وبا کے دنوں میں کورنٹائین بنی ہوئی سرکار اور عوام


پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن نے پریس کانفرنس میں خبردار کیا ہے کہ ”ملک میں صحت کا تباہ حال انفراسٹرکچر زیادہ بوجھ اٹھانے کے قابل ہی نہیں ہے، اگر کیسز اس تیزی سے بڑھتے گئے تو عوام اور میڈیکل اسٹاف کی زندگیاں داؤ پر لگ جائیں گی اس لیے سرکار کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنی چاہیے اور مارکیٹس اور کام کی جگہوں کے ساتھ مراکز پر فاصلے رکھنے کے لیے اقدامات اٹھائے۔ ایک حد سے معاملات آگے بڑھ گئے تو ہمارے پاس نمٹنے کی صلاحیت و قوت نہیں ہے۔“

اس پریس کانفرنس کے مطالبات بالکل ٹھیک ہیں۔ اس بات کے پس منظر میں دیکھا جائے تو وفاقی حکومت کا رویہ غیرذمے دارانہ اور ناقابلِ فہم ہے۔ ایک طرف وہ کورونا کی وجہ سے خطرناک صورتحال پیدا ہونے کا انتباہ بھی کر رہی ہے اور لاک ڈاؤن اور سماجی فاصلے کی افادیت پر زور دے رہی ہے اور ساتھ ہی لاک ڈاؤن کو ختم کرنے یا جزوی لاک ڈاؤن پر مسلسل زور دیا جا رہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کئی بار لاک ڈاؤن پر برہمی کا بھی اظہار کیا ہے جبکہ کورونا کیسز میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔

آخر وفاقی حکومت اپنے موقف میں واضح کیوں نہیں ہے؟ شروع سے سندھ سرکار پر بھی عمران خان تنقید کر رہا ہے۔ جب کہ اس کے پاس دور اندیش عقل کا بحران موجود ہے۔ وہ بیوقوف ہجوم کا سردار لگ رہا ہے۔ کیا وزیراعظم حالات کے زیادہ خراب ہونے کا انتظار کر رہا ہے؟ اگر کورونا کیسز بڑے تو کیا حالات کو کنٹرول کرنے کی حکومت کے پاس صلاحیت ہے؟ وفاقی حکومت نے جس طرح پہلے غیرذمے داری کا ثبوت دیا بالکل اسی طرح آج بھی ذمے داری سے دور صرف اور صرف سرمائیدار طبقے کے بحران پر فکرمند ہے۔ بائیس کروڑ لوگ حکمرانوں کی ترجیحات میں شامل ہیں؟ لگتا ہے سرکار خود کورنٹائین بن گئی ہے۔

سندھ سرکار جزوی لاک ڈاؤن کر سکی ہے، اور کوئی خاص کارنامہ سرانجام دیا ہے؟ سندھ میں شروع سے انیل کپور کی طرح ایکشن بازی سے کام لیا گیا مگر عملی میدان میں کارکردگی قابلِ ذکر نہیں رہی۔ اس وبا سے نمٹنے کے لیے لاک ڈاؤن پر سختی سے عمل اور اس کو کامیاب بنانے کے لیے محنت کش طبقے کو راشن اور دیگر بنیادی ضرورتیں، پانی و علاج کی فراہمی کے لیے عملی اقدام کی ضرورت تھی اور ساتھ ہی بڑی تعداد میں ٹیسٹنگ کرنا اور علاج کا معیار بہتر بنانا بہت ضروری تھا مگر سندھ حکومت، اپنی نا اہلی کا ذمہ وفاقی حکومت پر اچھالنے اور روزانہ لائیو آنے کا شغل کرنے میں ہی مصروف نظر آتی ہے۔

وفاقی حکومت کی ناجائزی اور نا اہلی اپنی جگہ مگر سندھ حکومت خود بھی نا اہل اور کرپشن میں اس موقعہ پر بھی کسی سے پیچھے نہیں رہی۔ سرکاری ملازموں کی تنخواہیں تو کاٹ لی گئیں مگر وڈیروں اور سرمایہ داروں کے کارخانوں میں گندم، چاول، چینی کو خرید کرنا یا تحویل میں لے کر سندھ کی عوام میں تقسیم کرنا ضروری نہیں سمجھا گیا۔ صابن بانٹنے کے نام پر خطیر رقم کو غائب کیا گیا۔ یونین کونسل کے چئرمینوں نے صابن پر سیلفیاں تو بنائی ہیں مگر عوام تلک صابن نہیں پہنچ سکا اور اس ناکام ٹرائل سے بھی سبق نہیں سیکھا اور پھر راشن بیگس کی بھی شرمناک بندر بانٹ ہوئی ہر جگہ سوشل میڈیا پر چیخیں سنائی دے رہی ہیں کہ عوام کی بڑی اکثریت کو راشن نہیں ملا۔

یہ راشن صرف اور صرف منظور نظر لوگوں کو پہنچایا گیا اور جہاں برائے نام راشن دیا گیا وہاں بھی غیر معیاری اور نامکمل خوراک کی شکایتیں عام ہیں۔ سندھ حکومت نے منصفانہ طریقہ کار اپنانے کے بجائے اپنے لوگوں کے ہاتھ میں رلیف پئکیج دیا جو کرپشن کے نذر ہو گیا۔ تھرپارکر اور امرکوٹ اضلاع کے لاکھوں خاندان جو بیراج کی جانب ہجرت کرتے ہیں انہیں بھی خوراک سے محروم کیا گیا۔

احساس کفالت مراکز مین انتظام نہیں کئی گئے۔ سوشل میڈیا پر ایسی وڈیوز و تصاویر گردش میں ہیں جہاں 42 ڈگری کی گرمی میں خواتین کو کھلے آسمان میں کئی گھنٹے بٹھایا گیا، شامیانے یا متبادل جگہ اور پانی تلک کا انتظام نہیں کیا گیا۔ غریب خواتین دھوپ میں اپنے معصوم بچے گود میں لے کر کھڑی رہیں۔

اس پیش منظر میں افسوسناک رویہ سندھ کے کچھ نام نہاد دانشوروں اور لکھاریوں کا ہے جو سندھ کے محنت کش طبقے کی نمائندگی کرنے کے بجائے سرکار کے ترجمان بنے ہوئے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ وبا نے سول سوسائٹی کو موقعہ پرستی کا نادر موقعہ فراہم کیا ہے۔ اس موقعہ پرست اور مفاد پرست حلقے کو سندھ حکومت کی حمایت کا موقعہ غنیمت ہے اور اس حمایت کے بدلے وہ آگے جا کر مراعاتیں لینے کی دوڑ میں ایک دوسرے سے سبقت لینے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ سندھ حکومت کے ساتھ سول سوسائٹی کی ترجیحات میں عوام شامل نہیں ہے اور دانشور طبقہ حکمرانوں کی ثنا خوانی میں مصروف ہے، دہاڑی مزدور کس حالت میں زندہ ہیں یہ احساس انہیں نہیں ہے۔

حیرت کی بات تو یہ ہے کہ حکمران اور سول سوسائٹی کے مفادپرست و موقعہ پرست دانشور ’مخیر حضرات‘ کو اپیل کر رہے ہیں۔ یہ نام نہاد مخیر حضرات وہی ہیں جن کا سسٹم میں طبقاتی کردار عوام کا استحصال کرنا اور منافعہ خوری کرنا ہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments