ہمارا تاریخی المیہ


جون ایلیا کہا کرتے تھے کہ انسان نے اپنے اجتماعی تاریخی شعور سے استفادہ نہیں کیا۔ یہی نہیں اگر معلوم انسانی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ انسان نے نہ تو گزشتہ عہد کو چھوڑا ہے نہ ہی ماضی کے روندے ہوئے رویوں سے جان چھڑوائی ہے۔ مخصوص موقعوں پر تاریخ کے ٹھکرائے ہوئے کردار نمودار ہو تے ہیں۔ جن سے عبرت رستی ہے۔ لیکن ہر آنے والے دور کے لیے۔

دنیا کے بہترین مادی وسائل تک رسائی حاصل کرنا ہر قوم کا خواب رہا ہے۔ اس ضمن میں اپنے دور کی طاقتور اقوام زیادہ فعال اور متحرک رہی ہیں۔ اس مقصد کے حصول کا ایک سیدھا سادہ طریقہ کار قرب و جوار کی ریاستوں اور علاقوں کو فتح کر کے وہاں کے وسائل کو اپنے زیرِِتصرف کرنا ہوتا تھا۔ چنانچہ شعوری ارتقا کے ابتدائی دور میں مطلوبہ علاقوں پر حملہ کرنے کے لئے کسی مضبوط جواز کا ہونا ضروری نہیں ہوتا تھا۔ قبائلی یا خاندانی دشمنی یا غربت و افلاس کو ہی بنیاد بنا کر ایسا کر لیا جاتا تھا۔

جیسے جیسے انسان نے وحشت سے تہذیب کی جانب قدم بڑھایا ویسے ویسے اس نے اپنے اقدامات کو جواز فراہم کرنا سیکھ لیا۔ شعوری ارتقا کے لڑکپن میں انسان نے اصلاحات کے فروغ، نظریات کے پھیلاؤ اور نفاذ کو بنیاد بنا کر دوسری ریاستوں کو فتح کرنا شروع کیا۔ تاریخ پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ماضی قریب کی اکثر بڑی جنگیں مضبوط نظریاتی جواز پر لڑی گئی ہیں۔ اکثر بڑی ریاستوں کو فتح کرنے کے لئے مذہبی نظریات کے فروغ اور نفاذ کو بنیاد بنایا جاتا رہا ہے۔

امریکہ کی دریافت کے بعد سے مسیحی بڑی تیزی سے دنیا کے علاقوں کو فتح کرتے رہے۔ اس عمل میں لوگوں کی جذباتی شرکت کے لئے مذہب کا سہارا لیا جاتا تھا۔ جنگجوؤں کے ساتھ بڑے بڑے بحری جہازوں میں عیسائی پادری بھیجے جاتے تھے جو نئے علاقوں کی دریافت اور جنگوں و جدل کو جہاد قرار دیتے تھے۔ مفتوح علاقوں میں مشنری ادارے قائم کیے جاتے تھے جو مذہب کے فروغ کو یقینی بناتے تھے۔ برِ صغیر میں عربوں، افغانیوں اور خود انگریزوں کی آمد بھی اسی طرز پر وجود پا سکی تھی۔

بد قسمتی سے یہ خطہ ان قدرتی وسائل سے مالا مال تھا جن سے فاتحین کے علاقے یا تو محروم تھے یا ان کی قلت کا شکار تھے۔ ان تاریخی واقعات نے شاید ہمارے لیے کوئی سبق نہیں چھوڑا اور ہم انسانی شعور کی مقبول ترین سطح پر بھی وسائل تک رسائی کے لئے حملہ آوری کو اپناتے رہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے سامنے آج بھی تاریخِ آدمیت کے بدترین حملوں کو مذہبی یا نسلی جواز مہیا کر کے معتبر بنا دیا جاتا ہے۔ شام، عراق، یمن، بحرین اور نائجیریا جیسے علاقوں میں مادی وسائل تک حصول کی جدید جنگ لڑی جا رہی ہے۔ طاقت کے توازن کو بگڑنے سے بچانے کے لئے امریکہ، اسرائیل، روس، سعودی عرب، ایران، قطر اور ترکی جیسے ممالک سر گرمِ عمل ہیں۔ بات روایتی حربوں سے بڑھ کر جدید حربوں تک آچکی۔ ڈاکٹر وحید احمد کی چند سطریں ملاحظہ فرمائیں

”زمانہ تیز رفتاری سے بڑھ کر برق رفتاری کی زد میں ہے
پرانے دور کے اسپارٹا، ایتھینز ہجرت کر کے واشنگٹن ہوئے ہیں ٹوکیو کہلائے جاتے ہیں
شعوری لا شعوری اور سب تحت الشعوری خام سوچیں اب نئی بھٹی میں گلتی اور سڑتی ہیں
چنانچہ سوچ کا دھارا بدلتا جا رہا ہے ”
تکثیریت کے مسائل تلے دبی ہوئی انسانیت مادی وسائل کے حصول کی جنگ میں گمنام موت مرتی ہے۔ ہتھیاروں کی ہیئت اور نوعیت بدل کر حملہ آوری نے جینیاتی شکلیں اختیار کر لیں۔ منڈی کی معیشت میں سرعام نیلام ہونے والا انسان لاعلم ہے۔ زمینی خداؤں کے ہاتھوں میں گھومنے والی سیاست کئی انسانی نسلوں کے فیصلے کرتی یے۔

اس سب میں ہماری پسماندگی دیکھیے۔ ہمیں دنیا کی ہر جنگ میں تقدیس کا حوالہ دے کر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ وطنِ عزیز میں ہر جنگ کے فریقین کے حمایتی پیدا ہو تے رہے ہیں۔ جو تمام جنگوں کی یک طرفہ تصویر پیش کر کے نہ صرف بڑے پیمانے پر فنڈ ریزی کرتے رہے ہیں بلکہ جنگجوؤں کی ترسیل بھی ممکن بناتے رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ایک خاص طرح کا سیاسی، مسلکی اور نسلی اشتعال اور تعصب ہمارے سماج میں پروان چڑھتا رہا ہے۔

اس شدت پسند فکر کو ہم آج قوم کے اجتماعی سلوک اور مزاج میں دیکھ سکتے ہیں۔ اگر جینیاتی جنگیں ہمارے بس کی بات ہوتیں تو ان کی جدلیاتی تحریکیں بھی آپ آج کل رواں دواں دیکھ رہے ہوتے۔ جبکہ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ وسائل کے تخت پر بیٹھنے والا بڑا اژدھا فریق اور رفیق دونوں کو نگل جاتا ہے۔ نتیجہ؟ مزید ہلاکت خیزی اور تباہی۔

سید بابر علی زیدی
Latest posts by سید بابر علی زیدی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments