مولانا طارق جمیل صاحب آپ عالم دین ہیں؟


ایک عالم دین کو اعلیٰ اخلاق کا مالک ہونا چاہیے مگر ایک عام دین کے لئے حق گو اور معتدل مزاج ہونا بھی اشد ضروری ہے۔ موجودہ فتنوں کے دور میں تو عالم دین کی ذمہ داریاں اور بھی بڑھ چکی ہیں۔ سود (جو خدا اور خدا کے رسولﷺ کے ساتھ اعلان جنگ ہے ) کے بغیر اسلامی ہو یا غیر اسلامی کسی ملک کی معیشت کا پہیہ چلنا ناممکن ہو چکا ہے۔ فحاشی، عریانی اور بے حیائی عام ہو چکی ہے۔ پہلے عورت حجاب، برقعہ اور اوڑھنی سے تنگ تھی اب نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ عورت، مرد کے حصار اور رشتوں کے بندھن سے بھی آزاد ہو کر کھلے عام اپنے جسم کو، اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرنا چاہتی ہے، یہی نہیں شرعی احکامات کی حیثیت اب عام لوگوں کی نظر میں بھی گھٹتی چلی جا رہی ہے۔

ہمارے نصاب سے فکر اقبال، مشن قائداعظم اور اسلامی ہیروز کے کارناموں کو الگ کر دیا گیا ہے یا الگ کیا جا رہا ہے۔ ایسے حالات میں عالم دین پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں؟ مولانا طارق جمیل صاحب اور دیگر تمام مکاتب فکر کے علما کو یاد دلانا ضروری نہیں ہے، یہ اور بات ہے کہ تمام کفریہ روایات کے ساتھ اپنے اپنے مقاصد کے لئے تمام ہی علما اپنے فرض پر سمجھوتا کیے بیٹھے ہیں۔

ان تمام علما دین میں سے طارق جمیل صاحب ایک منفرد انداز کے ساتھ ابھرے تھے اور عوام میں بلا تفریق مسلک طارق جمیل صاحب کو پذیرائی ملی لیکن نجانے اس عزت اور شہرت کی بلندیوں میں ایسا کون سا جادو ہے کہ طارق جمیل صاحب اب کی بار حکمران جماعت کی آنکھوں کا تارہ اس کے باوجود بھی ہیں کہ حکمران جماعت کے سرکردہ لوگوں کو علما دین سے انتہا کی نفرت اور خدا واسطے کا بیر ہے۔ میں نہیں کہتا مگر شاید، شاید حکمران جماعت پاپولسںٹ سیاستدانوں سے بھری پڑی ہے اور مولانا طارق جمیل صاحب اپنے فن خطابت کے ذریعے اس پوری جماعت کو ہی اپنا مداح بنانے کی تگ و دو میں ہیں۔

مولانا صاحب نے پہلے بائیس کروڑ سے زائد لوگوں (جن میں وہ خود بھی شامل ہیں ) کو بے ایمان اور اکیلے عمران خان کو ایماندار قرار دیا، پھر خان صاحب کی تمام تر ناکامیوں پر ”اجڑے چمن“ کا پردہ ڈالنا چاہا، باتیں دونوں نا معقول تھیں، شاید مولانا صاحب کو اس کا فوری احساس ہوا ہوگا تو مولانا صاحب نے فحاشی و عریانی کا رونا رو کر بات پھیری اور مولانا صاحب نے کہا: میرے وطن کی بیٹیوں کو کس نے سر عام نچایا؟ شاید مولانا طارق جمیل صاحب کے علاوہ سبھی جانتے ہیں کہ تاریخ میں جس طرح تحریک انصاف نے وطن کی بیٹیوں کو نیم برہنہ نچایا کسی اور سیاستدان نے نہیں نچایا۔ بات سوشل میڈیا صارفین کے ہاتھ لگی تو لوگوں نے شروع دن سے اب تک ساری انصافی خواتین کے ناچ والے ویڈیو کلپس اکٹھے کر کے طارق جمیل صاحب کے جملے ”کس نے نچایا میرے وطن کی بیٹیوں کو؟“ کے ساتھ اٹیچ کر دیے اور اب سننے میں آیا ہے کہ طارق جمیل صاحب قوم سے معافی مانگ رہے ہیں۔

معافی تو واقعی مانگنی چاہیے اور خدا وند قدوس سے معافی مانگنی چاہیے۔ طارق جمیل صاحب ہمارے لئے قابل صد احترام اس واسطے ہیں کہ عالم دین ہیں، ایک اچھے خطیب اور عاشق اہل بیت ہیں، البتہ مفتی نہیں ہیں لہذا کسی مفتی کی رائے ہمارے ہاں مولانا طارق جمیل صاحب کی رائے سے بھاری ہے لہذا طارق جمیل صاحب کو چاہیے کہ اپنی حدود کا تعین کر لیں اور پھر ان سے تجاوز ہر گز نہ کریں۔ ایک عالم دین کا کام حکمرانوں کی خوشامد نہیں ہوتا بلکہ عالم دین کا فرض ہوتا ہے کہ وہ حکمرانوں کی غلطیوں کی نشاندہی کرے، خلاف شریعت کسی بھی امر کی مخالفت کرے اور اس کی شرعی حیثیت سے لوگوں کو آگاہ کرے، اگر یہ نہ ہو تب بھی کم از کم ایسے شخص یا حکمران کی خوشامد نہ کرے جو ایک قطعی غیر شرعی نظام کے تحت کام کر رہا ہو۔

ہمارے ہاں سرمایہ دارانہ نظام، جمہوریت، لبرلزم اور سیکولرزم نے اپنا تسلط قائم کر رکھا ہے، اس تسلط سے ہم مسلمانوں کو آزاد کروانا ہمارے حکمرانوں کا فرض ہے مگر ہمارے حکمران اپنے فرض کو نبھانے کے بجائے خود سرمایہ داریت، جمہوریت، لبرلزم اور سیکولرزم کے آلہ کار بنے بیٹھے ہیں۔ موجودہ حکمران جماعت نے بھی ماضی قریب و بعید میں عوام کو بہت سارے سہانے خواب دکھائے تھے لیکن اقتدار ملنے کے بعد اس حکمران جماعت نے اپنے ہر وعدے اور ہر دعوے کے خلاف عمل کیا اور بستا چمن اجاڑ کے رکھ دیا جبکہ طارق جمیل صاحب شاید خوش کرنے کو کچھ اور کہتے ہیں۔

ہم طارق جمیل صاحب سے درخواست کرتے ہیں کہ جناب آپ عالم دین ہیں اور سرمایہ دارنہ نظام، جمہوریت، لبرلزم اور سیکولرزم کی ترقی کے لئے کوشاں، سود در سود پہ قرض لے کر ملک چلانے والے حکمران کو ایماندار اور بائیس کروڑ عوام (جس میں علما ، خطبا ، اولیا بھی شامل ہیں ) کو بے ایمان ڈیکلیئر کرنا کسی عالم دین کو قطعاً زیب نہیں دیتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments