کیا آفات کا سبب بے حیائی ہے؟



کورونا وائرس کے لئے عطیات جمع کرنے کے لئے ہونے والی ٹیلی تھان کے اختتام پر مولانا طارق جمیل کی دُعا میں ایک طرف تو پاکستانی عوام اور میڈیا پر جھوٹا ہونے کا الزام لگا اور دُوسری طرف مولانا نے ایک بار پھر کورونا سمیت تمام قدرتی آفات کی وجہ بے حیائی بتائی۔ پہلے مسئلے پر بہت سے لوگ بات کرچکے ہیں اور مولانا ایک ٹی وی شو میں میڈیا سے معافی بھی مانگ چکے ہیں۔ اس لئے اس موضوع پر مزید بات نہیں کی جاسکتی کہ انہوں نے صحافی برداری اور خاص طور پر پاکستانی عوام کو جن میں سے بہت سوں نے اپنے ووٹوں سے وزیر اعظم کو ’منتخب‘ کیا تھا، کن بنیادوں پر جھوٹا قرار دیا۔ لہٰذا زیرِ نظر تحریر کا مقصد ان کی دوسری قابلِ اعتراض بات یعنی قدرتی آفات اور بے حیائی کے مابین تعلق پر بات کرنا ہے۔

مولانا نے یہ پہلی بار نہیں کہا کہ ملک کے تمام مسائل اور خاص طور پر قدرتی آفات کی وجہ عریانی اور بے حیائی ہے۔ وہ اس ملک کے پہلے آدمی بھی نہیں ہیں جو مسائل اور آفات کی وجہ مسلسل بے حیائی بتا رہے ہیں۔ آفات ہوں یا مسائل، ہمیں ان سے نمٹنا ہے تاکہ ہم آفات اور مسائل دونوں سے بچے رہیں۔ مولانا اور ان جیسے لوگ جب ان کی وجہ بے حیائی بتاتے ہیں تو تنقیدی فکر نہ رکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد ان کی بات کو سچ مان لیتی ہے۔

ایسے میں بہت کم لوگ یہ اہم اور بنیادی نوعیت کے سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر کوئی ایسا سمجھتا ہے تو یہ دعویٰ کرنے والا پہلے فحاشی اور بے حیائی کی متفقہ علیہ تعریف متعین کرے کیونکہ یہ اصطلاح فی ذاتہ بہت حد تک مبہم اور موضوعی ہے۔ اس کے بعد وہ بے حیائی کا قدرتی آفات سے علتی رشتہ (causal relation) ثابت کرے۔ دوسرے لفظوں میں یہ ثابت کرے کہ بے حیائی اور آفات کے درمیان علت و معلول یعنی ’سبب اور نتیجہ‘ کا کوئی ایسا رشتہ موجود ہے جو ہنوز سائنسی علوم کی آنکھ سے اوجھل ہے۔

ہم اس ملک میں تنقیدی فکر رکھنے والے لوگوں کے اس تقاضے کو کچھ مثالوں کی مدد سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اگر کہیں دھواں اٹھ رہا ہوتا ہے تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ آگ لگی ہوئی ہے۔ اس مثال میں دھواں معلول یعنی نتیجہ یا اثر اور آگ علت یعنی وجہ یا سبب ہے۔ ہم گھر سے باہر نکلتے ہیں، زمین گیلی دکھائی دیتی ہے تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ بارش ہوئی ہے۔ یہاں گیلی زمین نتیجہ اور بارش سبب ہے۔ اس وقت تمام سائنسی علوم کی بنیاد اسی اصول پر ہے کہ ہر فطری واقعے کا ایک فطری سبب ہوتا ہے اور ہر نتیجے یا معلول کی علت یا سبب دریافت کرتے کرتے انسان ہی بہت سی بیماریوں کا علاج دریافت کرنے کے ساتھ آفات پر بھی قابو پاچکا ہے۔

ایسے میں اگر کوئی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ واقعہ ’ب‘ کا سبب واقعہ ’الف‘ ہے تو دعویٰ کرنے والے پر لازم ہوجاتا ہے کہ وہ واقعہ ’ب‘ اور ’الف‘ کے مابین سبب اور نتیجے کا تعلق حقائق اور قابلِ تصدیق و پیمائش شہادتوں کی مدد سے ثابت کرے اور اگر وہ ایسا نہیں کرسکتا تو اس کی رائے کو علم قرار دینا ایسی خطرناک غلطی ہے جو لاکھوں معصوم لوگوں کو گمراہ کر سکتی ہے اور ان کی جانوں کو ہلاکت میں ڈالنے کا سبب بن سکتی ہے۔

خطرناک اس لئے کیونکہ اس کی رائے کو درست سمجھ کر مسائل یا آفات سے اگر نہیں نمٹا جاسکتا تو ایسا شخص ہنگامی حالات میں لوگوں کا وقت ضائع کررہا ہے کیونکہ وائرس ہمیں غلطی کا کوئی موقع نہیں دے گا۔ اس لئے ہمیں جذباتی پن اور شخصیت پرستی کا شکار ہونے کی بجائے صرف یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ آفات ہوں یا مسائل، ہمیں ان سے نمٹنا ہے نہ کہ ان کی فرضی و غیر سائنسی وجوہات بیان کر کے جن سے کوئی فوری حل سامنے نہیں آتا، ان مسائل سے آنکھیں چرانی ہیں۔ ہم اس موقع پر شتر مرغ کی طرح ریت میں سر نہیں دبا سکتے کیونکہ یہ ہماری اور ہماری آئندہ نسلوں کی زندگیوں کا سوال ہے۔

اس لئے فحاشی اور بے حیائی کو آفات کی وجہ قرار دینے والے ہر شخص پر یہ علمی فریضہ بھی عائد ہوتا ہے کہ وہ یہ علمی و فکری اصول بھی ذہن میں رکھیں کہ دو واقعات کے درمیان حادثاتی ترتیب (correlation) ثابت کرنا کسی ایک واقعے کو دوسرے واقعے کا سبب ثابت کرنا ہرگز نہیں ہوتا۔ یہ علمی و فکری اصول ہے کہ واقعات کی حادثاتی ترتیب سبب اور نتیجے کا رشتہ ہرگز نہیں ہوتی۔

مثال کے طور پر زید جب بھی گھر سے باہر نکلتا ہے تو بارش ہوجاتی ہے۔ کیا ہم زید کے گھر سے نکلنے کو بارش کی وجہ قرار دے سکتے ہیں؟ اسی طرح اگر تاریخ میں کوئی ایک واقعہ پیش آیا تو اس کے بعد دُوسرا بھی پیش آیا تھا۔ کیا ہم پہلے واقعے کو دوسرے واقعے کی وجہ قرار دے سکتے ہیں؟ ان دونوں سوالات کا جواب نفی میں ہوگا کیونکہ علوم کی دنیا میں یہ اصول صدیوں سے طے پاچکا ہے کہ دو واقعات کے مابین محض حادثاتی ترتیب کی وجہ سے ایک کو دوسرے واقعے کا سبب نہیں مانا جاسکتا۔

ان اصول کی روشنی میں دیکھا جائے تو اس قسم کی کسی بھی شہادت کو منطقی و سائنسی شہادت نہیں کہا جاسکے گا کہ تاریخ کے فلاں دور میں بے حیائی تھی تو فلاں عذاب آیا تھا۔ اگر کوئی ایسا کہتا ہے تو وہ دو واقعات کے مابین حادثاتی ترتیب ثابت کرکے ایک کو سبب اور دُوسرے کو اثر یا نتیجہ قرار دے رہا ہے جو کہ غلط ہے۔ ایسا شخص دوسری غلطی یہ کررہا ہے کہ تاریخ میں ایک بار ہونے والے حادثے کو مستقل اصول اور دوسرے واقعے کی وجہ مان رہا ہے۔ ایسا دعویٰ کرنے والے کو یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ تاریخی واقعات ایسے واقعات کو کہتے ہیں جو زمان و مکان میں صرف ایک بار پیش آتے ہیں بار بار نہیں۔ اس سلسلے میں دنیائے علوم میں یہ اصول بالکل واضح ہے کہ :

Correlation is not causation!
مولانا اور ان کے ہمنو ا عام طور پر بے حیائی اور آفات کا باہمی تعلق ثابت کرنے کے لئے قومِ لوط کا واقعہ سناتے ہیں جس سے (معذرت کے ساتھ) یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایسے حضرات الہامی کتابوں میں ایسے واقعات پر صدیوں سے ہونے والی بنیادی علمی و فکری مباحث سے بھی بے خبر ہیں۔

مثال کے طور اسلامی متکلمین اور مفکرین کے نزدیک ایسے واقعات، جن سے بے حیائی کو آفات کی وجہ ہونے کی دلیل کشید کی جاتی ہے، تاریخی کی بجائے تمثیلی واقعات ہیں۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا میں قرآن میں موجود قصص پر این میری شمل کا مضمون یہ ظاہر کرتا ہے کہ معاصر مسلمان شارحین ان واقعات کو تاریخی واقعات کے طور پر نہیں دیکھ رہے۔ پاکستان اور ہندوستان میں بھی کئی ایسے علما گزرے ہیں جو انہیں تاریخی کی بجائے تمثیلی واقعات قرار دیتے تھے اور ان میں سرسید احمد خان اور اقبال بھی شامل ہیں۔

مثال کے طور پر اقبال ’آج بھی ہو جو براہیم سا ایماں پیدا‘ اور ’سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفیٰ سے مجھے‘ جیسے مشہور اشعار میں حضرت ابراہیم کے آگ میں گرائے جانے اور پیغمبر اسلام ﷺ کے معراج کو تمثیلی و علامتی معانوں میں لیتے ہیں۔ کیرن آرمسٹرانگ نے اپنی کتاب ’خدا کے لئے جنگ‘ میں ابراہیمی مذاہب کی ہزاروں سالہ تاریخی واقعات کی شہادت سے علما کی اس بنیادی غلطی کی خوب نشان دہی کی ہے کہ تمثیلی واقعات کو تاریخی واقعات قرار دینے والے اپنی مذہبی کتب میں موجود علامات کے نظام کو لفظ پرستی (Literalism) کی بھینٹ چڑھاتے رہے ہیں۔

سماجی سائنس اور مذاہب کے معاصر ماہرین کے نزدیک تمثیل کو تاریخ ماننے کی روش پہلے مسیحیت اور پھر اسلام میں بنیاد پرستی اور انتہا پسندی کی اہم وجہ قرار دی جارہی ہے کیونکہ جب بہتی ہوئی پیہم رواں علامات کے جامد معانی مقرر کرلیے جائیں تو علامت پتھرا جاتی ہے۔ علامت پتھرا جائے تو ماننے والوں کے رویوں میں لچک نہیں رہتی اور قلوب و اذہان سطح بین ہوجاتے ہیں۔ علامت کا کام بہاؤ ہے اور تمثیلی واقعات کو تاریخ سمجھ لینا علامت کا بہاؤ روک دیتا ہے، اگر یہ بہاؤ رُک جائے تو مذہب آگے نہیں بڑھ سکتا کیونکہ نئے ادوار میں اس کی نئی اور ممکنہ تشریحات کا چراغ ہمیشہ کے لئے گُل ہوجاتا ہے۔

کورونا وائرس پاکستان میں لاکھوں افراد کی جان لے سکتا ہے اور دانشوروں کے علاوہ مذہبی علما بھی کہہ رہے ہیں کہ وباؤں کی وجہ جاننا علمائے طب کا کام ہے، مذہبی علما کا نہیں۔ اگر پھر بھی مولانا کورونا کا سبب جاننے کا دعویٰ کرتے ہیں تو وقت ضائع کیے بغیر اپنے دعوے کے حق میں قابلِ تصدیق و پیمائش شہادتیں پیش کریں۔ اگر آفات کی وجہ واقعی بے حیائی ثابت ہوئی تو اس وقت پاکستان تو کیا پوُری دنیا ان سے بے حیائی کی تعریف پوچھ کر اس سے توبہ کرلے گی۔ اگر وہ ایسا نہیں کرسکتے تو ان موضوعات پر ان کی دائمی خاموشی کا حلف کئی لوگوں کی جان بچا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments