کوئی رفیق نہیں ہے کتاب سے بہتر



کتاب انسان کا بہترین دوست ہی نہیں، بلکہ ہم میں سے ہر کسی کے ساتھ بالواسطہ یا بلا واسطہ وابستہ ایک ایسا ساتھی ہے، جس کے ساتھ ہمارا تعلق عُمر بھر کا ہے۔ مذہبی اور الہامی کتب، گرنتھوں اور پستکوں سے لے کر نصابی کتابوں تک، ادب، تاریخ، ثقافت اور تہذیب کی دستاویزات سے لے کر پیشاورانہ معلومات دینے والے مجموعوں تک، لگ بھگ ہر انسان کا واسطہ کتاب سے پڑتا رہتا ہے، چاہے وہ تعلیم یافتہ فرد ہو نہ ہو! مگر جب ”کتاب کے ساتھ دوستی“ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے، تو اس سے کتاب کے ساتھ تعلق کی مراد تبدیل ہو جاتی ہے اور یہ اشارہ کتاب کے ساتھ ہمارے غیر رسمی اور غیر روایتی تعلق کی طرف ہوتا ہے۔

اِس تعلق کے تحت اُس توجّہ اور رغبت کا محور بھی وہی کتابیں بنتی ہیں، جن کو کورس کی کتب کی طرح زبردستی یا کسی لاچاری کے تحت نہیں پڑھا جاتا، بلکہ اپنی معلومات میں اضافے کے ساتھ ساتھ اپنی روح کی تقویت کے لیے پڑھا جاتا ہے۔ اس مطالعاتی رجحان کو بڑھانے کے لیے ہی پوری دنیا میں اقوامِ مُتحدہ کی جانب سے 23 اپریل کے دن کو ”عالمی یومِ کُتب“ کی حیثیت سے منایا جاتا ہے۔ کتب کا یہ عالمی دن، اقوامِ متحدہ کی جانب سے 2015ء سے منایا جا رہا ہے، جس کو ”یُونائیٹڈ نیشنز“ کا تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی ادارہ ”یونیسکو“، کتب سمیت ”کاپی رائیٹس“ کے عالمی دن کے طور پر بھی مناتا ہے، جس کا سادہ اور سیدھا مقصد، زندگی کی ہر شعبے کے لوگوں میں مطالعے کے رُجحان کا فروغ اور کتاب کے ساتھ دوستی کو بڑھانا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اِس دن منانے کے اغراض و مقاصد میں کتب کی اشاعت کا فروغ اور شایع شدہ مواد کے حقوق سے متعلق آگہی کو عام کرنا ہوتا ہے۔

کتاب کی تاریخ بھی انسانی شعور کی تاریخ جتنی ہی قدیم ہے۔ دنیا کی سب سے پرانی غیر طبع شدہ کتاب (مسودہ) انجیل (بائیبل) کا ”بحرمیت والا مخطوطہ“ ہے، جو ابرانی، آرامی اور یونانی زبانوں میں تحریر شدہ ہے۔ یہ مسودہ 150 قبلِ مسیح سے لے کر 70 عیسوی کے درمیان میں کتابت شدہ بتایا جاتا ہے۔ جبکہ شایع شدہ کتب کے لحاظ سے ”گنیز بوک آف ورلڈ ریکارڈس“ کے مطابق دنیا کی قدیم ترین کتاب، ”دی گٹنبرگ بائیبل“ نامی 42 سطرہ ”انجیلِ مقدس“ ہے، جو پندرہویں صدی عیسوی میں 1454 ء یا 1455 ء کے قریب شایع ہوئی۔

کتب کو محفُوظ رکھنے والے کتب خانے، ان عقل و علم و دانش کے سرچشموں (کتابوں ) کے گھر ہیں، جن کی بنیادیں صدیوں سے دنیا کی مختلف قوموں نے رکھیں، جن کی الماریوں میں بظاہر خاموش پڑی کتب کے سینوں میں سوئے ہوئے اربوں، کربوں الفاظَ، صدیوں کی دانش کا چیختا چلّاتا اظہار ہیں، شرط یہ ہے کہ کوئی ان کی یہ پُکار سننے اور سمجھنے والا ہو! دنیا کی لائبریریز کی قدامت کا حساب لگایا جائے تو دنیا کا قدیم ترین کتبخانہ، مراکش کے شہر ”فاس“ میں واقع ”قرویین یونیورسٹی“ کا ”قرویین کتب خانہ“ ہے، جو نویں صدی عیسوی میں قائم ہوا۔ جس کا وجود 859 ء میں برپا ہوا اور اس کے قیام کے ایک ہزار 157 سال بعد، حال ہی میں 2016 ء میں اس کی از سرِ نؤ مرمت کر کے، اس کو عوام کے لیے دوبارہ کھولا گیا ہے۔

دنیا کی سب سے بڑی لائبریری، امریکا کے دارالحکومت، واشنگٹن ڈی سی میں سال 1800 ء سے قائم ”لائبریری آف کانگریس“ ہے، جس میں دنیا کی 450 زبانوں کی 16 کروڑ 40 لاکھ سے زاید کتب موجود ہیں۔ تین بڑی عمارتوں پر مشتمل اس لائبریری میں 3 ہزار 149 کارکن کام کرتے ہیں، جبکہ 18 لاکھ سے زاید لوگ سالانہ یہاں مطالعے کی غرض سے آتے ہیں۔ دنیا کی دوسری بڑی لائبریری 15 کروڑ سے زاید کتب کے ساتھ لنڈن میں قائم ”دی برٹش لائبریری“ ہے۔

جبکہ دنیا کی تیسری بڑی لائبریری، ساڑھے 5 کروڑ سے زاید کتب کو سنبھالنے والی امریکا میں دنیا کے معاشی دارالحکومت، نیویارک میں قائم ”نیویارک پبلک لائبریری“ ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی سرکاری لائبریری 120 سال پرانی ”پنجاب پبلک لائبریری“ ہے، جبکہ دنیا بھر میں موجود لوگوں کے ذاتی کتب خانوں کی طرح برِصغیر میں بھی ذاتی کتبخانوں کی تعداد کا شمار نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے پاکستان میں کسی کا ذاتی کتب خانہ، پنجاب پبلک لائبریری سے بھی بڑا ہو۔ اِس وقت پاکستان میں کُل لگ بھگ 1430 سرکاری کتب خانے ہیں، جن میں مختلف یونیورسٹیوں کی لائبریریز بھی شامل ہیں۔ اِس وقت دنیا کی سب سے بڑی ”ای۔ لائبریری“۔ ”کئسچیا“ ہے۔

اگر ہم کتب کے حوالے سے سندھ کا ذکر کریں گے تو سومرا دور کا ذکر ضرور آئے گا، کیونکہ سندھی ادب پہلی مرتبہ اسی دور میں قلمبند ہونا شروع ہوا۔ قرآن پاک، دنیا میں سب سے زیادہ شایع ہونے والی اور پڑھی جانے والی کتب میں سے ایک ہے۔ روایت ہے کہ قرآنِ کریم کا اوّلین ترجمہ سندھی زبان ہی میں ہوا تھا، جو بھی اسی دور کا کارہائے نمایاں تھا۔ دنیا کے مشہور سیّاح، بزرگ بن شہریار اپنے سفرنامے ”عجائب الہند“ میں رقم طراز ہیں کہ: ”270 ہ/ 884 ء کے قریب دنیا کی دیگر تمام زبانوں سے قبل، قرآن مجید کا ترجمہ سندھی زبان میں ہوا، یہ مہروک بن رائق راجا کی گزارش پر، منصورہ (سندھ) کے عرب حکمران، عبداللہ بن عبدالعزیز کے حکم پر ایک عراقی عالم نے کیا تھا، یہ عراقی عالم سندھ میں رہنے کے بعد، سندھی زبان اچھی طرح سے سیکھ چکے تھے۔

اس ترجمے کا راجا مہروک پر اتنا زیادہ اثر ہوا، کہ وہ سُورة یسین کی ایک آیت ’من یحیٰ العظام وھی رمیم‘ کا سندھی میں ترجمہ اور تفسیر سن کر، تخت سے نیچے اُتر کر زمین پر بیٹھ گیا اور عشق و خوفِ خدا میں اس کی آنکھوں سے اشک بہنے لگے۔ “ یہ بھی روایت ہے کہ قرآن پاک کے دیگر زبانوں میں ترجمے کی ”اجازت“ کا فتویٰ، حضرت امام ابُو حنیفہ نے دیا تھا، جن کے آباواجداد سندھی یا قدیم سندھ کے خطّے سے تعلق رکھتے تھے۔

سندھ میں 1852 ء سے قبل فارسی کو دفتری زبان کی حیثیت حاصل تھی، جس کے بعد سندھی کو یہ درجہ ملا۔ سندھی کی موجودہ ترمیم شدہ عربی۔ فارسی الفابیٹ، اس کے ایک برس بعد 1853 ء میں رائج ہوئی۔ اس عربی سندھی رسم الخط میں پہلی درسی کتاب 1853 ء میں تحریر شدہ بتائی جاتی ہے۔ جبکہ اس اسکرپٹ میں سندھی زبان میں پہلا قصّہ 1854 ء میں شایع ہوا۔ سندھی میں مضمون نویسی کا آغاز 1860 ء میں ہوا، جبکہ قانون کی پہلی سندھی کتاب 1863 ء میں تحریر ہوئی۔

موجودہ رائج سندھی رسم الخط میں پہلا ناول 1868 ء میں شایع ہوا۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی کے کلام کے اوّلین مرتب، جرمن اسکالر، ڈاکٹر ارنیسٹ ٹرمپ نے 1872 ء میں سندھی گرامر پر بھی ایک کتاب لکھی، جس کے 12 برس بعد 1884 ء میں سیمور نے، سندھی گرامر پر کتاب تحریر کی۔ اس کے 8 برس بعد 1892 ء میں دیوان نارائن جگن ناتھ وسنانی نے سندھی گرامر پر کتاب لکھی۔ بیسویں صدی کا آغاز ہوا تو ڈیارام وسومل میرچندانی نے 1904 ء میں سندھی گرامر پر کتاب لکھی۔ اردو کا پہلا ناول ڈپٹی نذیر احمد کے ”مراة العروس“ کو مانا جاتا ہے، جس کی اشاعت 1868 ء میں ہوئی۔

مُہذب معاشروں میں بس اسٹاپس، میٹرو اسٹیشنز، خود میٹروز کے اندر، ”سَب ویز“ (لوکل ریل گاڑیوں ) ، بسوں، ہوائی جہازوں اور دیگر سواریوں میں آپ کو ہر عمر کے افراد ہر وقت مطالعے میں مصروف نظر آئیں گے۔ اگر آپ ان کی ہاتھوں میں روایتی کتاب نہیں بھی دیکھیں گے تو بھی وہ بدلتے دور کے تقاضوں کے مطابق اپنے جدید ”گیجٹس“ (سمارٹ فونز، ٹیبلیٹس یا پام ٹاپس) کے ذریعے ”کِنڈل“ یا دیگر ویب سائیٹس پر ’ای۔ بُکس‘ کا مطالعہ کرتے یا ’آڈیو بُکس‘ سنتے ہوئے ملیں گے، کیونکہ ان میں ان کے بچپن ہی سے مطالعے کی عادت ڈالی جاتی ہے، جو تمام عمر ان کے معمول کا حصّہ بن کر اُن کے ساتھ رہتی ہے۔

ہمارے معاشرے کے افراد میں یہ عادت، ان کی بنیادی کلاسوں میں لائبریری کا خاص پیریڈ نہ ہونے اور اساتذہ خواہ والدین کی جانب سے ہم نصابی کتب اور بچّوں کا ادب پڑھنے کے لیے ہمّت افزائی نہ کرنے کی وجہ سے پروان نہیں چڑھ پاتی۔ اس حد تک کہ ہماری ہر آنے والی نسل میں اخبار پڑھنے کا رُجحان تک روز بروز کم ہوتا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا آج کا نونہال، جوان خواہ معمّر ہونے تک کتب سے دُور بھاگتا ہے۔ نتیجتاً ایسے مُسلسل لاک ڈاؤن اور قرنطینہ جیسے وقت کی فراوانی والے ایّام میں بھی پڑھے لکھے لوگوں سمیت آدمشماری کی اکثریت دنیا جہان کی فضولیات میں مصروف نظر آتی ہے، مگر اپنا وقت مطالعے میں کارآمد انداز میں گزارتے بہت کم لوگ ملتے ہیں۔ ان میں ایسے خواتین و حضرات بھی شامل ہیں، جو عام دنوں کے دوران مطالعہ نہ کرنے کی واحد وجہ اپنی ”مصروفیت“ بتاتے ہیں۔

کتب سے دلچسپی رکھنے اور محبّت کرنے والوں کے لیے ویسے تو ہر دن کتابوں کا دن ہی ہوتا ہے، مگر اس دن کو عالمی سطح پر منائے جانے کا مقصد، اداروں کے ساتھ ساتھ افراد، خاص طور پر اساتذہ اور والدین کی جانب سے بچّوں خواہ نوجوانوں میں کتب بینی کے لیے دلچسپی پیدا کرنا اور اس کے فروغ کے لیے زور دینا ہے۔ کتاب کے ساتھ دوستی کی اہمیت تیزی سے عدم برداشت اور انتہاپسندی کی جانب بڑھتے ہم جیسے معاشروں میں اور بھی بڑھ جاتی ہے، جہاں کتب بینی کے ساتھ قُربت اور الفاظ کے ساتھ اُنس، خُودبخود انسان کے مزاج میں برداشت، دھیرج، اور بردباری پیدا کرتا ہے اور فنونِ لطیفہ کی طرف اس کی رغبت، انسان کے وحشی پن کو ختم کر کے اس میں سے جنُونیت اور نفرت کا خاتمہ کرتی ہے، جو اِس دور کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ کیونکہ باقی دنیا کے ساتھ دانش، شعُور، ذہانت اور تعلیمی مسابقت کی جنگ لڑنے کے لیے جو ہتھیار کار آمد ترین ہو سکتا ہے، وہ ”کتاب“ ہی ہے۔ اور پیزادہ عاشق کیرانوی نے ایسے ہی نہیں کہا تھا کہ:

سرُورِ علم ہے کیف شراب سے بہتر
کوئی رفیق نہیں ہے کتاب سے بہتر


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments