پشین کو کرونا کی سزا بدست کیسکو


روایت ہے کہ گزرے وقتوں میں ایک فارسی سپیکنگ صوفی صاحب ہوتے تھے۔ ان کا کمال یہ تھا کہ ایک وظیفہ پڑھ کر کسی بھی مردے کو قبر سے نکال کر اس سے مذاکرات کر سکتے تھے، اور مذاکرات کے خاتمے پر دوسرا وظیفہ پڑھ کر اسے واپس قبر میں بھیج دیتے تھے۔ ان صوفی صاحب کا ایک خلیفہ ان سے بہت اصرار کرتا تھا کہ پیر صاحب، یہ وظیفے مجھے بھی سکھا دیں۔ میں گڑے مردے اکھاڑ کر ان سے خزانوں کا پتہ پوچھا کروں گا۔ پیر صاحب ناراض ہو گئے کہ اتنا کراماتی علم اور سیکھنے کا مقصد صرف خزانوں کی تلاش ہے؟ اس پر خلیفہ صاحب نے وضاحت کی کہ وہ علمی خزانوں کی تلاش میں ہیں، دنیاوی خزانے تو وہ خود ہی گڑے مردوں کے کفن بیچ بیچ کر حاصل کر رہے ہیں۔

بہرحال، پیر صاحب مرض الموت میں مبتلا ہوئے۔ آخری وقت سامنے دیکھ کر انہوں نے اپنے خلیفہ کو مردے جگانے کا وظیفہ سکھا دیا جو کہ خلیفہ صاحب نے خوب رٹ لیا۔ اس کے بعد پیر صاحب نے انہیں مردے واپس قبر میں بھیجنے کا وظیفہ یاد کرایا۔

خیر پیر صاحب فوت ہو گئے۔ خلیفہ صاحب ایک مشہور ڈاکو کی قبر پر پہنچے تاکہ اس کے دبائے گئے خزانوں کا حال دریافت کر سکیں۔ انہوں نے وظیفہ پڑھ کر ڈاکو کو زندہ کیا اور اس سے خزانوں کا پوچھا۔ اب مسئلہ یہ ہوا کہ دوسری دنیا میں جا کر ڈاکو کو اس دنیا کی ساری باتیں بھول گئی تھیں۔ خلیفہ صاحب نے مایوس ہو کر اسے واپس قبر میں بھیجنے کی کوشش کی لیکن ان کو قبر میں واپس بھیجنے والا وظیفہ یاد ہی نہیں آیا۔ تنگ آ کر انہوں نے ڈاکو کو وہیں چھوڑ کر گھر جانے کا سوچا، لیکن وہ ان کے پیچھے پیچھے لگا رہا۔ اب تو خلیفہ صاحب بہت گھبرائے۔ مصیبت سے نکلنے کا کوئی طریقہ سمجھ نہ آیا تو اپنے پیر صاحب کے مزار پر پہنچے اور وظیفہ پڑھ کر ان کا مردہ باہر نکالا تاکہ مردے واپس قبر میں بھیجنے کا وظیفہ دوبارہ سے یاد کر سکیں۔

لیکن مسئلہ یہ ہوا کہ پیر صاحب کو بھی اس دنیا کی ساری چیزیں، بشمول اس وظیفے کے بھول چکی تھیں۔ خلیفہ صاحب جان بچا کر بھاگے تو اب ان کے پیچھے ایک کی بجائے دو مردے لگے ہوئے تھے۔ اس موقعے پر خلیفہ صاحب نے وہ امر الفاظ کہے جو کہ ایک کہاوت کا روپ دھار گئے یعنی یک نہ شد، دو شد۔

صاحبو یہ حکایت اس سبب یاد آئی کہ پشین سے ید بیضا کاکڑ نے اس سے ملتا جلتا ماجرا بیان کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ پہلے تو ایک کرونا کا مردہ ہی پیچھے لگا ہوا تھا اب کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی کا بھی لگ گیا ہے۔

اللہ جانے ید بیضا کاکڑ رمضان کے چکر میں اسلام آباد سے اپنے آبائی شہر پشین گئے ہیں یا کرونا کے چکر میں۔ ممکن ہے کہ یہ سوچ کر گئے ہوں گے کہ آبائی علاقے کے پرفضا ماحول میں روزے نہیں لگیں گے۔ مگر ادھر جا کر انہیں علم ہوا کہ کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی تو کرونا سے بھی ظالم ہے۔

پندرہ اپریل کو کہنے لگے ”گاؤں میں بجلی تو صرف دس گھنٹے ہوتی ہے مگر اپریل میں ہیٹر کی ضرورت پڑ رہی ہے۔“

غالباً کیسکو کے افسران قضا و قدر میں سے کسی نے ان کی شکایت پر غور کر لیا۔ اس نے اپنے افسر بکار خاص کو بلایا ہو گا اور جواب طلب کیا ہو گا کہ صاحب یہ ید بیضا کاکڑ کے گاؤں میں بجلی دس گھنٹے کیوں آ رہی ہے؟

صاحب نے فوراً ایکشن لیا، نتیجہ یہ کہ پانچ دن بعد ید بیضا کاکڑ نے دس گھنٹے بجلی نا آنے کا شکوہ نہیں کیا۔ بیس گھنٹے کا کیا۔ فرمانے لگے

”ضلع پشین میں سال بھر بجلی صبح 10 بجے سے شام 4 اور رات 8 بجے سے 12 بجے تک ہوتی ہے۔ یوں سال بھر 14 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے۔ اب دو دن سے صور تحال ایسی ہے کہ بجلی دوپہر 2 بجے سے چار 4 تک اور رات کو 10 سے 12 تک ہوتی ہے۔ گویا لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ 20 گھنٹے کر دیا گیا۔ کیسکو حکام سے رابطے کرنے پر معلوم ہوا کہ لوڈ شیڈنگ کی وجہ ریکوری کو بہتر بنانا ہے۔ اس وقت جب کورونا کی وجہ سے پورا ملک بند ہے۔ انڈسٹری بند ہے اور بجلی کا کمرشل استعمال نہ ہونے کے برابر ہے۔ کاروبار زندگی معطل ہے۔ لوگوں کے آمدنی کے تمام ذرائع بند ہیں۔ لوگ نان شبینہ کے لئے پریشان ہیں۔ ایسے میں حکومت سے توقع تھی کہ وہ تین ماہ کے لئے گھریلو صارفین کے واجبات معطل یا معاف کرے گی مگر کیسکو ایسے حالات میں ریکوری کے نام پر لوگوں کی زندگی مزید اجیرن کرنے پر تلا ہوا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ ارباب اختیار اور منتخب نمائندے منظر سے ہی غائب ہیں اور سرکاری اداروں میں بیٹھے بابو خود کو ان داتا سمجھتے ہیں۔ سو مملکت خداداد میں شکوہ کس سے کیا جائے؟ شکایت کس کو کی جائے؟ دوستوں سے گزارش ہے کہ اگر کسی نیوز چینل پر کوئی ٹکر چلوا سکیں تو شاید کسی کی اس جانب بھی نگاہ جائے۔“

پشین کا ایک منظر

غالباً یہ شکوہ بھی کیسکو کے افسران قضا و قدر کی نگاہ سے گزر گیا۔ اب تک ید بیضا کاکڑ کو بھی کان ہو گئے تھے کہ کیسکو والے ان کی فیس بک مانیٹر کر رہے ہیں۔ اس لیے انہوں نے وٹس ایپ پر سیکیور کال کر کے بتایا کہ اب پشین میں بیس گھنٹے لوڈ شیڈنگ نہیں ہوتی، تئیس گھنٹے ہوتی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اب مزید دو دن گزرنے کے بعد پشین میں چوبیس میں سے تئیس گھنٹے لوڈ شیڈنگ نہیں ہوتی ہو گی، پچیس تیس گھنٹے ہوتی ہو گی۔

یعنی وہی قصہ، یک نا شد دو شد۔ پشین والے کرونا کا مردہ پیچھے پڑنے سے عاجز تھے کہ کیسکو کا بھی پڑ گیا۔ بندہ اب حیران ہی ہوتا رہے گا کہ ادھر کے طلبا اپنی آن لائن کلاسز کیا ٹیلی پیتھی سے لیں گے؟ ادھر کے کاریگر جو ”ورک فرام ہوم“ کر رہے ہیں، وہ روحانی طاقت سے کریں گے؟ کاروبار نہیں ہو گا تو کیسکو کے واجبات کیسے ادا ہوں گے؟

تئیس گھنٹے کا حساب دیکھیں تو اس کا مطلب ہے کہ پشین میں چھیانوے فیصد بجلی چوری ہو رہی ہے۔ ایسی صورت میں کیا یہ کیسکو کی نا اہلی نہیں ہے؟ فرض کیا کہ سو فیصد بجلی بھی چوری ہو رہی ہو، تو کیا پشین کو سزا دینے کے لیے یہی کرونا کی ایمرجنسی کے ایام ملے تھے؟ حکومت کہتی ہے گھر میں بیٹھو، کیسکو یقینی بناتی ہے کہ کوئی گھر میں نا بیٹھے۔

ایک طرف سندھ میں مراد علی شاہ اعلان کرتے پھر رہے ہیں کہ کراچی والوں سے دو تین مہینے بجلی کے بل نہیں لیں گے یا قسطیں ہوں گی، اور دوسری طرف پشین میں لوگوں کا ست نکالا جا رہا ہے۔ ہم نے تو جو کہنا تھا کہہ دیا، باقی اب پشین کے متقی و پرہیزگار لوگ تئیس چوبیس گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کے ساتھ رمضان کے روزوں میں کیسکو کے متعلق خدا کو ہی کہیں گے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments