حضرت کا حجرہ


ایک پرانے وضح کی بنی کوٹھی کے بیسمنٹ میں کچھ میلے شکستہ سے صوفے پڑے تھے۔ ان کےساتھ کچھ کرسیاں بھی۔ ان صوفوں کرسیوں پر چند نوجوان لڑکے لڑکیاں بے چینی سے بیٹھے حضرت کے منتظر تھے۔ سامنے ایک رایئٹینگ ٹیبل تھی جس کے پیچھے ایک چرمی کرسی تھی۔ میز پر کئی موٹی موٹی کتابیں دھری تھیں۔ سگمنڈ فرایئڈ، ولیم جیمز، البرٹ بندورا، نطشے اور کرشنا مورتی کی لکھی ہوئیں۔ داہنے ہاتھ ہر ایک شیلف تھا جس میں حضرت کی اپنی تحریر کردہ کتابوں کا ڈھیر تھا جو کئی مختلف موضوعات پر تھیں۔ انسانی آزادی حضرت کا پسندیدہ ترین موضوع ہے جس پر انہوں نے سالہا سال کی ریسرچ کے بعد کوئی پندہ بیس کتابیں لکھ ڈالیں۔ حضرت کے حاضرین سے خطاب کی ویڈیو بھی بن رہی ہے جو ان کے ہفتہ وار یو ٹیوب چینل پر چلے گی۔ کچھ دیر انتظار کروانے کے بعد حضرت اندر داخل ہوئے۔ سب نوجوان ان کے احترام میں کھڑے ہو گئے۔ حضرت پرکشش شخصیت کے مالک ہیں، کلین شیو چہرا۔ بال جدید طرز پر کٹے اور ترشے ہوئے۔ فقط ایک زلف گیرہ گیر پیشانی پر بے خودی کے سے انداز میں جھولتی ہوئی۔ آنکھوں میں چمک کے ساتھ ایک ہونٹوں پر منکسرانا مسکراہٹ ۔ کیمرا آن ہو گیا۔

” ارے ارے بیٹھیے آپ لوگ۔ میں کوئی وزیر مشیر نہیں ہوں۔ عام سا بندہ ہوں۔ تشریف رکھیئے” انہوں نے ہاتھ جوڑے۔

حضرت نے کرسی سنبھالی اور ان کے بے دام مرید میاں عبدل عبدل نے حضرت کے تعارف، تعریف و توصیف کے ساتھ آج کی نشست کا باقاعدہ افتتاح کیا۔

” حضرت آپ سے فیض پانے اور رہنمائی کے لیئے ہم سب یہاں جمع ہوئے ہیں۔ آپ سے بہتر رہبر ہمیں نہیں مل سکتا۔ آپ ہمارے گرو ہی نہیں، مسیحا بھی ہیں۔ آپ اپنی مصروف زندگی کا قیمتی وقت ہمارے لیئے نکالتے ہیں۔ یہ ہماری خوش نصیبی ہے۔ حضرت آپ نہ ہوتے تو ہم مر گئے ہوتے” وہ آبدیدہ ہوئے جا رہے تھے۔

حضرت اس دوران مسکراتے رہے پھر یوں گویا ہوئے۔

” ارے بھائی یہ اپ لوگوں نے مجھے کس مقام پر لے جا کر کھڑا کر دیا؟ میں کچھ بھی نہیں ہوں۔ بس ایک عام سا انسان ہوں۔ خود کو کسی اعلی مقام پر نہیں دیکھتا ہوں۔ بلکہ میں تو ایک فقیرانہ مزاج کا قلندر ہوں”

” نہیں حضرت آپ عام انسان نہیں ہیں، آپ نبض آشنا ہیں، نکتہ رس ہیں۔ آپ سچائی کے پیرو ہیں بلکہ آپ خود سچ ہیں۔ مجھ پر آپ کی نظر کرم پڑی تو میں ریت کے ذرے سے گوہر آبدار ہو گیا۔ صرف عبدل سے میاں عبدل عبدل ہوگیا۔ “

” میاں عبدل عبدل آپ خود ایک ہیرا تھے، میں نے صرف آپ کو تراشا ہے۔ آپ کی دانائی اور فہم کا میں معترف ہوں۔ آپ لکھتے بھی بہت اچھا ہیں اور بولتے بھی عمدہ ہیں۔ ” کچھ دیر دونوں حاجی، حاجی کھیلتے رہے۔ دونوں نے انکساری سے تعریف قبول کی پھر حضرت نے طائرانہ نگاہ حاضرین پر ڈالی

 ” میں دیکھ رہا ہوں کہ آج کچھے نئے چہرے بھی ہیں۔ “

” حضرت آپ کو سننے والوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ نوجوان نسل الجھی ہوئی ہے۔ ان کے ذہنوں میں ڈھیروں سوال ہیں۔ آپ انہیں ایک نئی سوچ اور فکر سے آشنا کر رہے ہیں۔ آپ ہی ہیں جو ان کی رہنمائی فرما سکتے ہیں” ۔ آج کا موضوع بھی شخصی آزادی اور محبت تھا۔ حضرت نے آزادی کا مطلب بیان فرمایا۔ محبت کے معنی بھی کھل کر بتائے اور اس کی باریکیاں بھی سمجھائیں۔ حاضرین کے چہرے فرط جذبات سے سرخ ہو رہے تھے۔ ایسی ہی آزادی کا تو خواب وہ دیکھتے آ رہے ہیں۔ خطاب کے بعد سوالات اور جوابات کا سلسہ شروع ہوا۔ خطوط کا ایک ڈھیر لگا ہوا تھا۔

میاں عبدل عبدل نے پہلے سے چھانٹے ہوئے سوالات ایک ایک کر حضرت کو دینے شروع کیئے۔

” پہلا خط حیات علی خان کا ہے لکھتے ہیں۔

میرے مسیحا

کل میں نے زندگی سے تنگ آ کر خودکشی کا فیصلہ کر لیا تھا۔ نیند کی گولیوں کا پوارا پیکٹ خرید لایا۔ آپ جانتے ہیں کہ پاکستان میں ڈاکٹری نسخہ کے بغیر بھی یہ سب مل جاتا ہے۔ گولیاں سامنے میز پر تھیں۔ پانی کا گلاس بھی بھر لایا۔ اچانک خیال آیا کہ آج تو آپ کا ہفتہ وار خطاب کا دن ہے۔ سوچا، دنیا سے جانے سے پہلے اسے سن لوں۔ آپ کے فون نمبر کی پٹی بھی چل رہی تھی۔ میں نے اسی وقت فون کیا اور آپ نے فون پر ہی میری ایسی تھراپی کی کہ مجھے زندگی سے محبت ہو گئی۔ میں جب تک زندہ رہوں گا اور آپ کے گن گاتا رہوں گا۔

آپ کا شکر گزار و ممنون۔

حضرت نے جواب میں کہا۔

محترم حیات صاحب آپ نے جس خلوص و محبت سے میری تعریف کی ہے اس کا شکریہ۔ مجھے خوشی ہے کہ میں صحیح وقت پر صحیح جگہ پر آپ کے لیئے موجود تھا۔ زندہ رہیئے اور گن گاتے رہیئے۔

اور یہ خط ہے ماہم نور کا

حضرت جی سلام شوق

آپ کی بات میں نے پلو سے باندھ لی ہے جو آپ محبت کے بارے میں دہراتے ہیں کہ محبت کو ضرب دینی چاہیئے، تقسیم نہیں کرنا چاہیئے۔ ایک ریئلیٹی شو سسٹر وایئفز شوق سے دیکھتی ہوں ۔ اس کےکوڈی کا بھی یہی کہنا ہے۔ اس نے یقینی طور پر آپ کا جملہ چرایا ہے۔ کوڈی کی چار بیویاں ہیں۔ شاید مسلمان ہے۔ میں تو پہلے محبت تقسیم کرتی تھی، اب آپ کی مانتے ہوئے محبت کو ضرب دینا چاہ رہی ہوں۔ لیکن کیسے کروں؟

ماہم صاحبہ گو میں آپ سے کبھی نہیں ملا لیکن لگتا ہے ایک عرصے سے آپ کو جانتا ہوں۔ آپ بہت معصوم ہیں۔ اتنا بھی نہیں ہونا چاہیئے۔ اور ہاں آپ کی ریاضی کمزور ہے، اس پر توجہ دیں۔

حضرت اگلا خط۔ میاں عبدل عبدل نے ایک اور آگے بڑھایا۔ یہ جواں بخت کا ہے۔

حضرت صاحب قدم بوسی

میں کن الفاظ میں آپ کا شکریہ ادا کروں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ میں نے آپ کو سال بھر پہلے لکھا تھا کی میری شادی ہونے والی ہے لیکن میں خود کو اس قابل نہیں سمجھتا۔ آپ نے مجھے خطوط کے ذریعہ مفید مشوروں سے نوازا ۔ آپ نے مجھے سیکھایا ہے کہ مجھے اپنے سے محبت کرنی چاہیئے اور کوئی جو بھی کہے میں خود کو مکمل سمجھوں۔ میں نے شادی کر لی اور بیوی سے میں نے کہہ دیا ” میرا جسم میری مرضی”

احسان مند۔ جواں بخت

حضرت کا جواب

جواں بخت صاحب

آپ کا خط پا کر بے حد خوشی ہوئی۔ میرے مشورے آپ کے کام آئے اس سے زیادہ میری اور کیا خوش نصیبی ہو سکتی ہے۔ خط لکھتے رہیئے۔ اگر آپ کی بیگم چاہیں تو مجھ سے مشورے کے لیئے رابطہ کر سکتیں ہیں۔ میں رہنمائی کے لیئے حاضر ہوں۔

” حضرت یہ خط آپ کے دوست رفیق احمد کا ہے۔ “

حضرت کا ہر وقت مسکراتا چہرہ اور بھی کھل اٹھا۔ میاں عبدل عبدل نے خط پڑھنا شروع کیا۔

دوست عزیز

آپ کا محبت نامہ ملا۔ کن الفاظ میں اپنی کیفیت بیان کروں۔ اپنی خوش نصیبی پر رشک کروں یا اس دوستی پر ناز۔ دوستی ایک ایسی متبرک چیز جس کی پوجا کی جانی چاہیئے۔ آپ میں اور مجھ میں کئی گن مشترک ہیں۔ آپ کی طرح میں بھی ایک سچا، کھرا اور منکسرالمزاج عمدہ انسان ہوں۔ ہماری خوب جمے گی۔

آپ کا ابدی دوست

حضرت نے مسرت بھری لہجے میں جواب دیا۔

میرے دوست میرے ساتھی

آپ سے بڑھ کر انسان دوست اور منکسرالمزاج اگر کسی کو پایا تو وہ میں خود ہوں۔ اگلے ہفتے ڈنر پر تفصیل سے بات ہوگی۔

آپ کا انسانی دوست

حضرت یہ خط نازش جبین کا ہے۔

میرے حضرت

آپ سے پہلے بھی بات ہوتی رہتی ہے فون اور انٹر نیٹ پر لیکن آپ کا اصرار کہ میں خط لکھوں۔ سر آنکھوں پر۔ لیکن کیا لکھوں؟ آپ تو سب کچھ جانتے ہیں۔ حالات وہی ہیں۔ میری الجھن بھی ویسی ہی ہے۔ آپ کے مشورے پر عمل کرتے ڈر لگتا ہے۔

خوفزدہ نازش

نازش صاحبہ

خط لکھنے پر اصرار اس لیئے ہے کہ آپ میں خوداعتمادی آئے اور کچھ سیکھ سکیں۔ ڈریں مت۔ میں ہوں نا؟ اگلے خط میں تفصیل سے ایک بار پھر اپنا مسئلہ کھل کر لکھیں۔

آپ کا ہمدرد

اور یہ آخری خط ہے گڑیا کا۔ عبدل عبدل نے مسکراتے ہوئے پڑھنا شروع کیا۔

استاد محترم

وہ کیسی مبارک گھڑی تھی جب میری آپ سے آشنائی ہوئی۔ مجھے تو یقین نہیں آتا کہ آپ جیسا مہان شخص مجھ جیسی ایک گمنام چھوٹی سی لڑکی کو اتنی اہمیت دے رہا ہے۔ آپ کا ہر خط میں کئی کئی بار پڑھتی ہوں اور ایک ایک لفظ اپنے اندر اتارتی ہوں۔ مجھے یونہی سہارا دیتے رہیئے،

آپ کی اپنی گڑیا

حضرت کا جواب

محترمہ گڑیا صاحبہ

میری نظریں آپ کو ایک قدآور خاتون بنتے دیکھ رہی ہیں ۔ خود کو غیر اہم مت جانیئے۔ میں ہمیشہ آپ کی رہنمائی کرتا رہوں گا اور آپ کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچا کر دم لوں گا۔

آپ کا مخلص دوست۔

اس کے بعد میاں عبدل عبدل نے آج کی نشست کے اختتام کا یوں اعلان کیا۔

” ناظرین آپ کو اگر ہمارا یہ شو پسند آیا ہے تو اسے لایئک کریں اور ہمارے چینل کو سبسکرایب کریں۔ گو کہ حضرت ایک مصروف زندگی گذار رہے ہیں پھر بھی آپ کی خدمت کے لیئے وقت نکالتے رہیں گے۔ اگلے ہفتے پھر ملیں گے۔

انسان زندہ باد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments