عالم کا شکار ہوں گے؟ کیا اس طرح صحت کا نظام منہدم نہیں ہو جائے گا؟ کیا اس وقت کا انتظار کیا جا رہا ہے جب گلیاں اور سڑک لاشوں کا نظارہ پیش کریں؟ کیا امریکہ کی ”سمتھ فیلڈ“ کمپنی کے تجربے سے ہمیں سبق حاصل نہیں ہوتا کہ جس نے امریکہ میں اس وبا کے پھیلاؤ میں کتنا اہم کردار ادا کیا کہ اور آج وہاں روز ہزاروں کی تعداد میں لوگ مر رہے ہیں؟

ایک طرف مساجد کو رمضان میں کھولنے کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف کہتے ہیں کہ عوام کو خود سمجھنا ہوگا کہ مساجد میں جانا خطرناک ثابت ہوگا۔ یہ کیسی کنفیوژن ہے؟ ان حوالوں سے اٹھائے گئے میڈیا کے کسی سوال کا جواب جناب وزیراعظم صاحب کے پاس نہیں تھا۔ ہماری حکومت لاک ڈاؤن کی صورت میں معیشت کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہے، لاک ڈاؤن کو ہٹاکر صحت کے حالات کو جھیلنے سے قاصر ہے۔ تو پھر اسٹرٹیجی کیا ہے؟ کوئی جواب ان کے پاس نہیں۔

سندھ حکومت سے تمام اختلافات کے باوجود اس بات سے قطع نظر نہیں کیا جاسکتا کہ بلاشبہ سندھ حکومت نے لاک ڈاؤن سے متعلق بروقت بہترین اقدامات اٹھائے اور لاک ڈاؤن میں سختی سے متعلق ان کا موقف % 100 درست ہے۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ سندھ حکومت اب تک بھی اپنے ہیلتھ کئیر سسٹم کو اطمینان بخش انداز میں سہولیات مہیا نہیں کر پائی ہے۔ اس کی وجہ سندھ حکومت کے اندر پائے جانے والے بدعنوان عناصر ہیں یا وفاق کے ساتھ ان کی مستقل محاظ آرائی کی کیفیت۔ وجہ جو بھی ہے مگر سندھ حکومت لاک ڈاؤن کی صورت میں کوئی بہتر معاشی پلاننگ بھی نہیں کر پائی ہے۔ اس کے باوجود لاک ڈاؤن سے متعلق سندھ حکومت کی حکمت عملی قابلِ تحسین ہے جس کو جتنا بھی سراہا جائے کم ہے کیونکہ سخت لاک ڈاؤن کے سوا اس وبا سے بچنے کا اور کوئی راستہ نہیں۔

مسئلا لاک ڈاؤن نہیں ہے۔ مسئلا دراصل حکومتی اداروں میں موجود بدعنوان عناصر ہیں۔ کرپشن کا طوفان ہے جو اب بھی حالات کی نذاکت کو نہیں سمجھ رہاِ یہ وقت لاک ڈاؤن کو نرم کرنے کا نہیں بلکہ ان عناصر کو سختی سے گرفت کرنے کا ہے مگر یہ حکومتِ وقت کے لئے ناممکن ہے کہ وہ خود ان عناصر کے ہاتھوں یرغمال ہے۔ حکومتی حکمت عملی عوام کی زندگیوں سے تو کھیل سکتی ہے مگر بدعنوانی کا خاتمہ نہیں کرسکتی۔ ورنہ اس بدعنوانی سے جمع کی گئی دولت اور سرمایہ اگر آج لاک ڈاؤن کی صورت میں غریب طبقات کی مدد میں استعمال کرلیا جائے تو لاک ڈاؤن آئندہ بھی لمبے عرصے تک بہت کامیاب انداز میں بناء کسی انتشار کے اپنے مقاصد حاصل کرسکتا ہے۔

مگر ہمارے یہ دو فیصد غیر معمولی امیر طبقات اپنی عیاشی کو کچھ دن بھی لگام لگانے اور کسی بھی قسم کی قربانی دینے کو تیار نہیں۔ ان کی تجوریوں میں عوام سے لوٹا ہو اتنا ہے کہ اگر وہ لوٹانا شروع کردیں تو کسی خیراتی مہم کو چلانے کی ضرورت نہ ہو۔ مگر یہ دو فیصد غاصب طبقات ایسے میں بھی کرپشن کرنا اپنا نصب الاعین سمجھتے ہیں۔ انہیں سمجھ ہی نہیں آرہا کہ اس عمل کی وجہ سے ملک کس انتشار کا شکار ہو سکتا ہے کہ جہاں ان کی بدعنوانی انہیں ہی ڈسنا شروع کرسکتی ہے اور ان کے پاس جمع قوم کا سرمایہ ان کے ہی گلے کا پھندہ بھی بن سکتا ہے بلکہ ساتھ ساتھ انہیں ہی نہیں پوری قوم کو لے ڈوب سکتا ہے۔ یہ بات شاید ایک عام ذی ہوش انسان کو بھی سمجھ آسکتی ہے لیکن وہ کون سے عناصر ہیں جو وزیراعظم صآحب کو یہ سب سمجھانے سے قاصر ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments