عذرا کا ماضی اور بانو کا پارلر
دروازے پر ٹھک ٹھک کی آواز سنتے ٍ ہی بانو کی اماں نے پوچھا کون؟ جواب ملا اویس مالک مکان کرایہ لینے آیا ہوں۔ بیٹا بانو کا پارلر بند پڑا ہے بس پارلر کھلتے ہی کرایہ دے دیں گے۔ اماں کمرہ دیتے وقت ہی آپ لوگوں کو بتا دیا تھا کہ کرایہ وقت پر دینا پڑے گا مگر آج آپ پارلر بند ہونے کی کہانیاں سنا رہی ہیں مجھے تو بس اسی ہفتے کرایہ چاہیے بس۔ اماں کون تھا دروازے پر بانو نے اماں سے پوچھا۔ بانو بیٹا مالک مکان تھا کرایہ لینے آیا تھا سن بانو تیرے پاس کچھ پیسے ہوں گے ؟
کیوں اماں آپ کو بتایا تو تھا وہی کچھ پیسے تھے جو میں نے پارلر والی افشاں باجی سے ادھار لیے تھے اب تو میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ بیٹا باجی سے ایک بار پھر کچھ ادھار لے آ۔ اماں آپ کو پتہ تو ہے کورونا کی وجہ سے پارلر کا کام بند پڑا ہے اور باجی افشاں کا گزر بسر بھی پارلر ہی کی کمائی پر ہے ہمارے گھر کی طرح۔ بیٹا وہ تو پارلر کی مالکن ہے اور تو ٹھہری اس کی ملازمہ۔ اماں آپ صحیح کہتی ہیں مگر ہمارے بھائی ساجد کی طرح ان کا میاں بھی نشہ کرتا ہے۔
اماں ویسے ساجد ہے کہاں؟ ہونا کہاں ہے کہیں پڑا ہوگا سوٹا لگا کے۔ اگر تیرے بھائی میں کچھ غیرت ہوتی تو تجھے یوں در در خوار نہ ہونا پڑتا۔ اماں سنا ہے کہ حکومت بھی غیربوں میں راشن اور پیسے بانٹ رہی ہے۔ چھوڑو بانو بیٹا وہ تو صرف اپنے لوگوں کو ہی نواز رہے ہوں گے ہم غریبوں کو کون پوچھتا ہے ہماری کون سی کوئی سفارش ہے۔ تو اماں آپ بھی کسی سے جان پہچان نکال لیں نا شاید ہمیں بھی کچھ مل جائے کہیں ہم بھوکے ہی نہ مر جائیں۔
اماں کم از کم ساجد کو ہی کہیں کہ کسی لائن میں لگ کر کچھ لے ہی آئے۔ بانو تمہیں پتہ تو ہے اپنے بھائی کا وہ کتنا نکما ہے ہو گا کہیں اپنے بیکار اور نکھٹو دوستوں کے ساتھ رات سے آیا ہی نہیں گھر۔ چل ایسا کرتی ہوں ساجد کو بھی دیکھ آتی ہوں اور تھوڑا راشن کا بندوبست بھی کرتی آؤں گی۔ گلی کے باہر جیسے ہی عذرا بی بی کی نظر گلی میں کھڑے شبیر پر پڑی تو فوراً ساجد کا پوچھا تو شبیر نے بتایا کہ خالہ وہ تو کچھ غبارے اٹھائے مجھے پھاٹک والے پل کے نیچے نظر آیا تھا۔
عذرا بی بی منہ ہی منہ میں کچھ بڑ بڑاتے ہوئے لطیف کریانے والے کی دکان کی طرف چل دی۔ عذرا بی بی کے بولنے سے پہلے ہی لطیف بول پڑا خالہ لگتا ہے ادھار چگانے آئی ہو۔ ناں بیٹا ابھی کہاں تم تو جانتے ہو جب سے کورونا کی وبا آئی ہے ہمارے تو برے حالات ہیں بانو کا پارلر بھی بند پڑا ہے اور تم تو جانتے ہو سب گزر بسر اسی کمائی پر ہوتا ہے اور تمہارے خالو کی وفات کے بعد تو بانو کا پارلر ہی ہمارا سہارا ہے ساجد کی حرکتوں سے تو تم اچھی طرح واقف ہو۔
خالہ تمہارا یہ رونا تو میں برسوں سے سن رہا ہوں اب مجھے اپنے پیسے چاہیں میں کچھ نہیں جانتا۔ عذرا بی بی مایوس دکان سے لوٹی تو دکان پر لطیف کے ساتھ بیٹھا اس کا دوست بولا لطیف تم جانتے ہو یہ تم نے کس کو انکار کیا ہے۔ لطیف حیرانگی سے بولا کیوں یار؟ ابھی کچھ عرصے پہلے ہمارے پچھلے محلے میں کرائے پر رہنے آئے ہیں۔ یار لطیف وقت وقت کی بات ہے ایک وقت تھا لوگ اس عورت کی ایک جھلک دیکھنے کو ترستے تھے بڑے بڑے لوگوں کے ساتھ اس کا اٹھنا بیٹھنا تھا بے دریغ اس پر پیسہ نچھاور کرتے تھے بس یار وقت کیسے اپنا رنگ بدلتا ہے میں تو اسے دیکھتے ہی حیران ہو گیا۔
مایوسی کی تصویر بنی عذرا بی بی جیسے ہی پھاٹک والے پل کے پاس پہنچی تو دیکھا کہ ساجد کو کچھ لوگ مار رہے ہیں بیچ بچاؤ کرا کے جب عذرا بی بی ساجد کو گھر لائی تو راستے میں ساجد نے بتایا کہ اماں میں نے تو سوچا تھا کہ یہ مزدور جو بیلچے لیے سڑک کے کنارے بیٹھے رہتے ہیں اور کوئی نہ کوئی ترس کھا کر کچھ نہ کچھ انہیں دے جاتے ہیں تو میں بھی کچھ غبارے ڈنڈی پر سجائے ان کے ساتھ بیٹھ گیا کہ شاید کوئی مہربان مجھے بھے دو چار پیسے دیتا جائے مگر اماں ان مزدوروں نے تو میرا حلیہ ہی بگاڑ ڈالا یہ کہہ کر کہ تم کون سے اصلی مزدور ہو یہ جگہ ہماری ہے میں نے تو جواب میں صرف اتنا ہی کہا تھا کہ تم کون سے اصلی ہو اور محنت کر کے کما رہے ہو بس پھر کیا تھا مجھ پر سب ہی برس پڑے۔
جب عذرا بی بی اور ساجد گھر پہنچے تو بانو نے امید بھری نظروں سے دونوں کو دیکھا مگر دونوں کے اترے ہوئے چہرے دیکھ کر اس پر مایوسی چھا گئی۔ اماں کیا آج بھی ہم بھوکے سوئیں گے؟ اماں کے پاس سوائے خاموشی کے کچھ نہ تھا۔ بانو نے اماں سے سوال کرتے ہوئے کہا اماں حکومت جو روز نئے نئے دعوے کرتی پھرتی ہے اس مشکل وقت میں ہم جیسے غریبوں کی مدد کا، تو اماں وہ سارے پیسے کہاں چلے جاتے ہیں ہم غریبوں تک تو کچھ پہنچتا ہی نہیں۔
اماں مجھے تو نہیں لگتا کہ کوئی فورس کیا بھلا سا نام ہے اس کا اماں۔ ہے بیٹا کوئی ٹائیگر یا گیڈر فورس کیا پتہ ہم تک پہنچ بھی پائے گی یا نہیں؟ چل بیٹا مایوس نہ ہو دونوں چلتے ہیں مدد کی تلاش میں شاید ہمارا کوئی کام بن جائے۔ دونوں ماں بیٹی پورا دن در در کی ٹھوکریں کھاتی رہیں مگر بے سود نہ کوئی دین دار ملا نہ کوئی دنیا دار۔ آخر تنگ آکر اماں بولی چل بانو پھر ایک بار تیری پارلر والی افشاں باجی کے ہاں ہی چلتے ہیں شاید وہی تھوڑی بہت مدد کر دے۔
دونوں پارلر والی باجی کے گھر پہنچے تو باجی نے بھی ٹکا سا جواب دے کر انہیں چلتا کیا۔ باجی کے گھر کے دروازے سے باہر نکلتے ہوئے پیچھے سے آواز آئی عذرا بی بی یہ تم ہی ہو۔ عذرا بی بی نے جونہی پلٹ کر دیکھا تو ماضی اس کی آنکھوں میں گھوم گیا۔ پہچانا عذرا بی بی میں شوکت۔ دھیمی آواز میں عذرا بی بی نے جواب دیا شوکت میں تو کب کا اپنا ماضی دفن کر چکی اب حالات مجھے اس پارلر والی کے پاس لے آئے کہ اس برے وقت میں یہ تھوڑی مدد کر دے میری بیٹی عرصے سے اس کے پارلر میں کام کر رہی ہے۔
ارے عذرا بی بی یہ پارلر والی کیا خاک مدد کرے گی میں تو خود اس کے لیے گاہک کی تلاش میں ہوں پارلر کا کام تو ٹھپ پڑا ہے گزر بسر کے لیے اس نے مجھے گاہک لانے کو بولا ہے۔ عذرا بی بی کہو تو تمہاری بیٹی کے لیے بھی ڈھونڈوں کوئی گاہک؟ یہ تو جوان ہونے کے ساتھ ساتھ خوبصورت بھی ہے تم ہاں بولو تو لینڈ کروزر والوں کی لائنیں لگا دوں۔ عذرا بی بی غصے میں بولی ارے شوکت میاں خود یہ کام کب کا چھوڑ دیا محنت کر کے عزت کی دو وقت کی روٹی کھاتے ہیں اس کورونا کی وبا نے وہ بھی چھین لی۔
شوکت بولا جیسی تمہاری مرضی میں اپنا نمبر تمہیں دیے جا رہا ہوں سوچنا ضرور۔ گھر تک پہنچتے پہنچتے سو خیال گھر کا کرایہ، پاپی پیٹ کا سوال، ادھار، بل سو طرح کی پریشانیاں دماغ میں گھنٹیوں کی طرح بج رہی تھیں۔ گھر پہنچتے ہی ساجد نے پہلا سوال کھانے کا کیا ماں مجھے بہت بھوک لگی ہے کہاں تھے تم دونوں؟ عذرا خاموش بت بنی کھڑی رہی اور غصے میں ساجد بانو سے مار دھاڑ پر اتر آیا پھر آخر کار غموں سے نڈھال عذرا نے بانو کو بلا کر کہا کہ بیٹی ذرا شوکت کا نمبر تو ملانا۔
- مریم نواز، ریاست اور ففتھ جنریشن وار فیئر ٹرینڈ - 03/03/2024
- عام انتخابات، انگریز دلہن اور عجیب و غریب آوازیں - 29/02/2024
- بیٹا ہم پر امن ہیں لاٹھی نا مارنا - 31/05/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).