صحرائے تھر میں کسانوں کا تہوار



سرسوتی اور ہاکڑو ایک دریا کے دو نام ہیں یا دو علیحدہ علیحدہ دریا ہیں۔ اب تک کوئی حتمی رائے مل نہیں سکی ہے۔ لیکن اس بات پہ اکثر اتفاق رائے ملتی ہے کہ برصغیر کے ریگستان والے علاقے میں جب دریا بہتا تھا، ہرطرف ہرے بھرے کھیت لہلاتے تھے، تب یہاں خوشحالی، شادمانی، رقص و کیف کے میل ملاپ سے تہذیب پروان چڑہتی گئی۔ فنوں لطیفہ اور موسمی تہواروں کے بڑے میلے منقعد ہوتے گئے۔ ہاکڑو وادی کے زرعی سماج نے بہار کی آمد پہ پھولوں کی رنگت کا تہوار ہولی متعارف کروایا۔

یہاں کی زبان کے اسم پھرگنہ سے پھاگن یا پھگن مہینہ بنا۔ گندم کی کٹائی کے بعد بیساکھ میں کسانوں کا دن مخصوص کر کے دنیا کو کسان کی اہمیت کا پیغام دیا۔ ساون کی گھنگھور گھٹاؤں اور بارش کی رم جھم کے ترانوں میں تیج کا تہوار منا کر عام و خاص کا ایک ساتھ جھولوں میں جھولنے کا آغاز کیا۔ رومان کی داستانیں اور راگ مھالا پیش کرنے کے لئے شاعروں، مصوروں، اور موسیقاروں کی حوصلا افزائی کی گئی۔ ساون رت کے آخر میں موسم سرما شروع ہونے سے پہلے کاتک ماس میں گھر کی چوکھٹ پر دیا جلا کر روشنیوں کا تہوار منایا۔

وقت گزرنے کے ساتھ ایسی بڑی کوئی تبدیلی آئی یا حادثا رونما ہوا جس سے دریا کی روانی ٹوٹ گئی، ہاکڑا وادی کے میدانی علاقے نے خشک ہو کر ریگستانی ٹیلوں کا روپ اختیار کر لیا۔ ریت کی لہروں میں صحرا کی پیاس بڑنے لگی۔ لوگوں کی معاشی زندگی کے ترجیحات تبدیل ہوئے لیکن سماجی و ثقافتی رنگ نہیں بدلے، اس وجہ سے صحرائے تھر کے سماجی اور ثقافتی رنگوں میں آج بھی ہاکڑا وادی کی تہذیب وتمدن کے رسم و رواج ہزاروں سال گزرنے کے باوجود کثرت میں پائے جاتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ ہاکڑا تہذیب کے عروج کے دنوں میں کسانوں کا تہوار کے موقعے پہ دریا کے کنارے پر جل پوجا کر کے خوشحالی کی پراتھنا کی جاتی تھی۔ آج فطرت کی قربت میں جا کر پیاسے صحرا پر بارش برسنے کے شگن دیکھے جاتے ہیں۔ بادلوں کے برسنے اور اچھا سال آنے کی دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ کسانوں کا تہوار تیں دن تک چلتا ہے۔ پہلا دن چیت کے کرشن پکش (کالی راتوں والے 15 دن ) کے اماوس (اماس) کا دن ہوتا ہے۔ دوسرا دن بیساکھھ کے شکل پکش (چاندنی راتوں والے دنوں میں ) میں چاند رات کے دوسرے دن کسانوں کا تہوار ( ہارین جو پربھ ) اور چاند رات کے تیسرے دن آکھا ٹیج ( آکھاٹی ) مناتے ہیں۔

ان تینوں دنوں کی شروعات گھر کے آنگن میں بارانی فصلوں کے علامتی چھوٹے چھوٹے ڈیر ( جس کو کھرا کہا جاتا ہے ) بنا کر کسان لوگ کھیتوں کی طرف جاتے ہیں۔ راستے میں جھنگل کے فطری منظروں کا سینا بہ سینا چلتے ہوئے صدری علم (انڈیجینس نالیج ) کے تحت بہت قریبی سے مشاہدہ کرے ہوئے بارش اور آنے والی سال کے شگن دیکھتے ہیں۔ شگن میں پرندوں کی بولی بھی شامل ہوتی ہے۔ ریگستان میں ایک چھوٹا سا شگن کا پرندہ پایا جاتا ہے جس کو مالہاری کہتے ہیں۔

مالہاری کی بولی سے شگن سمجھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ اس میں یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ مالہاری دائیں ہاتھ کی سمت پر بول رہی ہے یا بائیں ہاتھ کی سمت پر، کس درخت پر بیٹھی ہے۔ بڑی عمر کے سگھڑ لوگ مالہاری کے شگن جانتے ہیں۔ مالہاری کے اچھے شگن کو سانگونی کہا جاتا ہے۔ کسانوں کے تہوار میں یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ گھر کے آنگن میں بنائے ہوئے ڈیر سے چیونٹیاں کون سی فصل کے دانے کس سمت لے کر جاتی ہیں۔

گاؤں کے چھوٹے بچے لکڑی کے چھوٹھے چھوٹے ہل ( زرعی اوزار ) بنوا کر گاؤں کے میدان میں چلاتے ہیں۔ ہل چلانے کی کھیل میں کوئی بچہ کسان بنتا ہے اور کوئی اونٹھ۔ ، ان کے من کی تمنا ہوتی ہے اس برس سال اچھا ہو، بچوں کی اس کھیل کے منظر دیکھنے جیسے ہوتے ہیں۔ گاؤں کے بڑے جھنگل سے واپس آ کر گاؤں کی ایک بیٹھک میں یا کسی بڑے درخت کے نیچے جمع ہوتے ہیں، تہوار کے دن کی کچھری کو رہان کہتے ہیں۔ وہاں ہرایک کسان اپنے اپنے شگن بیاں کرتا ہے۔

رہان میں ساون رت کے چار مہینوں ہاڑ، ساون، بھادوں اور اسو کے نام پر مٹی کے علامتی ترایاں ( تالاب ) بنا کر پانی ڈالتے ہیں۔ جس نام کا تالاب پہلے ٹوٹے گا، اس مہینے میں بارش برسنے کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی بھی تالاب نہیں ٹوٹتا۔ اس کو قحط کا شگن (بد شگن ) تصور کیا جاتا ہے۔ رہان میں چائے، ساکر اور آفیم کی منوار ہوتی ہے۔ داستان گو سگھڑ، منگہار اور چارن کوی لوک شاعری اور داستانیں سنتاتے ہیں۔

بیجا سہے برچنا توں مت برچے میھ،
توں برچیا بھوپت ڈگے سجن جاوے تھے چھیھ۔
( تمام لوگ ناراض ہو جائیں مگر اے برسات تو ناراض مت ہونا، اگر تو نے ایسا کیا تو راجا ڈگمگا جائے گا، اور پریتم بھی بچھڑ کر چلا جائے گا)

گر موران بن کنجراں، آنبا رس سوئان،
سین کوچن جنم بھوم ایسا ویسرسی موئان،
( موروں کو پہاڑ، ہاتھیوں کو جنگل، طوطوں کو آم کا رس، دوست کی بری بات، پیدائشی جگہ یہ تمام مرنے سے پہلے نہیں بھولتیں )

موراں میھ نہ ویسرے منگت نا ڈاتار،
مہلی پیہر نا ویسرے، جیوں ہاڑی نا بھتوار۔
(مور برسات کو نہیں بھولتے، مانگنے والا سخی کو اور شادی شدہ عورت میکے کو اس طرح نہیں بھولتی، جس طرح کسان کھیت میں دوپہر کا کھانا لانے والی اپنے گھر کی عورت نہیں بھولتا، انتظار کرتا ہے۔ )

رانی ساکھی ان تامنی، کا اج کرنی پنکھی،
اوے سرے، ہوں گھر اپنے، دونوں نا میلی انکھی
( اے سکھی، رات تالاب کے اوپر کسی پنچھی نے شور کیا، نہ اس کی تالاب میں آنکھ لگی، نہ میری اپنے گھر میں۔ )

کونجاں رات کریڑیو، ٹولی ٹولی تیس،
میں ستی ساجن ساریو، ارلی بھاگی ایس،
( اے سکھی، رات کو کونجیں کرلا رہی تھیں، ٹولی ٹولی میں تیس تھیں، میں نے اپنے ساجن کو یاد کیا، چھاتی سے چارپائی کی پائنتی کو توڑ دیا۔ )

اکتھ کہانی پریم کی مکھ سے کہی نا جا،
گونگے کا سپنا بھیا، سمر سمر پچھتا،
( اے سکھی، پیار کی کہانی بڑی مشکل ہوتی ہے، زبان سے کہی جا نہیں سکتی، گونگے کے خواب کی طرح ہے، جو کسی کو بتا نہیں سکتا، یاد کر کے پچھتاتا ہے۔ )

وین الاپے ویکھ سس رینی ناد سلین،
سسھر مرگھ رتھ موہیا، تن ہس میلہے وین،
( سندری نے وینا بجا کر چاند کی طرف دیکھا، چاند تو حسینا کی بجائی ہوئی وینا کا مدہر آواز سن کر اپنا ہوش گنوا بیٹھا، یہ منظر دیکھ کر حسینا مسکرا کر وینا ایک طرف رکھ دیا۔ )

تہوار کے موقعے پر چاول کی طرح باجرا کا خصوصی طعام تیار کیا جاتا ہے، جس کو باجرا کا بھت کہتے ہیں۔ باجرا کا بھت سچے گھی اور گڑ سے کھایاجاتا ہے۔ باجرا کا خاص طعام ایک دوسرے کے گھروں میں بانٹتے ہیں۔ بیٹھک کی رہان میں شریک ہونے والوں کو بھی کھلایا جاتا ہے۔ تہوار کے آخری دن ( آکھا ٹیج ) پر گڑ کی ربڑی خصوصی طعام طور تیار کی جاتی ہے۔ روٹی کے ساتھ کنڈی کے درخت کی پھلی سنگری سبزی طور پکائی جاتی ہے۔

کسانوں کا تہوار آج سے صحرائے تھر میں شروع ہو رہا ہے۔ ہندو آبادی کے کسان گھر کے آنگن میں اناج کا ڈیر بنانے سے لے کر کھیتوں کی طرف جانے تک شگن کی رسمیں ادا کریں گے لیکن کرونا کی وجہ سے گاؤں کی بیٹھک میں رہان کی رسم نہیں منائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments