انسانی عقل اور خدا کی تلاش


انسانی عقل کا سب سے بڑا المیہ یا خامی اس کا حواس خمسہ کا تابع ہونا ہے۔ حواس خمسہ انسانی عقل کو سگنل دیتے ہیں اور انسانی عقل جسم کے دیگر حصوں کو عمل کرنے کا کہتا ہے۔ گویا یوں ایک عمل سے ردعمل کا ایک پورا نظام قدرت نے ہمارے جسم کے اندر رکھ چھوڑا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی عقل ہمیشہ اپنے حواس خمسہ کے ذریعے کسی بھی دعوی کے لیے سمعی و بصری ثبوت کا تقاضا کرتی ہے۔ جب یہ ثبوت نہ ہو تو انسانی عقل کسی بھی انسان کو ذہنی خلفشاراور جھنجھلاھٹ کا شکار کردیتی ہے اور یوں وہ انسان سمعی و بصری ثبوت کے لیے نکل کھڑا ہوتا ہے۔

سب سے پہلا سوال انسانی عقل نے اس کائنات کے وجود پر اٹھایا کہ یہ کائنات کیونکر وجود میں آئی اور اس کے وجود کے پیچھے کون سی قوت کارفرما ہے۔ اس کیوں، کب اور کیسے کی جستجو نے بعد میں سائنس کی بنیاد رکھی۔ انسانی عقل کو حواس خمسہ کی مدد سے اس ثبوت کو ڈھونڈھنا تھا لہذا انسان کوسمعی و بصری بنیادوں پر جو بھی طاقتور ثبوت نظر آئے انہوں نے اس کو خدا کا نام دے دیا۔ قدیم انسان نے چاند کو دیکھا اس کو خدا مان لیا لیکن اس سے اگلے دن سورج کی تابناکی دیکھ کر اس کو خدا کہنا شروع کردیا۔

لہذا سمعی و بصری تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے حضرت انسان مارا مارا پھرتا رہا کبھی اس نے انہی تقاضوں کی خاطر اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے پتھروں کی پوجا شروع کردی اور ان بتوں کو خدا کا نام دے دیا تو کبھی ان دیکھے خدا کے وجود کے دعوی کے باوجود بھی عقل کی ثبوت والی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اس کے وجود کی نشانیوں کو معجزوں کی صورت میں تلاش کیا۔ کبھی خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے اس کے نام کو بادلوں میں ڈھونڈھا، جانوروں کے اجسام پر خدائی نام سے تھوڑی سے مطابقت رکھتے ہوئے الفاظ کے ذریعے عقلی ضرورت پوری کی تو کبھی سبزیوں اور پھلوں پر اس کے نام کو پاکر بصری دلیل بنا تے ہوئے اپنے عقل کو ثبوتی توجیح فراہم کی۔

لیکن بات پھر بھی نہ بنی تو عبادت گاہیں بنا ڈالیں تاکہ اس گمنام خدا کی عبادت کے لیے کوئی آنکھوں دیکھا فزیکل ذریعہ وجود رکھتا ہو تاکہ عقل کی بصری ضرورت پوری کی جاسکے۔ ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے اس انسانی تخیل نے خدا کے وجود کو فزیکل ثابت کرنے کے لیے اس کی ان دیکھی اور ان جانی منفرد صفات کو انسانی خواص کے آئنے میں ڈھونڈھنا چاہا، ایسا کرنا عقلی تقاضا تھا کیونکہ ظاہری سی بات ہے انسان کے پاس خدا کو دیکھنے کا کوئی براہ راست ذریعہ (ریفرنس) نہ تھا اور وہ کائنات میں ہر چیز کوکسی دوسری چیز کی نسبت سے جاننا اور سمجھنا چاہتا ہے تو لہذا اس نے اپنے ہی خواص کو نسبت بنا کر اس ان دیکھی طاقتور اور منفرد ترین ذات کی وضاحت کرنا شروع کردی، لیکن حضرت انسان یہ بھول گیا کہ یہ سارے خواص انسانی جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں جو بذات خود ایک خامی یا کمزوری کی دلیل ہیں جبکہ خدا کو ماننے والے ایسے لوگ اسے ہر خامی سے مبرا اور پاک گردانتے ہیں اور انسانی اوصاف و جذبات کو ڈھال بنا کر اپنی ہی بات کی تردید بھی کردیتے ہیں۔ سائنس نے بڑا سادہ سا اصول رکھا ہے کہ عقل کی ضرورت حواس خمسہ کی بنیاد پر پوری کی جائے جو اسی وقت ممکن ہے جب سمعی و بصری ثبوت پائے جائیں ورنہ دوسری صورت میں لاعلمی کا اظہار کیا جائے نہ کہ عقل کو دھوکا دینے کی جستجو کی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments