مولانا طارق جمیل صاحب کے نام ایک بے حیا بیٹی کا گستاخ خط


مولانا طارق جمیل صاحب کے نام ایک بے حیا بیٹی کا گستاخ خط معذرت کے ساتھ۔

سلام محبت مولانا طارق جمیل صاحب، اس محبت کا تعلق شاید پچھلے رمضان تک تھا۔ یا کل کے بیان تک تھا۔ اس کے بعد دل کی تسلی کو دور کے سہانے ڈھول ہی بھلے لگنے لگتے ہیں۔ جب انسان کو پھولوں کے باغوں سے گزرتے کانٹے لہو لہو کر دیتے ہیں۔

دل بہت دکھی اور غم گین تھا۔ انسانیت کی میتوں کا تماشا دیکھ دیکھ کر اداسی آنکھوں تک اتر آئی تھی اور یقین مانیے گا کہ جنت بھول چکی تھی۔ اور زمین کی قیامت کسی دوزخ جلی کی طرح مسوس کیے ہوئے تھی کہ پتا چلا کہ یہ ستم ہم بے حیا عورتوں کی وجہ سے ہے۔ حیا کس کو کہتے کپڑے کم یا زیادہ ہو نے کو؟ بال چھوٹے یا بڑے ہو نے کو؟ تنبو تان عورت حیا ہے؟

تو میرے عزیز طارق انکل بات کچھ یوں ہے کہ یہ سب کس نے کیا ہے۔ وہ جنت کی حسین حوروں کا نقشہ کون کھینچتا ہے جس کے تن شفاف پہ کوئی کپڑا بھی نہیں ہوتا۔ کبھی آپ نے جنت کی حوروں کے کپڑے بتائے کہ کیسے ہوں گے؟ نہیں! تو کیا یہ گمان نہیں ہوتا کہ وہ برہنہ ہوں گی؟ اور جب ہم مومن مسلم قسم کے مرد کی بات کر تے ہیں تو اس کو جنت کے ایسے تحائف کا ہی لالچ کیوں دیا جاتا ہے۔ عورت کو تو ثواب کے چکر میں کوئی لالچ نہیں دیا جاتا۔

”مجھے بھی کوئی مردانہ حور نما مرد چاہیے“ میں یہ ڈیمانڈ کر دوں تو مجھ پہ فتوی لگ جائے گا۔ میں نے غیرت بے حیا ہو جاؤں گی۔ دنیا میں تو دین سے نکال دی جاؤں گی۔

چکر اس آسمانی لالچ سے شروع ہو تا ہے۔ اور پھر قیامت زمین پہ آتی ہے۔ جب چند ماہ کی بچی سے لے کر ٹین ایجر بچیوں اور بچوں کے ساتھ ریپ کیا جاتا ہے۔ تب تو یہ سب بیٹے حیا کے پتلے ہو تے ہیں۔ لیکن یہ بات اس مرد کو کبھی سمجھ نہیں آ تی جس کی بیٹی اور بہن نہ ہو۔ یا جس کو احساس نہ ہو۔

یہ فیکٹریوں ملوں کے مالکان کون ہیں۔ سب مرد ہیں۔ لمبی داڑھیوں کے نیچے لمبا مال کمانے والے کیا کوالٹی کنٹرول نہیں کر سکتے۔ کہ کپڑا باریک نہ بنے۔ آپ نے کبھی یہ ان سب کو بتایا ہے۔ نہیں نا۔ ہمیشہ عورت کو کہا ہے کہ جسم چھپاؤ۔ ان کو کیوں نہیں کہتے جسم دکھانے والا کپڑا نہ بناؤ۔

یہ جو یک نہ شد دو شد کا چسکا ہے۔ جس میں سب ڈینگیں مارنے والے مرد شامل ہیں۔ آپ کیوں نہیں کہتے ان مومن مسلم بیٹوں کو پورن نہ دیکھو۔ کبھی کوئی خطبہ پورن فلم پہ کیوں نہیں دیتے۔ ان کو کیوں نہیں بتاتے کہ یہ فلم ہے جس میں حقیقت میں نہ جسم ہے نہ عورت۔ ان کو کیوں نہیں بتاتے کہ جب تم کسی کی بیٹی کے ساتھ یہ پورن ایڈونچر کرنے جا رہے ہوتے ہو تو وہ نہیں ہو سکتا۔ اس کے نازک مسلز ٹوٹ پھوٹ جائیں گے۔ اور اس کی نزاکت سوج جائے گی تو اس کو ڈاکٹر کی ضرورت ہو گی، تمہارے فخر کی نہیں۔

آپ جانتے ہیں کتنی معصوم لڑکیوں کی اس وجہ سے طلاق ہو تی ہے؟ میں نے ایسی لڑکیوں کے انٹرویوز کیے ہیں۔ جن کو تین تین بار اسی وجہ سے طلاق ہوئی۔ آپ اس کو بے حیائی اور بے غیرتی کیوں نہیں مانتے جب یہ مسلم بیٹے یہ فلمیں بیڈ رومز میں لگا کر اپنی فلم بنوانے کا تقاضا کر رہے ہوتے ہیں۔ تو کیا یہ فن کاری ہوتی ہے؟

جوان عورت کی معاشرے میں آبادی زیادہ ہو جائے تو آپ مرد کی قیمت کیوں بڑھا دیتے ہیں۔ کہ وہ غریب عورت کو لونڈی کے مقام پہ لا کر اس کے جسم کو نوچ ڈالتا ہے۔ آپ کیوں نہیں بتاتے کہ غلامی ختم کر دی گئی تھی۔ آج کی معاشی غربت کا ذمہ دار ہمارا اقتصادی نظام ہے۔

آپ کیوں نہیں کہتے کہ مرد کو بھی مکمل کپڑے پہننا چاہئیں۔ کیا برہنہ مرد بے حیا نہیں؟

اور آپ مرد کو کیوں نہیں بتاتے کہ شادی سے انکار کرنا عورت کا بھی حق ہے اس کو ایک مرد پسند نہیں تو مرد اس کو انا کا مسئلہ بنا کر تیزاب گردی تو کرتا ہی کرتا ہے مگر پڑھا لکھا مرد بے لباس ہو کر اپنے تن بد صورت کی برہنہ تصاویر جب اس عورت کو بھیج کر کہتا ہے۔ اب کب تک انکار کرو گی۔ کیوں نہیں بتاتے کہ یہ بھی بے حیائی ہے۔

اور ہر دوسرا شادی شدہ مرد ہر ارضی حور کے سامنے اپنی بیوی کی برائی کرتے ہو ئے جسم کی بھیک کیوں مانگ رہا ہوتا ہے۔ کیوں وہ دفتروں، یونیورسٹیوں، کالجوں، سیر گاہوں پہ اپنا چند انچ کا گوشت کا لوتھڑا لٹائے، متمنی ہو تا ہے کہ اس گند کو دیکھ لیا جائے۔ اسے عورتوں کے سامنے اتنی خارش کیوں ہو تی ہے۔ آپ اس کو کیوں نہیں بناتے کہ غسل جنابت کے علاوہ بھی غسل کر لینا چاہیے تاکہ وہ غلاظت سے پاک رہے۔ وہ کیوں غسلِ آخر کا انتظار کرتا ہے کہ جو اسے دوسرے کروائیں گے۔

کیا یہ بے حیائی نہیں ہے، سر حجاب زدہ عورت کو سڑکوں بازاروں پہ جاتے چشت جملے کس دینا، ان کے چھو کر گزر جانا کیا یہ حیائے عظیم، اور ثوابِ کبیر کے زمرے میں آتا ہے۔

ہائے اور یہ ناچتی عورت اگر بے حیا ہے تو اس ملک میں یہ الیکشن اسی تبدیلی کے نام پر ہوا تھا اور ووٹ لے کر اس قوم کو دھوکہ دیا گیا۔ کنٹینر پہ کھڑے ہو کر جب ان گانوں پہ یہ ارضی حوریں تبدیلی لا رہی تھیں۔ تب تک حیا کہاں تھی۔ اس ملک کی ایک شادی نے پورے ملک کے ازدواجی نظام کو ہلا دیا۔ ایک خربوزے کو دیکھ کر کتنوں نے رنگ پکڑا۔ تب حیا کہاں تھی۔

اب یہ فیشن بن گیا ہے کہ ایوانوں میں دیوانے ایسا کر سکتے ہیں تو شادی حلال ہو گئی ہے۔ اب شادی، شادی شدہ پہ حلال ہوئی ہے۔ یہ حیا کے کون سے خانے کی کہانی ہے۔ اور آپ ان مسلم مردوں کو کیوں نہیں کہتے جو شادی کرتے وقت کم سن ڈاکٹر، انجئنیر، اور فیشن ڈیزاینر کا مطالبہ کر رہے ہوتے ہیں۔ آپ قبر میں ٹانگیں لٹکائے مردوں کو کیوں نہیں بتاتے کہ شادی تمہارا حق ہے، مگر تمہارا بڑھاپا اس کی جوانی چھین لے گا اور تمہارے بعد اس کم سن بیوہ سے کوئی شادی نہیں کرے گا۔ ہم نے ایسا سماج تعمیر نہیں کیا۔

اور جب کرونا آیا ہی چائنا سے ہے تو یہاں کی عورت کے ناچنے کو پوری قوم کی عورت کو گالی بنا دینا کہاں کا انصاف ہے۔ اور جب چین نے بیماری پہ قابو پا لیا ہے تو ہم کیوں بے بس ہیں۔ کیا ہم اس وبا سے بھی اپنا مفاد حاصل کر نا چاہ رہے ہیں۔ اور کیا ایوانوں میں اللہ کے دیوانوں کا کوئی کام ہے۔ اللہ کے دیوانوں کے در پہ تو ایوانوں والے خود آتے ہیں۔

مولانا صاحب بے حیا مرد ہوا ہے عورت نہیں ہوئی۔ وہ مجبور کی گئی ہے۔ وہ بے حیا عورتیں بھی اپنے بوڑھے والدین کے گھر کا سہارا ہیں۔ ہر گھر میں بیٹا نہیں ہے۔ اور نہ ہی ہر گھر کا بیٹا والدین کی کفالت کر رہا ہے۔ آج کے دور کا تو مرد اپنی کفالت بھی بیوی سے کروا رہا ہے۔

میں بھی اللہ سے معافی مانگتی ہوں مگر اپنے اس خط کی نہیں یہ مجھے آج نہیں تو کل کسی صاحب دلدار مرد کو لکھنا ہی تھا۔ میں معافی مانگتی ہوں کہ میں بہشتی زیور کے زیور نہیں پہن سکی۔

قوم کی ایک گستاخ اور بے حیا اور دکھی بیٹی

اور آپ سے ہی سنا ہے دکھی دلوں میں خالق رہتا ہے۔ اور خالق کہتا ہے کہ وہ شہ رگ سے بھی قریب ہے۔ تو شاید شہ رگ سے اوپر کا حصہ ایسی گستاخیاں کرتا ہی معافیوں کے لئے ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments