کیا آپ خوفزدہ زندگی گزارتے ہیں؟


مشرق کی طرف سے مغرب کو سلام

کہتے ہیں کہ خط آدھی ملاقات ہوتا ہے۔ میری آپ سے آدھی ملاقاتیں آپ کے اور رابعہ الربا کے ’درویشوں کے ڈیرے‘ کے خواب ناموں کو پڑھتے ہوئے ہوئیں۔ آدھی ملاقات انتہائی دلچسپ ہوتی ہے کیونکہ اس میں تشنگی باقی رہتی ہے۔

انسانی نفسیات ہمیشہ سے میری دلچسپی کا مرکز رہا ہے کیونکہ یہ موضوع جتنا پیچیدہ ہے، اتنا ہی وسیع ہے۔ انسانی زندگی کی ابتدا ہی سے خوف اس کی زندگی اور نفسیات کا بنیادی جزو رہا ہے۔ اسی خوف کے زیر اثر انسان نے قدرتی مظاہر کو مذہب کے بنیادی خدوخال پہنائے اور اس میں پناہ ڈھونڈ لی۔ اسی خوف کے زیر اثر ہتھیار ایجاد ہوئے، شہروں کے گرد فصیلیں کھڑی ہوئیں اور افواج تشکیل پائیں۔ انسان نے شعوری طور پر ارتقا کی جتنی منازل طے کرتا آیا ہے خوف اس کے اجتماعی لاشعور کا جزو لازم بن گیا ہے۔

بیسویں صدی میں Paul Ekman نے چھ بنیادی انسانی جذبات کی نشاندہی کی ہے، ان میں خوف بھی ہے۔ جس طرح معاشرتی سچ سرحد پار جاتے بدل جاتے ہیں اسی طرح خوف بھی مختلف شکلیں دھار لیتے ہیں۔ میں اگر برصغیر کے خطے کی بات کروں تو ہم نے کئی صدیاں غلامی میں بسر کی ہیں اور غلام ہمیشہ خوفزدہ کردار ہوتا ہے اور یہ خوف ہماری تربیت کا حصہ بن گیا ہے۔ خوش ہوں گے تو یہ وہم ہو گا کہ کچھ برا نہ ہو جائے، غلطی کریں گے تو یہ خوف جکڑ لے گا کہ لوگ کیا کہیں گے، فیصلہ کریں گے تو اس کے نتائج کا ڈر۔

اس لمبی تمہید کا مقصد تھا کہ میں اپنا نقطہ نظر آپ کے سامنے رکھ کر درویش سے ایک سوال کروں، اپنا مشاہدہ بیان کروں۔ انسان نے ارتقا کے سفر میں جہاں خوف سے جنگ میں ترقی کی کئی منازل طے کی ہیں تو کیا وجہ ہوئی کہ ہمارے معاشرے میں مرد ہو یا عورت، دونوں نے اسی خوف کے زیر اثر اپنے لئے مظلوم ہونے کا کردار چن لیا ہے کیونکہ اس کو نبھانا بہت آسان ہے؟ اپنی غلطیوں اور فیصلوں کے نتائج دوسروں پر یا قسمت پر ڈال کر ہم مظلومیت کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں اس کے پیچھے ہماری کیا نفسیات ہے؟ انسان کب اتنی ترقی کر لے گا کہ اپنے فیصلوں کو بوجھ خود اٹھا سکے گا اور معاشرے کے خوف سے آزاد ہو جائے گا؟

پوچھنے تو اور بھی بہت سوال ہیں مگر میں یہاں خالد ندیم کے ایک شعر کے ساتھ رخصت چاہوں گی

 خط کے چھوٹے سے تراشے میں نہیں آئیں گے
غم زیادہ ہیں لفافے میں نہیں آئیں گے۔

٭٭٭ ٭٭٭

ڈاکٹر خالد سہیل کا جواب

محترمہ روشی خان صاحبہ!

سب سے پہلے تو میں آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے ’درویشوں کے ڈیرے‘ کو نہ صرف بڑے غور سے پڑھا ’اس پر بصیرت افروز تبصرہ لکھا اور اب مجھے ایک ادبی محبت نامہ بھی بھیجا۔ مجھے حیرت ہے کہ آپ اس چھوٹی سی عمر میں اتنے بڑے بڑے سوال پوچھتی ہیں۔ آپ نوجوانی میں ہی کتنی دانا ہیں۔

شعور کے ارتقا کے سفر میں جب حیوان اگہی سے خود اگہی کی سرحد پار کرکے انسان بنا تو اسے ایک وسیع و عریض کائنات کا سامنا تھا جس نے اس کے من میں خوف بھی پیدا کیا اور حیرت بھی۔ اس کے دل میں اپنی ذات اور کائنات کے راز جاننے کی خواہش پیدا ہوئی۔ اس خواہش کی وجہ سے اس نے بہت سے راز جانے۔ بقول عارف عبدالمتین

اپنی پہچان کرنے نکلا تھا
ایک عالم سے روشناس ہوا

اپنی ذات اور کائنات کے راز جاننے کے شوق میں کچھ انسان سائنسدان بن گئے ’کچھ فلسفی‘ کچھ شاعر ’کچھ ماہرینِ نفسیات اور کچھ سنت صوفی اور سادھو۔ جوں جوں انسان نے زندگی کے راز جانے اس کے خوف میں کمی آئی کیونکہ اب وہ انجانے خطروں پر قابو پا کر ان سے خود کو محفوظ پانے لگا۔

یہ انسانی خوف کا فلسفیانہ پہلو ہے۔
خوف کا ایک نفسیاتی پہلو بھی ہے۔ میری نگاہ میں انسان کے خوف کا تعلق اس کی شخصیت کے ساتھ ساتھ اس کے بچپن کے واقعات اور خاندان اور معاشرے کے حالات سے بھی ہے۔ وہ بچے جن کی پرورش ایسے محبت بھرے ماحول میں ہوتی ہے جس میں وہ محفوظ محسوس کریں تو وہ بڑے ہو کر ان کے لیے خوف پر قابو پانا آسان ہوتا ہے لیکن جن بچوں کی پرورش غیر محفوظ ماحول میں ہو تو وہ کافی عرصے تک اندر سے خوفزدہ رہتے ہیں۔

جب میں بچہ تھا اور کوہاٹ میں اپنے والدین کے ساتھ رہتا تھا[جو لاہور سے کوہاٹ ہجرت کر کے آئے تھے ] تو میری امی مجھے محلے کے بچوں کے ساتھ اس لیے نہیں کھیلنے دیتی تھیں کہ وہ خوفزدہ تھیں کہ کہیں کوئی پٹھان مجھے اغوا نہ کر لے۔ وہ مجھے کہتی تھیں مجھے پشتو بھی نہیں آتی۔ لیکن جب میں گرمیوں کی چھٹیوں میں اپنی نانی اماں سے ملنے لاہور جاتا تو میں بچوں کے ساتھ گلی میں کھیلتا کیونکہ میری نانی اماں کو کوئی خطرہ نہیں تھا کہ کوئی مجھے اغوا کر لے گا۔

ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں اکثر لوگ خوف کے سائے میں پلتے بڑھتے ہیں۔ میرا ایک شعر ہے

 کیا تم نے کبھی اپنا مقدر نہیں دیکھا
ہر گھر میں جو بستا ہے یہاں ڈر نہیں دیکھا

پاکستانی دن رات اس خوف میں رہتے ہیں کہ

کب حکومت الٹ جائے

کب کسی پر توہین مذہب کا فتویٰ اور مقدمہ چل جائے

کب کسی عورت پر مرد مل کر حملہ آور ہو جائیں

ان غیر یقینی حالات میں نجانے کتنے لوگ کتنے عرصے سے ایک خوفزدہ زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ سب سماجی مذہبی اور سیاسی خوف کی نشانیاں ہیں۔ جس ملک میں جمہوری سیاسی لیڈر سولی پر چڑھا دیے جائیں یا ملک بدر کر دیے جائیں وہاں ایک عام انسان کتنا محفوظ محسوس کر سکتا ہے؟

میں جب سے کینیڈا آیا ہوں میرے خارجی اور داخلی خوف کے احساس میں بہت کمی آئی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ کینیڈا کی پولیس اور حکومت شہریوں کے حقوق کی حفاظت کرتے ہیں اور قانون کی نگاہ میں سب شہری ’جن میں عورتیں‘ بچے اور اقلیتیں بھی شامل ہیں ’برابر کے حقوق اور مراعات کے مستحق ہیں۔

روشی خان صاحبہ!

میں آپ کو ایک ذاتی مثال دیتا ہوں۔ جب میں نے نفسیاتی مسائل کے ہسپتال میں کام کرنا شروع کیا تو مجھے ہسپتال کی ہیومن ریسورسز کی خاتون نے کہا

ڈاکٹر سہیل آپ کو دو OATH لینے ہوں گے ۔

کون سے اوتھ؟ میں نے پوچھا

پہلا اوتھ ALLEGIANCE TO THE QUEEN

دوسرا اوتھ PATIENT CONFIDENTIALITY

میں نے دونوں اوتھ پڑھ کر کہا ’پہلا اوتھ میں نہیں لے سکتا کیونکہ ملکہ کی وفاداری سے میرے مریضوں کے علاج کا کوئی تعلق نہیں۔ دوسرا اوتھ میں لوں گا لیکن آخری جملہ نہیں پڑھوں گا

وہ کیوں؟ اس عورت نے حیران ہو کر پوچھا

لکھا ہے HELP ME GODمیں ایک دہریہ ہوں اور جب میں خدا کو مانتا ہی نہیں تو اس سے مدد کیسے مانگ سکتا ہوں۔

اس عورت نے کہا کہ وہ دس سال سے وہ کام کر رہی تھی۔ ان دس سالوں میں کبھی کسی نے اعتراض نہیں کیا تھا۔ لیکن پھر اس نے مجھ سے اصرار نہیں کیا اور میں اگلے دس سال تک ہسپتال میں کام کرتا رہا۔

میری ایک مریضہ کے شوہر نے جب اسے زدو کوب کیا تو اس نے 911 کال کر کے پولیس کو بلایا جس نے اس مرد کو ہتھکڑیاں لگائیں تا کہ اس کے گھر والے اس سے محفوظ رہ سکیں۔

میں آپ کو یہ مثالیں اس لیے دے رہا ہوں کہ داخلی خوف کا خارجی خوف سے گہرا رشتہ ہے۔

جو لوگ خود اعتمادی اور نیک نیتی سے اپنی زندگی گزارتے ہیں وہ باچا خان اور نیلسن منڈیالا کی طرح جیل کی تاریکی میں تیس سال رہنے کے باوجود خوفزدہ نہیں ہوتے لیکن جو لوگ احساسِ کمتری کا شکار ہوتے ہیں وہ بہت جلد خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔

میرا خیال یہ ہے کہ ہمیں اپنے بچوں میں خود اعتمادی پیدا کرنی چاہیے۔ ان کی ایسی نگہداشت کرنی چاہیے کہ وہ زندگی میں خوفزدہ نہ ہوں وہ اپنے اعمال کی ذمہ داری لیں دوسروں کو موردِ الزام نہ ٹھہرائیں ’امن کا خواب دیکھیں اور پھر اس امن کے خواب کو شرمندہِ تعبیر کریں۔

آپ کا ادبی دوست

خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments