ساٹھ سالہ بزرگ شہری حاملہ ہو گیا



گزشتہ روز خانیوال میں مقامی لیبارٹری نے اپنی میڈیکل رپورٹ میں ساٹھ سالہ بزرگ شہری کو حاملہ قرار دے دیا۔ ۔ رپورٹ کے منظر عام پر آتے ہی احکام بالا نے ضروری کارروائی کرتے ہو ئے متعلقہ لیبارٹری کو سیل کردیا۔ جب کہ متعلقہ شخص ابھی تک حاملہ ہے میر ا مطلب ہے کہ رپورٹ کے مطابق حاملہ ہے (تا دم تحریر مذکورہ شخص کو درست رپورٹ جاری نہیں کی گئی)۔ اس طرح کی روپورٹس آئے روز اخبارت کی زینت بنتی رہتی ہیں، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ہاں ایسی بے شمار لیبارٹریز موجود ہیں جن میں کام کرنے والے افراد مستند اداروں سے فارغ التحصیل تو کیا ان کے سامنے سے بھی نہیں گزرے۔ جب بھی کوئی مضحکہ خیز لیبارٹری رپورٹ منظر عام پر آتی ہے۔ تو احباب اختیار برقی رفتاری سے مذکورہ لیبارٹری کو سیل کر دیتے۔ جبکہ عین اسی وقت قرب و جوار میں اور بہت سی نام نہاد لیبارٹریاں ”خدمتِ انسانیت“ کے جذبے سے مصروف عمل ہوتی ہیں۔ ہمارا معاشرہ آدھا تیتر، آدھا بیٹر کی عملی شکل ہے۔ سرکار کسی شخص کو درجہ چہارم کی ملازمت اس وقت تک نہیں دیتی جب تک مذکورہ شخص کی تعلیمی اسناد کی تصدیق متعلقہ تعلیمی بورڈ سے نہ ہو جائے۔

جبکہ دوسری طرف ہمارے ارباب اختیارکی غفلت کا یہ عالم ہے کہ گلی محلوں میں جعلی لیب ٹیکنیشنز اور عطائی ڈاکٹر مسلسل ہماری صحت اور مال سے کھیل رہے ہیں۔ اور وہ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ بات عطائی ڈاکٹر کی ہو رہی ہے تو اسی مناسبت سے ایک لطیفہ یا د آگیا پیش خدمت ہے۔ کسی عطائی ڈاکٹر کے پا س ایک ستر سالہ بوڑھا شخص گیا اور شکایت کی کہ اس کی دائیں ٹانگ میں مسلسل درد رہتا ہے، عطائی ڈاکٹر کو جب درد کی کوئی معقول وجہ سمجھ نہ آئی تو با با جی کو مطمئن کرنے کے لیے بولا ”با با جی ستر سال میں آپ کی ٹانگ کی ہڈیاں اور پٹھے کمزور ہوگئے ہیں اس لیے مسلسل درد ہے با با جی بولے ڈاکٹر میری دوسری ٹانگ بھی تو ستر سال کی ہے اس میں تو درد نہیں ہے“ جی بات ہور ہی تھی کہ ان جعلی ٹیکنیشنز اور عطائی ڈاکٹر ز کی جو گلی محلوں میں بیٹھے لوگوں کی صحت سے کھیل رہے ہیں۔

میری حکومت ِوقت سے گزارش ہے کہ شعبہ صحت پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے ”ادویات کے معیاری پن“ ”، عطائی ڈاکٹر“، اور ”غیر قانونی لیبارٹریز“ کے حوالے سے طبی ماہرین سے مشاورت کے بعد طبی پالیسی کا اعلان کرے۔ لیکن اس بات کو یقینی بنائے کہ پالیسی زمینی حقائق سے پوری طر ح مطابقت رکھتی ہو۔ بارہا سابقہ حکومتوں نے عوامی مقبولیت کا گراف نیچے آنے کے ڈر سے ایسی پالیساں ترتیب دی جو زمینی حقائق سے قطعاً مطابقت نہیں رکھتی تھیں۔

اس طرح قومی وسائل کا ستیا ناس ہونے کے ساتھ ساتھ عوامی تو قعات کا بھی خون ہوتا رہا ہے۔ ہمارے سامنے مغربی ممالک کی مثال موجود ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ مغرب نے اخلاقی محاذ پر ہزیمت اٹھائی ہے۔ لیکن اُن معاشروں میں شعبہ صحت جس بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ ہم اُن سے کوسوں دور ہیں۔ معاشرے سے ملاوٹ، جھوٹ، اور جعل سازی جیسی برائیوں کو ختم کرنا اس لیے بھی آسان ہے کہ ہمارا دین اِن برائیوں کے مرتکب افراد کو قابل گرفت سمجھتا ہے۔ اگر حکومت ”پارکوں“، ”اوو ر ہیڈ برجز“ اور ”ڈبل ٹریک ریلوے لائن“ کی تعمیر کے لیے قانون سازی کے پل صراط سے گزر سکتی ہے۔ مالی وسائل کی خلیج پاٹ سکتی ہے ماہرین کی خدمات کے عوض بھاری معاوضے ادا کر سکتی ہے تو مذکورہ بالا سماجی برائیوں کے لیے سنجیدہ اور کامیابی کوشش کیوں نہیں کی جا سکتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments