چین نے وائرس کی وبا پر کیسے قابو پایا؟



23 اپریل 2020ء کی شام تک دنیا بھر میں کرونا وائرس سے متاثرین کی تعداد ڈھائی ملین سے تجاوز کر چکی تھی۔ اُس وقت تک دو لاکھ کے قریب انسان ہلاک مگر سات لاکھ تیس ہزار افراد صحت یاب بھی ہوئے۔

23 صوبوں اور 34 علاقوں پر مشتمل، مشرقی ایشیا کا ملکِ چین آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اوردنیا کی کل آبادی کے بیس فیصد لوگ چین میں بستے ہیں۔ حالیہ وبا کے حوالے سے بات کریں تو چین میں دسمبر 2019 ء سے لے کرابھی تک 82793 لوگ کرونا وائرس سے متاثر ہوئے۔ 4632 اموات ہوئیں جب کہ 77000 افراد متاثر ہونے کے باوجود دوبارہ صحتیاب ہو گئے اور 23 اپریل 2020 ء کو پورے چین میں صرف بارہ نئے کیس رپورٹ ہوئے۔ یہ ایک اچھی خبر ہے اور ایک بڑی کامیابی بھی ہے، جس سے سیکھنا یقینا یقینا سودمند ہے۔

چین کی کرونا وائرس کو قابو کرنے میں کامیابی کا سب سے بڑا سبب قرنطینہ پر سختی سے عمل پیرا ہونا ہے۔ کرونا وائرس وُوہان سے پھیلنا شروع ہوا تھا۔ جب انتظامیہ کو اس بات کا پتہ چل گیا تو چشم دید گواہوں نے بتایا کہ وُوہان سے بیجنگ جانے والی ریل گاڑیوں تک کو راستے سے واپس وُوہان کی طرف موڑ دیا گیا تھا۔ بڑے بڑے اسٹیڈیم، ہوٹلوں اور دیگر سہولتوں کو قرنطینہ میں تبدیل کر دیا گیا۔ صرف وُوہان میں ایک درجن سے اوپر عارضی ہسپتال چند ہفتوں میں قائم کر دیے گئے تا کہ کم علامات والے مریضوں کو بھی قرنطینہ میں رکھا جا سکے۔ لوگوں کے اکٹھاہونے پر سخت پابندی ہے۔ خواہ وہ تعلیمی ادارہ ہو، مارکیٹ ہو، دفاتر ہوں یا عبادت گاہیں۔

زیادہ متاثرہ علاقوں میں پبلک ٹرانسپورٹ کو قریب قریب بند کر دیا گیا، جہاں پبلک ٹرانسپورٹ چل رہی تھی وہاں پر فیس ماسک، دستانے اور شناختی کارڈ کے بغیر سفر کی اجازت نہیں تھی اور بس پر سوار ہونے سے پہلے سواری کے جسم کا درجہ حرارت لینا ضروری تھا۔

اگلا بڑا اقدام مفت ٹیسٹنگ کا تھا۔ چین نے ہر شہرکے ہر ہسپتال میں کرونا ٹیسٹ کی مفت سہولت مہیا کی ہے۔ جس سے ہر شہری جس کو ذرا سی بھی علامات محسوس ہوں، اپنا وائرس ٹسٹ کروا سکتا ہے۔

اس کے علاوہ چین نے پورے ملک کے ہسپتالوں اور عارضی ہسپتالوں میں ونٹی لیٹرز Ventilators کی بہتات کر دی۔ اس مقصد کے لیے چین نے اپنی ونٹی لیٹر انڈسٹری کو تیز تر کر دیا ہے اور ونٹی لیٹرز کی برآمد بھی بڑھا دی ہے۔

اسی طرح چین نے سینی ٹائزر، فیس ماسک اور دستانے بنانے والی فیکٹریوں کی پیداوار چار گنا بڑھا دی ہے جبکہ ان کی قیمت کم کر دی ہے۔ وٹامن سی پر مشتمل خوراک کی ارزاں دستیابی کو یقینی بنایا گیا۔

ٓ کرونا وائرس کے پھیلنے کی وجوہات، بیماریوں اور علامت بارے بھرپور آگاہی مہم کاآغاز دسمبر سے ہی کر دیا گیا تھا۔ مگر چین میں میڈیا چونکہ ریاست کے کنٹرول میں ہے۔ ہر قسم کی افواہ سازی، سنسنی خیز ی اور خوف و ہراس پھیلانے پر سخت ترین سزا ہے۔ چین کے صدر مختلف شہروں میں بنفس ِ نفیس جا کر بار بار لوگوں کا حوصلہ بڑھاتے رہتے ہیں۔

ایسا نہیں کہ پاکستانی حکومت اور عوام وائرس سے نمٹنے میں ناکام ہو گئے ہیں، نہیں۔ پاکستان نے بعض ترقی یافتہ ممالک سے بھی اچھی کارکرکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ پاکستان میں آج تک 23513 کرونا وائرس سے متاثرہ افراد رپورٹ ہوئے ہیں، 224 اموات اور 2337 افراد دوبارہ رو بصحت ہو چکے ہیں۔ بظاہر صورت حال قابو میں نظر آرہی ہے۔ مگر ابھی تک سب اچھا نہیں ہے۔ اور مزید بہتری کے لیے چین کے ماڈل کو سامنے رکھا جا سکتا ہے۔

ؑعلماء کرام سے گزارش ہے کہ ان مخصوص حالات اور مشکل گھڑی میں طبی ماہرین کا ساتھ دیں اور عوام کو گھروں میں تراویح پڑھنے پر قائل کریں۔ اس وقت پاکستان فوری طور پر دو بڑے مسائل سے دوچار ہے۔

(اول) ہسپتالوں میں ٹیسٹ کرنے والے آلات اور ونٹی لیٹر کی فراہمی اور ناکارہ آلات کو دوبارہ کار آمد بنانا۔

(دوم) دیہاڑی دار اور غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کے لئے اشیائے خورد و نوش کی فراہمی۔

حکومت کو چاہیے کہ اس دفعہ رمضان میں کٹنے والی زکاۃ اس مقصد کے لیے وقف کریں۔ اس کے علاوہ پاکستان کے دس امیر ترین لوگ اپنی دولت کا ایک فیصد اس کارِ خیر میں ڈالیں تو کافی حد تک چینی ماڈل پر عمل ممکن بنایا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments