میں خانہ بدوش ہوں، میری زندگی لاک ڈاؤن ہے!


گزشتہ کئی دہائیوں سے بیروزگاری اور غربت میں بیحد اضافہ ہوا ہے، گدلا پانی پینا، بھوک کی وجہ سے مرنا، 82 فیصد عوام کا غیر سائنسی علاج پر اکتفا کرنا، خودکشیاں، بچوں کے غذائی کمی کی وجہ سے اموات، ملک میں معمول بن چکے ہیں۔ یہاں کورونا سے بھی مہلک عذابوں کا عوام کو سامنا ہے، استحصالی طبقات کی کرپشن، بلیک مارکیٹنگ بامِ عروج پہ پہنچ چکی ہے۔ بیروزگاری اور بھوک میں کئی گنا اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

ایسی حالت اور سماجی تباہ حالی کا اندازہ ہم سے زیادہ حکمرانوں کو ہی تھا مگر حیران کن بات یہ ہے کہ یہ حقیقت جانتے ہوئے بھی کہ وہ کسی بھی وبا یا آفت کا مقابلہ کرنے صلاحیت بالکل نہیں رکھتے تو اس کورونا وبا کی پاکستان میں پہنچنے سے کچھ وقت پہلے ہی ممکنہ احتیاطی تدابیر اختیار کیوں نہیں کی گئیں؟ حکمرانوں کو پتا تھا کہ ایران میں ہمارے ہزاروں شہری موجود ہیں تو اس وقت ایران و افغانستان سمیت سب بارڈر سیل کر کے سرحدوں پر ہنگامی بنیادوں پر قرنطینہ سینٹرز بنانے چاہییں تھے، ہوائی اڈوں پر بھی باہر سے آنے والے مسافروں کو قرنطینہ بھیجنا چاہیے تھا اور ٹیسٹ کے بعد ہی ان کو اجازت دینا تھی۔ ایسے اقدام اس وقت بھی ہر ملک میں معمول بن چکے تھے اگر ایسا کرتے تو شاید اس وبا پر حالات کنٹرول میں رہتے اور زندگی کا پہیہ بھی آج کی طرح رک نہیں جاتا۔

اس ملک میں حکمرانوں نے جو سات دہائیوں سے غریب عوام کا بدترین استحصال کیا اور بے رحمی سے لوٹ مار جاری رکھی اور عوام کو بنیادی سہولیتیں، بنیادی انسانی حقوق اور جائز سہولیتوں سے محروم رکھ کر جو استحصال کیا اور جہالت کو جان بوجھ کر فروغ دیا اس کے نتیجے میں سماج کا ہر حصہ بری طرح متاثر ہو چکا ہے۔ کرپٹ حکمران اپنے جوہر میں خود کسی مہلک وبا سے کم نہیں ہیں۔ اس سنگین صورتحال میں یہ نا اہل اور کرپٹ حکمران اس وبا کا کیا مقابلہ کریں گے اور عوام کو کیسے بچا سکتے ہیں؟

ملک میں دیگر اداروں کی طرح صحت کا شعبہ بھی تباہ حال ہے حتیٰ کہ یہاں کے میڈیکل اسٹاف کے پاس کووڈ 19 وبائی صورتحال کا سامنا کرنے کی نا کوئی خاص تربیت ہے اور نا ہی ایسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے مناسب تعداد میں تحفظاتی لباس و آلات وغیرہ دستیاب ہیں۔ کورونا وائرس کتنا خطرناک ہے اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ صحت کے نظام کی کیا حالت ہے؟

ملک میں جہاں بڑی تعداد میں لوگ خانہ بدوش یا نیم خانہ بدوش ہیں جن کی اکثریت سڑکوں کے کنارے کھلے آسمان پر سوتی ہے وہاں کیسا لاک ڈاؤن ہو سکتا ہے؟ ملک میں چھ کروڑ سے زیادہ لوگ دہاڑی مزدور ہیں یعنی روز مزدوری کر کے کھاتے ہیں۔ ایسی حالت میں لاک ڈاؤن کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ اور ہوا بھی یہی ہے کہ حقیقت میں دیکھا جائے تو ہمارے یہاں دیہات اور کچی آبادیوں میں محنت کش طبقات میں ایک دن بھی لاک ڈاؤن نہیں رہا ہے۔ آخر یہ غریب لوگ جو تعداد میں اکثریتی طبقہ ہیں وہ کہاں جائیں؟

اگر حکومت صرف لاک ڈاؤن کا حکم صادر کرتی ہے اور عوام کو خوراک، پانی اور صحت کی سہولیات میسر نہیں کر سکتی تو پھر لاک ڈاؤن سے کیا نتائج نکلیں گے؟ الڻا یہ لاک ڈاؤن مصیبت زدہ طبقے پر مزید تکالیف کا سبب بنے گا۔ بھوکے کو روٹی چاہیے اور کووڈ 19 میں مبتلا مریض کو وینٹیلیٹر چاہیے۔ بم سے کوئی پیٹ نہیں بھر سکتا، اور بارود سے بیماری کا علاج نہیں ہوتا۔ لوگون کے پاس معاشی قوت نہیں ہے، یہ سوشل ڈسٹینسنگ نہیں کر سکتے، کیوں کہ انہیں کو باہر نکل کر روزگار کرنا ہوتا ہے۔ خدشہ ہے کہ یہ مظلوم طبقہ زیادہ متاثر ہو گا۔

سوپ، ہینڈ واش، ماسک، ڈیٹول، سینیٹائیزر اور سوشل ڈسیننگ صرف الیٹ کلاس ہی رکھ سکتا ہے، جو بنگلہ اور فلیٹس میں مقیم ہے۔ لاک ڈاؤن میں بھی اس کلاس کی زندگی رنگین بنی ہوئی ہے : رومانس، موویز، آن لائن ایجوکیشن، اور اسٹاک میں بہت کھانا پڑا ہے۔

معاشی طور پر غریب طبقہ کے لیے بھوک ہی سب سے بڑی وبا ہے اور ان کی زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ بھی۔ حقیقت میں ملک کا محنت کش لوگ حکمرانوں کی ترجیحات میں ہی شامل نہیں ہیں۔ حکمران طبقات کو صرف اپنے طبقے کی زندگی کا فکر ہے۔ غریب عوام کے سامنے جوابدہی کا کوئی عملی مظاہرہ نہیں کیا جا رہا ہے۔

وبا کے دنون مین کورنٹائین بنی ہوئی زندگی میں سرمایہ دارون نے بہت کچھ اکڻھا کر دیا ہے، لیکن دہاڑی دار مزدور کی زندگی کٹھن بن گئی ہے۔ جس کے لیے سرکار کی طرف سے کوئی مزدور دوست پالیسی نہیں ہے۔ سرمایہ دار طبقہ نے مزدوروں کا استحصال کرتے ہوئے بہت کچھ اکٹھا کر دیا ہے۔ مزدور اپنے گھر کا پہیہ کیسے چلائیں، اس کا جواب حکمران کلاس کے پاس نہیں ہے۔ احساس کفالت پروگرام سے ملنے والی بارہ ہزار سے گھر کا چولہا کیسے، اور کتنی دن جل سکتا ہے؟ اور جہاں یہ رقم دی جا رہی ہے وہاں نہ پینے کے پانی کا بندوبست ہے، اور نا ہی دھوپ سے بچنے کے لیے شامیانے لگاے گئے ہیں۔ فزیکل ڈسٹینسنگ بھی نہیں ہے کہ غریب لوگ کورونا وبا سے بچ سکیں۔

اس وبا کے ساتھ یہاں کئی ایک وبائیں بھی ہیں جو مل کر مسائل کو اوز تیزی سے بڑھانے کا سبب بن چکی ہیں۔ یہاں کئی دہائیوں سے جو بیج بویا گیا اس کا نتیجہ یہ ہے کہ حکومت کی رٹ کے بجائے کسی بھی رجعت پسند کا فرمان زیادہ اثر انداز ہوتا ہے

وبا کے دنوں میں کیا ہونا چاہیے؟ اس وبا کے دوران حکومتوں کو انقلابی اقدام اٹھانے ہوں گے مختلف اداروں کے غیرضروری فنڈ ختم کر کے ریلیف فنڈ قائم کیا جائے۔

این جی اوز اور بینکوں نے جو غریب لوگوں اور چھوڻے سرکاری ملازموں کو قرضے دیے ہیں وہ معاف کیے جائیں۔ اگر حکومتیں ارب پتی سرمایہ داروں کو اربوں روپیوں کی سبسڈی دیتی ہیں اور ان کے اربوں کھربوں کے قرضے معاف کیے جاتے ہیں تو غریب محنت کشوں کے چھوٹے قرضے کیوں نہیں؟

صحت کے شعبے کو بہتر کیا جائے اور نجی شعبے میں جو ہسپتالیں وغیرہ ہیں ان کو سرکاری تحویل میں لیا جائے۔

پورے ملک میں سرمایہ داروں کے فلیٹس کامپلیکس اور ہاؤسنگ سوسائیٹیز اور اسکیموں کو سرکاری تحویل میں لیا جائے۔ جہاں قرنطینہ مراکز بنائے جائیں اور بے گھر لوگوں کو آباد کیا جائے۔

پاکستان میں 55 فیصد لوگوں کے پاس اپنے گھر نہیں ہیں ان کے لیے شہروں سے متصل زمینوں کو سرکاری تحویل میں لے کر خیمہ بستیاں آباد کی جائیں اور لوگوں کو پلاٹس کے مالکانہ حقوق دیے جائیں اور ساتھ ہی صاف پانی کی فراہمی، نکاسی، بجلی، تعلیم اور صحت کے بنیادی مراکز بھی ہنگامی بنیادوں پر بنائے جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments