قوم کی جمہوری حکمرانی کیسے ممکن ہو؟


برادر محترم وجاہت مسعود نے گزشتہ روز مطبوعہ ہوئی پر مغز مدلل تحریر میں ساری بحث سمیٹتے ہوئے مشاورانہ اسلوب کے ساتھ حتمی نتیجہ یا مطلوب لائحہ عمل یوں بیان فرمایا تھا کہ ”اب قومی نہیں قوم کی ِحکومت قائم ہونی چاہیے”۔ بلاشبہ اس نتیجے و مطالبے سے اختلاف ممکن نہیں لیکن جہاں محترم نے بحث ختم کی ہے، وہاں سے اتفاق رائے کے ساتھ یہ بحث شروع ہوتی ہے کہ اس سنہرے خواب کی عملی صورت گری کیونکر ممکن ہو سکتی ہے۔ چند سوالات اسی کے بطن سے ابھرتے ہیں۔ قوم کی حکومت سے مراد ہر طرح کی اثر اندازی کے بغیر حکومت کا قیام مراد ہے یا کسی بیرونی طاقت کی جگہ قوم بمعنی پاکستان کے عوام کی منتخب شدہ جمہوری حکمرانی کا قیام ہے؟

یقینا محترم برادرم کی سیاسی ذہنی بالیدگی ایسی ہی سوچ کی حامی ہے تو پھر بحث کی لمحہ موجود میں ضرورت کیوں پیش آئی ہے؟ کرونا وبائی بحران، معیشت کی غارت گری۔ سیاسی نظم میں غیر جمہوری پیوند کاری و دیگر اسباب کے نتیجے میں یہ بحث پھر سے چھڑ گئی ہے۔ پیش پا افتادگی سے درمانی کا کونسا در کھلے تو مفید ہوسکتا ہے۔ ایک دیرینہ تجویز جس کا پھر اعادہ کرایا گیا ہے وہ ماہرین پر مشتمل حکومت کا قیام ہے جو مسائل کے چنگل سے نکالنے کی سبیل کرے۔ اس کے برعکس دوسری تجویز موجودہ پارلیمنٹ کے اندر سے ہی وسیع البنیاد حکومت کے قیام کا احاطہ کرتی ہے۔ اس تجویز سے اتفاق و اختلاف کے دلائل موجود ہیں۔ شائبہ ہو سکتا ہے کہ برادرم وجاھت اس سے متفق نہیں۔ لیکن کیا وہ ماہرین کی حکومت کے حامی ہوں گے، ایسا گمان بھی گناہ متصور ہوگا۔

تو سوال یہ ہے قوم کی حکومت کے قیام کے عملی امکانات اور خدوخال کیا ہو سکتے ہیں؟ پہلی صورت تو یہ ہو کہ اپوزیشن جماعتیں عدم اعتماد لائیں اسے کامیاب بنائیں اور پھر نئی حکومت تشکیل پائے۔ اس عمل کا نتیجہ چند مستثنیات کے ساتھ یوں نکلے گا کہ آج کی حزب اقتدار،حزب اختلاف کے بنچوں پر براجمان ہوجائے۔ کیا ایسا کرنے کے بعد ملک میں مفقود سیاسی عدم استحکام لوٹ آئے گا؟ جواب ہے نہیں۔ پارلیمانی جمہوریت کی ثقافت میں اکثریت کی حکمرانی کا چلن چلتا ہے جو موجود ہے تو پھر جن وجوہات کی بنیاد پر قومی حکومت کی تجویز بحث کا حصہ بنی ہے اس کے مقاصد و مطلب فوائد و محرکات کی وضاحت کیسے کی جائے؟

میری رائے، جس کے غلط ہونے کا امکان ہے، میں سیاسی استحکام کے لیے پیشرفت کا آغاز حکومتی بنچوں کی جانب سے ہونا چاہیے وہ درپیش حالات کی نزاکت کا ادراک کریں اور حکومت کو تحلیل کرکے پارلیمنٹ کی سب جماعتوں کو وسیع البنیاد ایسی حکومت کی تشکیل کا موقع دیں جو کرونا اور معاشی بحران میں قائدانہ رول ادا کر سکے۔ عوام و ملک کو مصائب کی دلدل سے نکالنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ سیاسی مخالفین کو دیوار سے لگانے کی بجائے اتفاق رائے پیدا کرے تاکہ قلیل المدت مسائل اور طویل المدت سیاسی استحکام جمہوری بالادستی کو یقینی بنائے۔

چنانچہ اگر حکومت از خود مستعفی ہو کر بحران سے نکلنے کی راہ اپنائے تو یہ یقین کرنا ممکن ہوگا کہ نئی حکومت میں پی ٹی آئی بھی موجود ہو۔ اسے قومی حکومت کہتا ہوں جو قوم کی حکمرانی کی خشت اول ثابت ہوسکتی ہے۔ بلا شبہ اس وقت پارلیمانی جمہوری منتخب حکومت موجود ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ کو یہ اعزاز حاصل ہے۔ جناب سہیل وڑائچ کے کالم نے جس میں جناب شہباز شریف نے قبل از انتخابات معاملہ بندی کا ذکر کر کے رواں جمہوری تماشے کا رہا سہا پردہ چاک کر دیا۔ چنانچہ پیچیدہ صورتحال متقاضی ہے کہ بتدریج بہتر سیاسی نظم و بست کا اہتمام ہو۔

متذکرہ بالا تجویز آئین کے دائرے میں بھی درست ہے اور اسے بحرانی کیفیت کے خاتمے تک برقرار رکھنا ممکن ہو گا، علاوہ سیاسی استحکام کی بنیاد رکھنے اور تسلسل کو یقینی بنانے کے، اسی عرصہ میں اتفاق رائے کے ذریعے سیاسی و انتخابی اصلاحات نافذ کی جا سکتی ہیں۔ آئینی ترامیم کے ذریعے زیادہ موثر طور پر جمہوریت میں غیر جمہوری، غیر آئینی مداخلت کے سرایت شدہ عوامل و عناصر کا رستہ رک سکتا ہے۔ متذکرہ حکومت اپنا طے شدہ ہدف مختصر مدت میں حاصل کر کے نئے عام انتخابات کا بندوبست کرے اور شفاف طور پر عوام کی مرضی و منشا کی مالک پراعتماد پارلیمنٹ کا قیام ممکن بنا دے تو یہی قومی حکومت قوم کی حکمرانی کے دیرینہ خوابوں کو عملی تعبیر دے کر قیام پاکستان کے اغراض و مقاصد کے حصول کا سفر شروع کرنے کا نکتہ آغاز بن جائے گی۔ ماہرین کی حکومت کی تجویز اتنی فرسودہ اور آئین کے منافی ہے کہ اس پر بحث کرنا بھی فضول ہے۔ قوم کی حکومت آئینی بندوست میں رہتے ہوئے عوامی امنگوں اور عوام کے اقتدار اعلیٰ کو تسلیم کرنے سے ہی ممکن موجود ہوگی تو کیوں نا اس سمت جرات مندی سے پیش قدمی کی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments