فہمیدہ ریاض کا ریڈیو پاکستان سے آخری انٹرویو (2)


  س۔ آپ نے سات سال کا طویل عرصہ ہندوستان میں جلا وطنی میں گذارا اور پھر بینظیر بھٹو کی شادی کے دن پاکستان واپس لوٹ کر آئیں تو واپسی پر کیسا ماحول پایا؟

ج۔ جب واپس آئی تو پھر ایک بہت لمبی کہانی ہے۔ بالکل ایک بڑا جوش تھا بڑا جذبہ تھا۔ ہمیں لگتا تھاکہ طویل جدوجہد کامیاب ہوئی ہے اور اب ملک میں ایک جمہوری دور شروع ہو رہا ہے اس زمانے میں نیشنل بک فاﺅنڈیشن ایک ادارہ ہوا کرتا تھا جس کا مجھے سربراہ بنایا گیا۔ تو دن رات محنت کر کے اس کے لئے کام کیا تھا میں نے اور اگر اپ کو یاد ہو گا جیسے بے نظیر صاحبہ کا پہلا جو دور تھا اس دور میں جو پریس تھاوہ ان کی بہت زیادہ Favourمیں نہیں تھا پریس کے اوپر ابھی پرانا کافی اثر تھا اس کے باوجود نیشنل بک فاﺅنڈیشن کے ایک کام کی تعریف میںDawn نے ایک ایڈیٹوریل لکھا تھا یہ مجھے اب تک یاد ہے۔ کیونکہ ہم نے بچوں سے Reviewکروایا تھا کمپیوٹر نیا نیا آیا تھا اردو سوفٹ وئیر بھی نیا نیا متعارف ہورہا تھا تو ان سب کے فروغ کے لئے کام کرنا اور جو بھی اس کےPartners ہو سکتے تھے جو کچھ کیا جا سکتا تھا اس کے لئے ہم نے کام کرنا شروع کیا۔

س۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں فوجی آمریت کے دور کو کس طرح دیکھتی ہیں ؟

ج۔ مشرف صاحب کے دورکے حوالے سے تو میں سمجھتی ہوں کہ پاکستان میں اب تک جتنے بھی ہیڈ آف سٹیٹ آئے ہیں ان میں سب سے بہترین انسان جنرل مشرف تھے وہ اور کیا کر سکتے تھے وہ تھیوری کے حساب سے صحیح نہیں تھے لیکن حقیقت میں بالکل صحیح۔ بس اس سے میرے دوست ناراض ہوتے ہیں۔ لیکن میں کیا کر سکتی ہوں؟۔ تو کیا اب میں دوستوں کو خوش کرنے کے لئے اپنے ضمیر کے خلاف بات کہنا شروع کر دوں؟۔ ایسا تو میں نہیں کر سکتی۔ لیکن یہی بات ہے دیکھئے جب ایوب خان آئے تو مجھے اب تک یاد ہے کہ لوگون نے ان کو بڑا ویلکم کیا تھا کیونکہ وہ ایک انتشار کے مقابلے میں Disciplined شعبے سے آئے تو عوام کا پہلا ردعمل جو ہوتا ہے وہ ا یک مثبت ردعمل ہوتا ہے اورAt the Same Timeیہ سچ ہے کہ وہ جس وقت آئے تویہ وہ زمانہ تھاجب مسلم ملکوں میں اور دوسرے غیر مسلم ملکوں میں بھی بعض قومی انقلابات جو تھے وہ عوام کو ایک اچھا سوشلسٹ سسٹم بھی دے رہے تھے۔ خیر انہوں نے سوشلسٹ سسٹم تو نہیں دیا تھا لیکن وہ اتاترک کی یادوں کا بھی زمانہ تھاکہ ایک نئی دنیا کا حصہ کیسے بنا جائے؟ تو یہ صرف نہیں تھا کہ انہوں نے صرف پاکستان میں صنعتی انقلاب کی بنیاد ڈالی کہ جس کی اس وقت ملک کو ضرورت تھی بلکہ اس وقت یہ ایوب خان ہی تھے جنہوں نے پاکستانی عورتوں کو عائلی قوانین دیئے جو اس وقت تک ترکی میں آچکے تھے۔ دوسرے مسلم ممالک میں آ چکے تھے تو ایک بہت پرانے قبائلی دور سے نکل کر یعنی Post Colonial دورجو تھا وہ شروع ہوا تھا یعنی کہ جوWestکے لوگوں نے قبضہ کر رکھا تھا ان ممالک پر وہ رخصت ہوئے تھے دوسری جنگِ عظیم ختم ہوئی تھی اب یہ نئے آزاد ممالک تھے اب ان کو ایک نئی دنیا کا حصہ بنانا تھا۔ تو اس میں عائلی قوانین بھی انہوں نے ختم کر دئیے تھے مگر ساتھ ساتھ یہ بھی ہے کہ انہوں نے یونورسٹی آرڈیننس بھی جاری کر دیا تھاجو بالکل ایسا تھا کہ اگر کوئی سٹوڈنٹ جو ہے وہ سیاست میں حصہ بھی لے گا تو اس کی ڈگریاں واپس تک لی جا سکیں گی لہٰذا یہ بات جو ان کے ذہن کی تھی کہ وہ پاکستانیوں کی جو ایک کھلی ڈلی سوچ تھی فکر تھی۔ خصوصاَ جو نوجوان نسل تھی کہ جو بہت بڑا سرمایہ اور اثاثہ ہوتی ہے کس بھی قوم کا تو اس کو یہ خاطر میں ہی نہیں لاتے تھے تو یہ سمجھتے تھے کہ ہر چیز جس طرح آپ فوج کو Disciplineسے چلاتے ہیں اس طرح سے آپ ایک پوری کی پوری سوسائٹی کو نہیں چلا سکتے ہں ڈسپلن سے ورنہ آپ اس کا گلا گھونٹ کر رکھ دیں گے۔ تو اس کے خلاف لوگ بالکل احتجاج کر رہے تھے اور اس کے Positive پہلو ابتدا میں تو تھے لیکن بعد میں تو ایک دم ان کا ذہن سیاسی نہیں تھا اور یہ پاکستان کو سمجھ نہیں سکتے تھے۔ اب جوایوب خان صاحب کی آٹو بائیو گرافی شائع ہوئی ہے جو ابھی چھپی ہے۔ آپ حیران رہ جاتے ہیں کہ بھئی یہ شخص مثلاَ اس وقت کا جو ایسٹ پاکستان تھا وہ ان کو کیا سمجھتے تھے بھئی وہی لوگ تھے جنہوں نے پاکستان بنایا تو آپ وہ سب بھول گئے کہ یہی لوگ تھے بنگالی تھے جو اب آپ کو نجانے کیسے نظر آ رہے ہیں؟ کالے نظر آ رہے ہیں؟ ہندو نظر آ رہے ہیں؟ ایک تو اگر وہاں ہندو تھے اور جب کہ ہمارے سندھ میں بھی وہ رہتے ہیں تو اس سے کیا مطلب فرق پڑتا ہے۔ پاکستان، قائد اعظم نے اور مسلم لیگ نے مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل بنایا تھا صرف مسلمانوں کے لئے تو ان کا کبھی آئیڈیا نہیں تھا اور کیسے ہو سکتا تھا کہ جب ایک کروڑ مسلمان جو ہیں آج بھی ہندوستان میں رہ رہے ہیں اور وہ یہاں پر نہیں لائے جا سکتے کوئی دس بیس لاکھ نہیں ہیں جن کوآپ لا کر بسا دیں۔ اب آپ دیکھئے کہ ان کا ذہن کس قسم کا تھا لہٰذا ان تمام چیزوں کے نتیجے میں ان کے خلاف جو ہے وہ کافی احتجاج شروع ہو گئے تھے اور ایک ملک نہ تو کوئی فیکٹری ہوتا ہے اور نہ کوئی آفس ہے۔ آپ اس کو آفس کی طرح بھی نہیں چلا سکتے۔ آپ اس کو فیکٹری کی طرح بھی نہیں چلا سکتے اور آپ اس کو بالکل آرمی کی طرح بھی نہیں چلا سکتے بلکہ یہ تو بہت ہی مختلف قسم کی اکائیوں کا ایک مجموعہ ہے جس میں سب کے Interest کا آپ کو خیال رکھنا ہے۔ اور سب کو ساتھ لے کر چلنا ہے تو یہ ایک ایسی چیز ہے جس کے لئے آپ بہت ہی ڈسپلینیرین صرف ہو کر رہیں۔ تو آپ ایسا کر نہیں پائیں گے۔ اور صرف اکانومی ہی کافی نہیں ہوتی ہے سیاست کافی ہوتی ہے نیشن بلڈنگ اور Capacity بلڈنگ ہونی چاہیئے اس میں بھیUps and Down آتے رہتے ہیں اور آ سکتے ہیں لیکن بہر حال تو ہم اس وقت کالج میں پڑھتے تھے اور بی۔ اے میں پہنچ چکے تھے تب تک تو ہم لوگWe Became Part Of The Movement یہ بھی اسٹوڈنٹس نے شروع کی تھی۔ کراچی سے شروع ہوئی تھی اور پھر سارے ملک میں پھیلتی چلی گئی تھی اور پھر کچھ سیاسی جماعتوں نے بھی اس کا ساتھ دیا تھا۔

س۔ آپ اردو ڈکشنری بورڈ کی مینیجنگ ڈائریکٹر بھی رہیں، یہ تجربہ کیسا رہا؟

ج۔ کیا بتاؤں کہ یہ کس قدر درد ناک افسوسناک پورے کا پورا میرے لئے تجربہ تھا۔ ماضی مین اردو ڈکشنری بورڈ جس طرح لوگوں نے چلایا تھا مثلاَ بابائے اردو مولوی عبدالحق اور بہت بڑے بڑے نام تھے اور بے شک تھے لیکن ہم جس طرح کے تخلیقی ادب میں حصہ لے رہے ہیں وہ ان سے بھی بالکل ایک دوسری دنیا تھی نا۔ مولاناؤں کی دنیا جسے کہنا چاہیئے لیکنAt The Same Timeیہ ایک بہت ہی نظر انداز کیا ہوا Neglectedادارہ تھا اس کے لوگ پچیس پچیس تیس تیس سال سے کوئی پانچویں گریڈ میں ہے تو پانچویں گریڈ میں ہی بیٹھا تھا کوئی آٹھویں گریڈ میں ہے تو اس سے آگے نہیں بڑھا تھا یعنی کہ اتنے معلق ہیں۔ پھر جب اسلام آبادشفٹ کیا گیاCapital  تو یہ بھی ایک کیونکہ وفاق کا ادارہ تھا پہلے کراچی تھا ملک کا دارالسطنت لیکن اب اس کو ایوب خان لے آئے اسلام آباد تو اردوڈکشنری بورڈ کو بھی اسلام آباد لانے کو پہلے سوچا گیا تھا لیکن کراچی کے لوگوں نے اس پر احتجاج کیا تھا کیونکہ اس سے ان کی بڑی یادیں وابستہ تھیں اور وہ تحریکِ پاکستان کا ایک اہم حصہ بنی تھی اور مولوی عبدالحق جو تھے اردو کے وہ تقسیم سے قبل سے ہی دلی سے اس کو چلا رہے تھے سارے کے سارے تو بقیہ ڈکشنری جو ہے وہ بھی وہیں سے شروع کی تھی انہوں نے ایک وقت میں اور اس کا دفتر جلا دیا گیا تھا 1947ء کےRiots  میں اس کا جو دلی کا دفتر تھا وہ جلا دیا گیا تھا پھر اس بات پر مولانا ابوالکلام آزاد نے یہ کہا تھا ان سے کہ بھائی تو اب جا۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے یہ بھی کہا تھا کہ اب آپ پاکستان جائیے اور یہاں ہندوستان میں اردو کی بات اب نہ کیجیئے گا۔ اور آپ یہ جو کچھ بچ گیا تھا جو جلی ہوئی کتابیں وہ بھی ساتھ لے جائیے۔ انہوں نے جو خزانہ جمع کیا تھا قدیم کتابوں کا جن میں کوئی بھیWritten چیز تھی اس کو جمع کیا تھا تو اس کو لے کر مولوی عبدالحق کراچی آ گئے تھےshipکے ذریعے کتابوں کو بکسوں میں بند کر کے۔ تو یہاں پر دوبارہ سے انہوں نے پھر شروع کی تھی اپنی نئی زندگی۔ لیکن ان کے انتقال کے بعد پھر یہ ادارہ بہت ہی Neglected  رہا تھا۔ ایک بڑا زبردست کام جو انہوں نے شروع کیا تھا ڈکشنری کا جس کی Methodology ساری کی ساری جو ہے نا جس کو آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایکHistorical طریقہ ہے Historical Perspectiveکے ساتھ ڈکشنری بنانے کا جس میں یہ حقیقت ہے کہ سوائے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی جو Earliest  گریٹرآکسفورڈ یونیورسٹی تھی یا لوگ کہتے تھے کہ شائد جرمن میں اس طرح کا ذخیرہ الفاظ کا جمع کیا گیا تھا تو اس انداز میں یہ پاکستان میں کیا جانے والا ایک Brilliant انتہائی شانداراور ایک منفرد کام ہے جس کا چونکہ انہوں نے Mathodبنا لیا تھا۔ تو ان کے انتقال کے بعد بھی اسیMathod  پر چلتے رہے اور بہت سے لوگ اس کے ساتھ وابستہ رہے لیکن اس کے باوجود اس کا یہ حال تھا اس کا عملہ جو تھا اس کے اندر جن لوگوں کو شامل کیا جانا تھا یا جو نیا عملہ آنا تھا ان کی کوئی Training نہیں تھی کچھ بھی نہیں تھا اور سب سے افسوس ناک بات یہی تھی کہ ان کے سامنے کچھ بھی نہیں تھا اگر آپ پچیس سال تک ایک گریڈ میں پڑے رہیں آپ کے سامنے ترقی کا کوئی بھی راستہ نہ ہو۔ تو آپ کے پا س پھر کیا ہو گا تو یہ ہی ہوگا۔ کہ بس آپ وہاں پر آئیں گے تو مگر پھر آپ کام تو کہیں اور کرنا شروع کر دیں گے وہی ہو رہا تھا وہاں پر۔ تو اس کے لئے میں نے کوشش کی سترہ لوگوں کو پروموٹ کروایا۔ اور اس پر میں اپنے آپ کو اب بھی شاباش دیتی ہوں کبھی کبھی۔ کہ یہ کتنا کام کیا تھا۔ پنشنرز کا تو یہ حال ہو چکا تھا کہ اسلام آباد میں لوگ منع کرتے تھے انہوں نے کہا کہ اس قسم کا کوئی ادارہ وجود نہیں رکھتا۔ ہمارے پاس اس کی رجسٹریشن نہیں ہے غائب ہو گئی ہے۔ تو میں بڑی حیران ہوئی میں نے کہا دیکھئے ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ ہر سال تو بجٹ بھیجتے ہیں جتنا کچھ بھی بھیجتے ہیں بھیج تو دیتے ہیں۔ جبکہ آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ ہے ہی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ نہیں ہے۔ یہ سننا ایک ایسا تھا کہ جیسا کہ میں کوئی  Surrealist Dramaدیکھ رہی ہوں یعنی یہ کہہ رہے ہیں ”کہ ہر چند کہ ہے کہ نہیں ہے“ تو انہوں نے کہا کہ ہمیں کسی نے خط نہیں بھیجا ابھی تک کہ آپ بجٹ بھیجنا بند کر دیں اس لئے ہم آپ لوگوں کو بجٹ بھیجتے رہتے ہیں اس طرح سے کہا بلکہ میں نے یہ پوری داستان ایک لکھی بھی ہے اور یہ چھپی بھی ہے۔ ”دنیا زاد “میں یہ شائع ہوئی اچھا پھر جب میں نے اس ادارے کوJoinکیا تو پتہ چلا کہ اب یہ اس کو ختم کر رہے ہیں۔ یعنی میری Appointmentکے چند ہفتوں میں جو ہے مجھے یہ پتہ چلا کہ اس کو ختم کیا جانا مقصود ہے اور اس کی جو بلڈنگ ہے کیونکہ اس کی ایک اپنی ذاتی عمارت موجود ہے اس کو کسی اور کام میں لے آیا جائے یا کوئی گیسٹ ہاؤس بنا دیں ایسا کچھ سننے میں آنے لگا۔ تو تین آدمی تو آنے والے تھے اس کو ختم کرنے کے لئے۔ تو پھر میں نے کہا کہ اللّہ میں کیا کروں ٹھیک ہے پھر سے ذمہ داری مجھ پر آ پڑی۔ بھئی واقعی میں یہ تو ایک بڑا اہم ادارہ ہے اگرچہ  Neglectedتو بہت ہے اور اس کا بجٹ بھی کچھ نہیں ہے۔ لیکن اس سے کیا ہوتا ہے۔ دیکھئے نا اہمیت تو ہے نا کہ جو کتابوں کے اتنے سارےVolumesبھی چھپ چکے ہیں جیسے تیسے تو پھر بس میں کراچی میں دوڑی بھاگی ہر ایک کے پاس گئی میں نے کہا بھائی آپ خود یہ دیکھئے اور روکئے ایک جگہ ڈکشنری Completeہوجائے گی وہ آخری والیم تھا۔ جو میں بنوا رہی تھی اور میریSupervision میں بن گیا۔ تو یہ میں نے وہاں پر کیا اور ا س کے بعد یہ دوسراContract تھا جو ختم ہو گیا میں نے سترہ افراد کو مستقل کرایا ان کی پنشن بھی جاری کروائی جو بھی میں کر سکتی تھی۔

س۔ آپ نے سندھی ادب کا بھی اردو میں ترجمہ کیا جس کو پڑھنے کے بعد ہمیشہ اصل کا ہی گماں ہوتا ہے، اس کا کیا راز ہے؟

ج۔ دیکھئے میں نے سندھی میں تو نہیں لکھا مگر یہ کہ سندھی سے ترجمہ کیا تھا وہ تو ایسا لگا کہ ایک لڑکی لکھ رہی ہے اور سندھی لڑکی لکھ رہی ہے فوراَ اور بڑی پیاری اور صاف صاف باتیں اس کی نظر آئیں تو بالکل میں نے وہ ترجمہ کیا۔ لیکن شیخ ایاز کا بڑا کام تھااس کے بعد پھر میں نے ترجمہ کیا ہے۔ شاہ عبدالطیف بھٹائی کا اور وہ مگر انگریزی میں ہے تو ا ن کا مجھے انگریزی میں ہی کرنے کو ملا تھا تو وہ ابھی چھپنے کے مراحل میں ہے۔ مطلب اس کا مسودہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کو میں نے دیا ہے۔ میں وہاں پر جا کر بیٹھتی ہوں تو یہ چھپ جائے تو یہ میں سمجھتی ہوں کہ سندھی کا ایک بہت ہی خوبصورت اور ایک بڑا ایک Intenseقسم کا ایک تجربہ تھا یہ شاہ عبدالطیف بھٹائی کا ترجمہ چونکہ یہ ڈھائی سو سال پرانی سندھی ہے۔

س۔۔ آپ نے بڑی بھرپور ادبی اور سیاسی زندگی بسر کی ہے اس حوالے سے کبھی اپنی یادداشتیں مرتب کرنے کا خیال آیا؟

ج۔ سجاد مجھے اپنی Memoirsلکھنے میں کبھی رغبت ہوئی نہیں۔ میں سمجھتی ہوں شائد ایک یہ بھی کہ میں اتنیEngageرہتی ہوں چیزوں کو کرنے میں مستقل اب تک۔ لیکن جو میری نظمیں جو میری کہانیاں ہیں جو میں لکھتی رہتی ہوں حتٰی کہ میں تو ان میں ترجمے بھی شامل کر دوں وہی میری زندگی کی کہانیاں ہیں میری زندگی کی کہانی تو وہی ہے کیونکہ دیکھئے اس کے لئے اگر آپ واقعی سنجیدگی سے بیٹھ کر لکھنا شروع کریں اپنی Autobiographyاپنی آپ بیتی تو اس کے لئے پھر آپ کو بہت ساوقت چاہیئے۔ تو وہ شاید مجھے ملا نہیں ہے کیونکہ میں مصروف رہتی ہوں۔ اب تو گذشتہ ایک دو برس سے مثلاَ میں سوشل میڈیا پر کافی لکھتی رہتی ہوں جو کچھ میں اخباروں نہیں بھیج سکی وہ میں نے اس کے اوپر لکھنا شروع کر دیا تو ایسے حالات رہتے نہیں ہیں یہاں پر کہ جیسے کہ آدمی بیٹھ گیا آرام سے اور سوچنے لگا کہ اچھا چلو ٹھیک ہے ہم آرام کریں گے اور اپنی اپنی پسند کا کوئی کام کریں گے اب تو وہ کام بن نہیں پا رہا ہے۔ اب ایسا ہونا نہیں چاہیئے تھا۔ میں سمجھتی ہوں کہ اب میں زندگی کے اس مقام ہر ہوں نواسے نواسیاں بڑے ہو رہے ہیں تو اس وقت تو ایسا بالکل ہونا چاہیئے تھا کہ اب ہم آرام سے بیٹھ کر لکھیں یا سوچیں اور لکھیں لیکن اس طرح کا موقع بہت کم نظر آ رہا ہے اب تو پاکستان ایک بہت عجیب دور میں چلا گیا یہاں پر ہر روز ہی کوئی ایسی چیز ہو جاتی ہے جو آپ کو پکڑ کر جھنجھوڑ ڈالے اور آپ خود اس کے اوپر سوچنے لگیں اور صرف لکھنے کے لئے نہیں بلکہ کچھ کرنے کے لئے بھی اس پر لوگوں کو آمادہ کرنا شروع کریں۔ میرا جو آخری مجموعہ تھا ” آدمی کی زندگی“ یہ ” آج “ مکتبہ جو ہے اجمل کمال صاحب کا تو انہوں نے یہ شائع کیا اور اس کے بعد سے بلکہ 2000 ء تک کی جو میری شاعری ہے وہ اب آ گئی ہے ”سب لعل و گہر “ کے نام سے سنگِ میل سے چھپی ہے اب مجھے فرصت نہیں ملتی کہ میں تھوڑا وقت دے سکوں کیونکہ دیکھئے، مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں اپنی محنت سے روزی روٹی کماتی ہوں میں ایک ملازمت پیشہ عورت ہوں۔ جیسا کہ ہوتے ہیں لکھنے والے ادیب ہمارے۔ جو کوئی جاگیردار یا سرمایہ دار نہیں ہوتے نہ ان کو پیچھے سے اتنے پیسے آ رہے ہوتے ہیں۔ لیکن میری زندگی ایسی نہیں ہے اس میں پنشن کا کوئی سوال نہیں تھا اس طرح کی نہیں تھی نا۔ یہ ایک سیاسی طور پر Engaged Life رہی ہے جس میں کبھی آپ کو اُٹھا کر پھینک دیا گیا۔ کبھیUps and Downبھی رہے ہیں تو اس میں کوئی پنشن تو ہے نہیں لہٰذا وہی آج بھی کرنا ہے یعنی وہی کنواں آج بھی کھودنا ہے اور اس میں سے پانی بھی نکالنا ہے تو اتنا ٹائم مجھے ملتا نہیں ہے کہ میں جمع کر لوں اپنی چیزیں۔

سجاد پرویز

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سجاد پرویز

سجاد پرویز ڈپٹی کنٹرولر نیوز، ریڈیو پاکستان بہاولپور ہیں۔ ان سےcajjadparvez@gmail.com پر بھی رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

sajjadpervaiz has 38 posts and counting.See all posts by sajjadpervaiz

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments