کیا آپ کورونا وبا کے حوالے سے مولانا طارق جمیل کے موقف سے اتفاق کرتے ہیں؟



مجھے کل ایک دوست نے ایک ویڈیو بھیجی جس میں مولانا طارق جمیل گڑگڑا گڑگڑا کر دعا مانگ رہے تھے اور عمران خان ’بہت سے اور مہمانوں کے ہمراہ‘ نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ وہ دعا سن رہے تھے۔ مولانا طارق جمیل کا موقف ہے کہ کیونکہ انسان بدکار ہو گئے ہیں اور بے حیائی میں ملوث ہو گئے ہیں اس لیے ان پر کرونا وبا کا عتاب اور عذاب آیا ہے۔ ان کا مشورہ ہے کہ ہم سب کو خلوصِ دل سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہیے تا کہ خدا ہمیں معاف کر دے اور ہمیں دوبارہ صحت ’تندرستی‘ امن و سکون کی زندگی لوٹا دے۔ اگر مولانا کسی بڑے شہر یا چھوٹے سے گاؤں کی مسجد میں بیٹھ کر یہ دعا کر رہے ہوتے تو شاید میرے لیے اتنی اہم نہ ہوتی لیکن چونکہ ان کی دعا کو حکومت کی معاونت حاصل تھی اس لیے یہ ذاتی دعا سے بڑھ کر قومی دعا بن گئی اور میرے لیے اہم ہو گئی۔

میرے لیے دلچسپی کی بات یہ ہے کہ مولانا طارق جمیل کا موقف صرف ایک مسلمان مولانا کا ہی نہیں بلکہ امریکہ کے بہت سے عیسائی پادریوں اور یہودی ریبائیز کا بھی ہے وہ سب سمجھتے ہیں کہ انسان نے بدکاریاں اور خدا کی نافرمانیاں کی ہیں جن کی وجہ سے خدا ان سے ناراض ہو گیا ہے۔ اب ہم سب کو خدا کو خوش کرنا ہے تا کہ وہ مہربان ہو جائے۔ ہم نے جبار و قہار خدا سے منت سماجت کرنی ہے تا کہ وہ دوبارہ رحمان و رحیم خدا بن جائے۔ ان مولاناؤں ’پادریوں اور ریبائیز کی وڈیوز دیکھ کر میرے ذہن میں انسانی زندگی کے بارے میں چند بنیادی سوال ابھرے۔ میں نے سوچا

انسان اتنے دکھی کیوں ہیں؟

انسان اپنے دکھوں اور بیماریوں کو کیسے کم اور اپنی راحتوں اور سکھوں میں کیسے اضافہ کر سکتے ہیں؟

یہ وہ سوال ہیں جن پر پچھلے چند ہزار سالوں میں بہت سے ملکوں اور معاشروں کے بہت سے عوام و خواص نے غور و خوض کیا ہے جس کی وجہ سے ساری دنیا میں مختلف مکاتبِ فکر نے جنم لیا ہے۔ ہم ان مکاتبِ فکر کو گفتگو میں آسانی کی خاطر تین گروہوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔

پہلا گروہ روایتی مذہبی گروہ ہے۔ اس گروہ کے پیروکار مولانا طارق جمیل کی طرح یہ مانتے ہیں کہ خدا نے کائنات بنائی ’انسان تخلیق کیے اور پھر انسانوں کی ہدایت کے لیے رسول‘ پیغمبر اور آسمانی کتابیں بھیجیں۔ خدا یہ چاہتا ہے کہ انسان ان آسمانی کتابوں کی پیروی کریں۔ اگر وہ ان احکامات کی پیروی کریں گے تو وہ اس دنیا میں بھی خوش رہیں گے اور اگلی دنیا میں بھی جنت پائیں گے۔ اس لیے جب انسان انفرادی طور پر بیمار ہوتے ہیں یا اجتماعی طور پر دکھی ہوتے ہیں یا کسی وبا کا شکار ہوتے ہیں تو اس گروہ کے انسان یہ سمجھتے ہیں کہ ان پر عذاب آیا ہے۔ وہ آسمانی کتابوں سے مثالیں دیتے ہیں کہ پچھلی قوموں پر بھی عذاب آئے تھے کیونکہ وہ بے حیا اور بدکردار ہو گئی تھیں۔

دوسرا گروہ روحانی گروہ ہے۔ اس گروہ کے پیروکار روایتی مذہب سے قدرے دور اور روحانیت کے قدرے قریب ہوتے ہیں۔ اس گروہ کا موقف ہے کہ انسان اس لیے دکھی ہوتا ہے کہ وہ دنیا سے دل لگا لیتا ہے اور مادہ پرستی کی زندگی گزارنا چاہتا ہے۔ ایسے لوگوں کا ایمان ہے کہ مادہ دراصل مایا ہے۔ انسان کی دولت ’شہرت‘ مکان ’بیوی اور بچوں کی حرص اسے پریشان رکھتی ہے۔ اگر وہ دنیا سے دل لگانے کی بجائے خدا سے دل لگا لے تو وہ خوش رہے گا۔ اس لیے ایسے لوگ تزکیہِ نفس کرتے ہیں اور دنیاداری سے بے نیاز ہو کر توکل کی زندگی گزارتے ہیں۔

تیسرا گروہ سائنسی گروہ ہے۔ اس گروہ کے پیروکار یہ سمجھتے ہیں کہ انسان کے دکھوں ’سکھوں اور بیماریوں کا اخلاقیات اور روحانیات سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ دکھ سکھ اور بیماریاں معروضی حالات کی وجہ سے ہیں جنہیں ہم سائنسی اورمنطقی سوچ سے سمجھ بھی سکتے ہیں اور ان کا جلد یا بدیر حل بھی تلاش کر سکتے ہیں۔

اگر ہم انسان کی جسمانی اور ذہنی بیماریوں پر اپنی توجہ مرکوز کریں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ انسانی تاریخ میں اس سائنسی سوچ کی ابتدا یونان سے ہوئی۔ بقراط وہ پہلے طبیب تھے جنہوں نے طب کو مذہب سے علیحدہ کیا اسی لیے وہ جدید طب کے بانی کہلاتے ہیں

HIPPOCRATES IS CONSIDERED THE FATHER OF MEDICINE
بقراط نے انسانوں کو پانچ سو قبل مسیح میں بتایا کہ ان کی جسمانی اور ذہنی بیماریوں کا ان کے گناہوں ’ان کی دعاؤں اور قربانیوں سے کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے اپنے مریضوں کو حفظان صحت کے اصول بتائے اور کہا کہ صحتمند زندگی گزارنے کے لیے انہیں

متوازن خوراک کھانی چاہیے

زیادہ پانی پینا چاہیے

گہری نیند سونا چاہیے اور

روزانہ ورزش کرنی چاہیے۔ وہ سیر کرنے کو بہترین ورزش سمجھتے تھے۔

بقراط کے صحت کے بنیادی اصولوں کو دو ہزار سال بعد بھی احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

پچھلے دو ہزار سال میں سائنس ’طب اور نفسیات نے جو ترقی کی ہے اس کی وجہ سے ماہرینِ بہت سی جسمانی اور ذہنی بیماریوں کی تشخیص بھی کر سکتے ہیں اور علاج بھی۔

ایک ماہرِ نفسیات ہونے کے ناتے جب میں اپنے طلبا و طالبات کو پڑھاتا ہوں تو انہیں بتاتا ہوں کہ جدید طب اور نفسیات نے انسانی بیماریوں اور علاج کا جو ماڈل تیار کیا ہے اب ہم اسے

BIO۔ PSYCHO۔ SOCIAL MODEL کا نام دیتے ہیں۔ اگر ہم ڈیپریشن کی مثال لیں تو اس میں
حیاتیاتی عوامل BIOLOGICAL FACTORS جن میں موروثی اور کیمیائی عوامل شامل ہیں
نفسیاتی عوامل PSYCHOLOGICAL FACTORS جن میں انسان کی شخصیت اور سوچ شامل ہیں اور
سماجی عوامل SOCIAL FACTORSجن میں خاندانی اور معاشرتی عوامل شامل ہیں۔
ان عوامل کی وجہ سے جب کوئی ڈاکٹر یا ماہرِ نفسیات ڈیپریشن کی تشخیص کرتا ہے تو وہ اس مریض کا ادویہ کے ساتھ ساتھ انفرادی ’فیمیلی اور گروپ تھیریپی سے بھی علاج کرتا ہے۔

ڈیرپریشن کے علاج کے لیے عوام کو تعلیم دینا بھی ضروری ہے تا کہ وہ اس ذہنی بیماری کا کسی جسمانی بیماری کی طرح علاج کروائیں اور کسی ڈاکٹر یا ماہرِ نفسیات سے رجوع کریں۔

اگر عمران خان کا رویہ سائنسی اور منطقی ہوتا تو وہ مولانا طارق جمیل کو بلانے کی بجائے اپنے ملک کے ڈاکٹروں ’سائنسدانوں اور ماہرینِ نفیسیات سے رجوع کرتے تا کہ وہ انہیں بتاتے کہ کرونا وبا سے نبردآزما ہونے کے لیے انہیں عوام کو کیا طبی اورحفظان صحت کے اصولوں کی تعلیم دینی ہے۔ ماہرین جانتے ہیں کہ اس کرونا وبا سے نبردآزما ہونے میں ایک اہم بات IMMUNITY ہے۔ سماجی فاصلے اور ہاتھ دھونے کے ساتھ ساتھ ہمیں عوام کو یہ بھی سکھانا ہے کہ وہ کیسے اپنی خوراک اور ورزش سے اپنی قوتِ مدافعت بڑھا سکتے ہیں۔

انسان جب ذہنی تناؤ کا شکار ہوتا ہے تو اس کی قوتِ مدافعت کم ہو جاتی ہے اور پھر کوئی بھی بیکٹیریا یا وائرس اس پر حملہ آور ہو تو وہ بیمار ہو سکتا ہے۔ کرونا وبا میں بھی وہ لوگ جن کی قوتِ مدافعت اچھی ہے اور جو ذہنی طور پر تندست ہیں انہیں اگر انفکشن ہو بھی جائے تو وہ مرنے کی بجائے اس پر قابو پا لیں گے اور دوبارہ صحت مند ہو جائیں گے۔

میری نگاہ میں حکومتِ وقت کا فرض ہے کہ وہ عوام کے سامنے ریڈیو ’ٹیلی ویژن‘ اخبار ’رسائل اور سوشل میڈیا کی وساطت سے سائنسی تحقیق اور علاج لائیں تا کہ لوگ کرونا وبا کے بارے میں صحیح معلومات جانیں اور انفرادی اور اجتماعی طور پر صحتمند رہنے کی پوری کوشش کریں۔

اب آپ بتائیں آپ کا موقف کیا ہے؟ کیا آپ مولانا طارق جمیل سے متفق ہیں کہ کرونا وبا ہمارے گناہوں کی سزا ہے اور اس کا علاج اپنے گناہوں کی معافی ہے یا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اس بیماری کے علاج کے لیے ہمیں مولاناؤں پادریوں اور ریبائز کی بجائے سائنسدانوں ’ڈاکٹروں اور ماہرینِ نفسیات کی خدمات حاصل کرنی چاہئییں؟

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments