مولانا طارق جمیل کہتے ہیں کہ جھوٹوں کی قوم کا سردار سچا ہے


مولانا طارق جمیل نے چندہ جمع کرنے کی ٹی وی میراتھون پر ایک فکر انگیز اور رقت آمیز خطاب کیا۔ مولانا کی اس خوبی کا اعتراف ان کے مخالف بھی کرتے ہیں کہ وہ حق بیان کرتے ہوئے جھجکتے نہیں ہیں خواہ اس کی زد میں حاکمِ وقت آئے یا ان کی اپنی ذات۔ انہوں نے اپنی قوم کی پارسائی کی قلعی کھولتے ہوئے فرمایا کہ ”اب مجھے بتائیں ہمارے سارے اینکرز بیٹھے ہیں، سارے ہمارے وزیراعظم بیٹھے ہیں، ہم کتنا جھوٹ بول رہے ہیں۔ ہم کس قدر جھوٹی قوم ہیں۔ ہم اس جھوٹ کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں کوئی مقام نہیں لے سکتے۔“ مولانا نے مزید فرمایا کہ 22 کروڑ لوگوں میں سے کتنے سچے ہیں اور کتنے دیانت دار؟ ہم مولانا ہی کی طرح اس سوال کا جواب جانتے ہیں مگر مولانا کے اگلے کلمات سن کر دل کو کچھ ڈھارس بندھی۔ انہوں نے بتایا کہ جھوٹوں کی اس قوم کا سردار ایک سچا اور دیانت دار شخص ہے۔

مولانا کے الفاظ کچھ یوں تھے ”وزیراعظم صاحب آپ اکیلے ہیں، دیانت دار ہیں، اللہ سے رونے دھونے والے ہیں، مانگنے والے ہیں، لیکن 22 کروڑ لوگوں میں سچے کتنے ہیں؟ 22 کروڑ لوگوں میں دیانت دار کتنے ہیں؟ میری قوم جھوٹ چھوڑ دے۔ میری قوم بد دیانتی چھوڑ دے۔ میری قوم بے حیائی چھوڑ دے۔“

ہم نے ویڈیو کو غور سے دیکھا ہے۔ تمام اینکرز اور دیگر شرکا یہ کلمات سن کر شرم سے پانی پانی ہو رہے تھے۔ اپنے بارے میں سچ سننا آسان تو نہیں ہوتا۔ ہمیں یقین ہے کہ دیگر 22 کروڑ جھوٹے اور بد دیانت لوگ بھی اسی طرح شرم سے پانی پانی ہو گئے ہوں گے۔

مولانا کا بیان جادو کا سا اثر رکھتا ہے۔ ان کی میڈیا پر مقبولیت ایسی زبردست ہے کہ وہ جس چینل پر رمضان ٹرانمیشن میں آنے کی حامی بھریں وہ اس پروگرام سے روزانہ کروڑوں کمانے لگتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ میڈیا کو خوب اچھی طرح جانتے ہیں۔ اسی میراتھون میں انہوں نے میڈیا کے کام کرنے کے طریقے پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ ”ایک بہت بڑے چینل کے مالک نے مجھ سے کہا کہ کوئی نصیحت کریں میں نے کہا کہ چینل سے جھوٹ ختم کر دو، کہا کہ چینل ختم ہو سکتا ہے جھوٹ ختم نہیں ہو سکتا۔ یہ صرف پاکستان کی بات نہیں، پوری دنیا کا میڈیا جھوٹا ہے، اور سب سے زیادہ جھوٹ بولا جاتا ہے۔“

حق بات یہی ہے۔ ہم سب چاہے اوپر اوپر سے انکار کرتے رہیں مگر ہمارے دل تو اس امر سے آگاہ ہیں کہ میڈیا پر وہی مقبول ہوتا ہے جو جھوٹ بولتا ہے، چھل فریب اور مکر سے کام لیتا ہے، جو جتنا زیادہ جھوٹ بولتا ہے، اس کا پروگرام اور اس کا چینل اتنا زیادہ چلتا ہے۔ جیسا کہ اس چینل کے مالک نے اعتراف کیا کہ لوگ میڈیا پر جھوٹ بولنا بند کر دیں تو میڈیا ختم ہو جاتا ہے۔ میڈیا پر ایسے ہی جھوٹ چلتا رہا تو قوم پر آسمانی اور زمینی آفات تو نازل ہوں گی۔

مولانا کے گزشتہ بیان پر خوب لے دے ہوئی تھی کہ انہوں نے وزیراعظم، آرمی چیف، بحریہ چیف، فضائیہ چیف وغیرہ سب کے لیے خوب دعا کی تھی مگر کرونا کے خلاف اپنی زندگی خطرے میں ڈال کر لڑنے والے ڈاکٹروں کے حق میں ایک کلمہ نہیں کہا۔ اس مرتبہ مولانا نے یہ شکوہ دور کر دیا۔ انہوں نے وزیراعظم کے علاوہ ڈاکٹروں کی بھی خوب تعریف کی اور فرمایا ”یا اللہ ان ڈاکٹروں کو جزائے خیر عطا فرما جو زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔“

مولانا روحانی کے علاوہ دنیاوی امور کے بھی ایک جید ماہر ہیں۔ انہوں نے وزیراعظم کی فراخ دلی سے تعریفیں کیں لیکن ساتھ ساتھ انہوں نے لاک ڈاؤن پر اپنے تحفظات بھی ظاہر کیے۔ انہوں نے فرمایا کہ ”یا اللہ لاک ڈاؤن کے اندر ایک ایک کمرے میں دس آدمی بیٹھے ہیں لاک ڈاؤن کا کیا فائدہ؟ یا اللہ تو ہی دور کرے گا اس آفت کو یہ لاک ڈاؤن سے نہیں جائے گی۔“

مولانا کی اس بات سے کوئی ذی شعور شخص انکار نہیں کرے گا۔ ایک کمرے میں دس دس آدمی بھرے ہوئے ہوں تو لاک ڈاؤن کا کیا فائدہ؟ لاک ڈاؤن میں ایسے اجتماعات ہوں گے تو کرونا کہاں رکے گا؟ اب آپ دیکھ لیں کہ یہ بات کہنے کی جرات صرف مولانا طارق جمیل نے کی ہے، باقی کسی عالم میں اتنا حوصلہ نہیں ہے کہ ایسا حق بیان کر سکے۔

مولانا نے چین، اٹلی اور دیگر ممالک کے جھوٹ کا پول بھی کھول دیا کہ انہوں نے لاک ڈاؤن کے ذریعے کرونا پر قابو پایا ہے۔ صاف صاف بتا دیا کہ ایسی آفت لاک ڈاؤن سے نہیں جاتی، اسے اللہ ہی دور کرتا ہے۔ ہم دعاگو ہیں کہ جس طرح اللہ نے چینیوں پر اپنا خاص کرم کیا ہے ویسا ہی پاکستانیوں پر بھی کرے گا اور کرونا کو دور کرے گا۔ بہرحال ایک امکان یہ بھی ہے کہ کہیں چینیوں کی رسی دراز نا کی جا رہی ہو، وہ رمضان کے دنوں میں تو خاص طور پر سنکیانگ کے روزہ داروں کی زندگی اجیرن کر دیتے ہیں اور راہ چلتے مسلمانوں کو زبردستی کھلاتے پلاتے ہیں۔

مولانا اپنے بیان کے دوران قوم کے جھوٹ، مکر، فریب، بے حیائی اور میڈیا پر منافقت کا ذکر کرتے کرتے آب دیدہ ہو گئے، شدت جذبات سے ان کی آواز بھرا گئی، بار بار انہیں اپنا گلا صاف کرنا پڑا اور ناک سڑکنی پڑی تاکہ بات کر سکیں۔ ہماری رائے میں ان دنوں اگر مولانا اپنے جذبات پر قابو رکھیں تو مناسب ہو گا۔ آج کل کرونا کا موسم ہے۔ مولانا تو معمول کا گریہ کرتے ہیں مگر کرونا کی ٹیم والے اس گریہ وزاری کو کرونا کی علامات میں سے نا سمجھ لیں۔ ایسی نازک گھڑی میں قوم کو تنہا چھوڑ کر اگر مولانا کو بھی قرنطینہ میں جانا پڑا تو پھر قوم کو یہ کون یاد دلائے گا کہ وہ جھوٹی اور بے حیا ہے اور میڈیا پر صرف جھوٹ بِکتا ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments