ملکی حالات اور کرونا


ہر سال کی طرح اس سال بھی ہمارے ملک میں دو عیدیں ہونگی۔
ھمارے صوبے خیبرپختونخواء کے مولوی مفتی پوپلزئی کو ہمیشہ سے ایک دن پہلے رمضان کا چاند نظر آتا ہے جبکہ پاکستان کے دوسرے صوبوں میں رویت حلال کمیٹی کے ممبروں کو فلکیاتی آلات کی مدد سے بھی وہ چاند نظر نہیں آتا ہے۔ اس سائنسی دور میں بھی ہمارے علماء اس آسان مسئلہ کو پیچیدہ بنا کر ملک کی جگ ہنسائی کروا رہے ہیں۔ جن معاملات میں ہمارے مذہب نے آسانیاں دیں ہیں اور سوچنے سمجھنے کے دروازے بھی کھلے رکھے ہیں، ہمارے علما ء کیوں ایسے معاملات میں لوگوں کے لئے مشکل پیدا کر رہے ہیں۔ اللہ تعالی نے تو دین کو آسان اور فطرت کے مطابق بنایا ہے۔

روزوں کے بارے میں حضرت محمد صلٌی اللٌٰہُ علیہِ واٰلہٖ وسلٌَم کا ارشاد مبارک ہے کہ چاند دیکھ کر روزے رکھو اور چاند دیکھ کر روزے کھولو اور چاند دیکھنے کی شرط یہ ہے کہ چاند خواء ملک کے کسی بھی حصے میں نظر آئے سب نے اس پر اتفاق رائے قائم کرنی ہے۔ کرونا کے مسئلہ میں بھی ہمارے علماء عوام کو سمجھانے کے بجائے ان کو مسجدوں میں آکر نماز باجماعت اور تراویح پڑھنے کے لئے کہہ رہے ہیں۔ ساتھ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر ایس۔ او۔ پییز پر عمل نہ کیا تو پھر لوگوں کو مسجد آنے سے منع کر دیں گے۔ اگر ایک دفعہ ہجوم جمع ہوگیا اور بیماری پھیل گئی تو پھر کیا فائدہ منع کرنے کا؟

ھمارے علماء پر فرض ہے کہ ہمارے دین نے مشکل حالات کے لئے جو آسانیاں اور وسعتیں دیں ہیں وہ لوگوں کو بتائیں۔

مجھے یہ دیکھ کر عجیب سا لگتا ہے کہ ہمارے وزیراعظم کبھی ڈیم فنڈ کے لئے چندہ جمع کرتے ہیں کبھی ملک کی معیشت ٹھیک کرنے کے لئے اور کبھی کرونا ریلیف فنڈ کے لئے۔ خان صاحب آپ ایک حکمران ہیں۔ حکمران چندے نہیں مانگتے بلکہ وہ بہتر حکمرا نی کے ذریعے ملک کی تقدیر بدلتے ہیں۔ آپ کی گورنمنٹ کا یہ تیسرا سال چل رہا ہے ابھی تک ملک اور عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کوئی کام نہیں کیا گیا۔ عوام کی حالت دن بدن بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔ اب تو رہی سہی کسر کرونا نے پوری کر دی۔ اب مزید صحت اور بے روز گاری کے مسائل بڑھ جائیں گے۔

کرونا کے معاملے میں بھی وفاق اور جن صوبوں میں وفاقی حکومتیں ہیں انہوں نے بروقت صحیح اقدامات نہیں اٹھائے لیکن سندھ گورنمنٹ نے کرونا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے شروع ہی سے جو کوششیں کیں وہ قابل تحسین ہیں۔ وزیراعظم اور ان کے وزاء اپنی نالائقی کو چھپانے کے لئے آئے روز سندھ گورنمنٹ پر تنقید کررہے ہیں۔ ملک سب کا ہے۔ وزیراعظم کو کم ازکم اس مشکل وقت میں اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلناچاہیے لیکن ہمارے وزیراعظم خود کو عقل کل، دیانتدار اور امانتدار سمجھتے ہیں۔

اب بھی وزیراعظم مکمل لاک ڈاؤن کے بارے میں کنفیوزڈ دکھائی دیتے ہی حالنکہ ووہان میں چائنیز گورنمنٹ نے 28 دن کا سخت لاک ڈاؤن کر کے اس وائرس پر قابوں پالیاتھا۔ چانیز گورنمنٹ نے ہماری گورنمنٹ کو بھی 28 دن کے لاک ڈاؤن کا مشورہ دیا تھا۔ پہلے تو 25 مارچ تک حکومت کو سمجھ نہی آئی کیا کریں اس کے بعد کہیں جا کر جزوی لاک ڈاؤن ہوا۔

سندھ کے ڈاکٹرز نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں ں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ لاک ڈاؤن پر سختی سے عمل کروائیں۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو آگے حالات بہت زیادہ خراب ہو جائیں گے۔ سندھ حکومت شروع سے ہی سخت لاک ڈاؤن کر نے کی حامی ہے۔ ڈاکٹروں کی اس پریس کانفرنس کو بھی وفاقی حکومت کے ترجمان نے سنجیدگی سے لینے کی بجائے سندھ حکومت کی وفاقی حکومت کے خلاف سازش قرار دے دیا۔ بعد میں پنجاب کے میڈیکل ایسوسی ایشن کے صدر نے بھی پریس کانفرنس کی اور ہیلتھ آرگنائیزیشن نے بھی خبردار کیا ہے کہ سماجی دوری رکھنے کے لئے لاک ڈاؤن ضروری ہے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو انسانی جانوں کے نقصان کا بڑا المیہ ہوگا۔ اب تو حالات اتنے خراب بھی نہیں ہیں۔ اگر حکومت سختی کے ساتھ 28 دن تک لاک ڈاؤن کرے تو حالات پر قابوں پاسکتی ہے۔ اگر جزوی لاک ڈاؤن ہوا تو اگے صحت کی ایسی خوفناک صورتحال ہوسکتی ہے کہ حکومت کے لئے معاملات سنبھالنا مشکل ہوجائے گا۔

ھماری گورنمنٹ کو چائیے کہ وہ اس مشکل وقت میں ایسے فیصلے کرے جس سے بہت سی قیمتی جانیں بچ جائیں اور یہ وبا کم سے کم پھیلے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments