کورونا کے خلاف ریاستی بیانیہ:


انسانی تاریخ قدرتی آفات وحادثات کے دلخراش واقعات سے بھری پڑی ہے۔ ہر عہد میں انسان کو کسی نا کسی قدرتی آفت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ قحط، خشک سالی، زلزلے، سونامی، آتش فشاں اور وبائی امراض جیسی قدرتی آفات نے کروڑوں انسانوں کی زندگیوں کو متاثر کیا ہے۔ وطن عزیز نے بھی کم وبیش ہرطرح کی قدرتی آفات چاہے وہ بدترین سیلاب کی صورت میں ہوں یا پھر کشمیر کے زلزلے کی ہولناک تباہی کی صورت میں ہوں کا سامنا کیا ہے۔

مگر اس بار قدرت شاید پورا امتحان لینے پر تلی ہوئی ہے۔ چین سے کورونا وائرس کی وبا شروع ہوئی تو اس نے دنیا بھر کے کم وبیش تمام ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اس وقت کورونا سے 28 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہیں جبکہ دو لاکھ کے قریب زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ دنیا کا ہر ملک ایک منظم انداز میں اس آفت کا سامنا کررہا ہے چین نے توبطور قوم اور حکومت اپنی انتھک محنت اور لگن سے دنیا کے سامنے مثال قائم کردی اور اس وقت چین دیگر دوست ممالک کی امداد کرنے میں مصروف ہے۔ شاید اسی لئے کہا جارہا ہے کہ چین نے تیسری عالمی جنگ بنا کوئی گولی چلائے جیت لی ہے۔

پاکستان بھی کورونا سے متاثرہ ممالک میں شامل ہے۔ اب یہ الگ سوال ہیں کہ پاکستان میں کورونا کیسے پھیلا اور کیوں پھیلا؟ زائرین اور دیگر ممالک سے فضائی اورزمینی راستوں سے آنے والوں کو چیک کیوں نہیں کیا گیا اورپھر ان کو قرنطینہ مراکز میں رکھنے کا فیصلہ دیر سے کیوں کیاگیا؟ حکومت نے کورونا کے لئے کتنی تیاری کی ہوئی تھی جیسے سوالات کے جوابات اس وبا سے نمٹنے کے بعد ہی تلاش کیے جائیں گے مگر اس وقت سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کورونا کے خلاف بطور قوم یک جہتی نظر کیوں نہیں آرہی ہے؟

وزیراعظم نے کہا لاک ڈاون نہیں کریں گے مگر اگلے دن صوبوں نے کہا کہ لاک ڈاون کررہے ہیں۔ سندھ حکومت نے اقدامات شروع کیے تو گویا اس کے خلاف ایک میڈیا مہم شروع کردی گئی۔ لازمی بات ہے اس کا جواب بھی اسی طرح ہی ملنا تھا اور وہ ملا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کورونا کے خلاف قومی سطح پر ایک بیانیہ تشکیل دیا جاتا اور وفاق اور اس کی تمام اکائیاں اس پر دل وجان سے محنت کرتیں مگر یہاں پر بدقسمتی سے سیاست شروع ہوگئی۔ اور اسی پر سندھ کی طرف سے آواز آئی کہ تاریخ میں لکھا جائے گا کہ جب سندھ حکومت کورونا سے لڑرہی تھی تو وفاقی حکومت سندھ سے لڑ رہی تھی۔

سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی خاطر ایک افسوسناک منظر تشکیل پایا ہے اور اس وقت عالم یہ ہے کہ پاکستان بھر میں لاک ڈاون مذاق بن کررہ گیا ہے۔ پہلے سندھ کے اور اب پنجاب کے ڈاکٹرز پریس کانفرنسز کرکے اپیل کررہے ہیں کہ لاک ڈاون کو سنجیدہ لیا جائے وگرنہ ہمارا نظام صحت اس قابل نہیں کہ ہم بڑی تعداد میں کورونا کے مریضوں کا علاج کرسکیں مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ وزیراعظم ہاؤس کے ترجمان ڈاکٹر شہباز گل آئے روز نئی موشگافیاں کرکے صورتحال کو مزید خراب کررہے ہیں۔

حکومت کے مطابق عام آدمی کی مالی حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے سمارٹ لاک ڈاون کی طرف جائیں گے جس میں متاثرہ علاقوں کا لاک ڈاون کیا جائے گا۔ پھر سوال تو بنتا ہے کہ جس 1200 ارب روپے کے ریلیف پیکج پر شادیانے بجائے گئے تھے کیا وہ عوام کی ضروریات سے کم تھا؟ اگر کم تھا تو مزید پیکج دے دیں اب تو حکومتی ترجمان کے مطابق جاپان سے 16۔ 2 ملین ڈالر، امریکہ سے 8 ملین ڈالر، ورلڈ بنک سے 238 ملین ڈالر، ایشیائی ترقیاتی بنک سے 350 ملین ڈالراور آئی ایم ایف سے 386۔ 1 بلین ڈالر کے قرضے اور امداد ملی ہے جبکہ جن قرضوں کی ادائیگیاں اس سال کرنی تھیں ان کی ادائیگی میں بھی مزید مہلت مل گئی ہے تو پھر عوام کو بھرپور ریلیف دے کر مکمل لاک ڈاون کرکے اس وبا سے کیوں نہیں نمٹ رہے؟

پاکستان میں جیسے جیسے لاک ڈاون کے دن بڑھتے جارہے ہیں تو اسی حساب سے کورونا متاثرین کے کیسز میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ یہ خطرناک صورتحال ہے جبکہ حکومتی سطح پر جو کام سب سے سنجیدہ اورمنظم انداز میں کیا جارہا ہے وہ کورونا کے نام پر صرف اورصرف چندہ مہم ہے۔ جبکہ کورونا کے پھیلاؤ سے متعلق ملکی ڈاکٹرز اور غیر ملکی ماہرین مسلسل خدشات کا اظہار کررہے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ڈاکٹر ٹیڈروس ایڈہانوم نے پاکستان سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ ”کورونا وائس پاکستان کے 115 اضلاع میں پھیل چکا ہے اور اگر کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تو جولائی کے وسط تک پاکستان میں کورونا متاثرین کی تعداد 2 لاکھ سے زائد ہوسکتی ہے، سندھ اورپنجاب زیادہ متاثرہ صوبوں میں شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کے مقابلے کے لیے قومی سطح پرمربوط حکمت عملی اپنانی ہو گی جب کہ“ کووڈ نائنٹین رسپانس پلان ”پاکستانی حکومت، اقوام متحدہ اوراس کے شراکت داروں کی مشترکہ حکمت عملی پر منحصر ہے“۔ جبکہ اس وقت ملک میں کورونا متاثرین کی تعداد 11 ہزار 155 ہے جس میں سے 8 ہزار 391 فعال کیسز ہیں، 527 مریض صحت یاب اور 237 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاق اور صوبے ملک وقوم کی بہتری کی خاطر مل بیٹھیں اور بہترین حکمت عملی تشکیل دے کر اس پر عمل کریں۔ اب بھی وقت ہے کہ کورونا کے خلاف بطور قوم متحد ہوکر لڑیں گے تو کامیاب ہوں گے۔ باقی رہی سیاست کی بات تو پھر یاد رکھیں اگر زندہ رہے تو سیاست بھی ہوتی رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments