کیا علما کرام سائنسی ایجادات کے مخالف ہیں؟


شدت پسندی کے کئی لغوی معنی ڈھونڈے جاسکتے ہیں۔ بنیادی طور پر شدت پسندی انسانی رویے یا ذہنی رجحان کو قرار دیا جاتا ہے۔ فی الاصل شدت پسندی اس نظریے، انسانی رویے اور سوچ کو کہا جاتا ہے جو زبردستی معاشرے کے دیگر افراد پر بزور بازو مسلط کی جاتی ہے۔ عام طور پر شدت پسندی کا مفہوم ایسا انسانی رویہ لیا جاتا ہے جس میں سختی ہو۔ یعنی متشدد سوچ اور رویوں میں مبتلا افراد اپنی سوچ کو دوسرے افراد پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔

ایسے میں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ کیا بزور بازو اپنی سوچ اور نظریات معاشرے کے دیگر افراد پر مسلط کرنا ہی محض شدت پسندی ہے یا اپنے مٖفروضے پر مکالمے کے بجائے الزام تراشی، بہتان، اور جھوٹ کو فوقیت دینا بھی شدت پسندی کہلائے گا۔ میری ذاتی رائے کے مطابق اگر انسان اپنی سوچ اور مفروضے کو ہر قیمت پر سچ ثابت کرناچاہے اگرچہ وہ غلط ہو تو یہ شدت پسندی ہی کہلائے گا۔ اور پھر اپنی سوچ کے جھوٹ اور غلط ثابت ہوجانے پر جھوٹ کو اتنی شدت سے بولو کہ وہ سچ لگنے لگے یہ بھی شدت پسندی کے زمرے میں آنے والا انسانی رویہ ہی ہے بلکہ یہ ایک ذہنی مرض ہے کیونکہ بنیاد ی طور پر ہر شدت پسند اور متششدد سوچ کا حامل شخص کئی ذہنی امراض میں مبتلا ہوتا ہے۔

ایسا ہی ایک رویہ آج کل ہمیں درپیش ہے۔ اور اس رویہ کے افراد نہ کوئی دلیل ماننے کو تیار ہیں نہ ہی آپ کی بات سننے کو، بس ان کا موقف تسلیم کرلیا جائے۔ اور وہ موقف یہ ہے کہ علماکرام اور دین دار شخصیات سائنسی ایجادات کی مخالف ہیں۔ ایسے افراد اکثر دلائل میں بیان کریں گے کہ مولوی لاؤڈ اسپیکر کے مخالف تھے اور اب استعمال کرتے ہیں۔ نجانے وہ کون سے مولوی تھے جو لاؤڈ اسپیکر کے خلاف تھے؟ اور پھر پاکستان میں اکثر رویت ہلال کے حوالے سے موقف اختیار کیا جاتا ہے کہ چاند دیکھنا سائنسی معاملہ ہے اور بحث شروع کردی جاتی ہے بغیریہ سوچے سمجھے اور دوسروں کو سننے کہ رویت ہلال کمیٹی میں صرف علماکرام نہیں بلکہ محکمہ موسمیات و دیگر کئی اداروں کے اہلکار شامل ہوتے ہیں۔

اب ایک نئی بحث کی جارہی ہے کہ کرونا کے خلاف دینی طبقہ احتیاطی تدابیر نہیں اپنا رہا۔ یہاں پر ایک امتیاز برتنے کی سخت ضرورت ہے کہ علماکرام احتیاطی تدابیر پر مکمل عمل کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں اور خود بھی عمل کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ چند دن قبل چئیرمین مرکزی رویت ہلال کمیٹی پاکستان پروفیسر مفتی منیب الرحمان دعوت اسلامی کے سربراہ مولانا الیاس قادری سے ان کی ہمشیرہ کے انتقال پر تعزیت کے لیے تشریف لے گئے جہاں ان کا استقبال دعوت اسلامی کی مرکزی شوری کے نگران حاجی محمد عمران عطاری نے کیا۔

اس موقع کی سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز اور تصاویر میں با آسانی دیکھا جاسکتا ہے کہ مفتی منیب الرحمان ہاتھ ملانے اور بغلگیر ہونے کے بجائے ہاتھوں کو ہوا میں لہرا کر سلام و دعا کررہے ہیں۔ یعنی مفتی منیب الرحمان ماہرین صحت کے بتائے ہوئے اصولوں پر من و عن عمل کررہے ہیں اس سے قبل وہ یہ بھی اعلان کرچکے کہ وہ نماز اپنے گھر پر ہی ادا کریں گے کیونکہ حکومت پاکستان پچاس سال سے زائد عمر کے افراد کو مساجد میں آنے سے روک چکی ہے۔

اس اعلان اور مفتی منیب الرحمان کے عمل کو دیکھنے کے بعد بھی اگر کوئی تصویر کے اس رخ سے روگردانی برتے اور بضد رہے کہ علما کرام اور دین دار طبقہ وبائی مرض کے معاملے میں احتیاطی تدابیر نہیں اپنا رہا تو کیا ایسے شخص کو شدت پسند نہ کہا جائے؟ اس تصویر سے ان افراد کو بھی سبق حاصل کرنا چاہیے جو محض اللہ کے توکل پر احتیاطی تدابیر کے بجائے لاپرواہی برتتے ہیں۔ کرونا ایک وبائی مرض ہے اور احتیاط ہی سے اس مرض سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ اللہ پر توکل بھی احتیاطئی تدابیر کے ساتھ ساتھ ہونا چاہیے جس پر مفتی صاحب خود بھی عمل کرتے دکھائی دیے رہے ہیں اور بارہا مرتبہ اپنے ویڈیو پیغامات میں بھی احتیاطی تدابیر اپنانے کا حکم دے چکے ہیں۔ مگر نجانے کیوں تصویر کا یہ رخ بہت سے افراد کو دکھائی نہیں دے رہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments