یقین کو رہائی کب ملے گی؟


مغرب کے صوفی شاعر، ولیم بلیک نے کہا تھا کہ اگر سورج اور چاند لمحہ بھر کے لئے شک کریں تو تاریک ہو جائیں۔ گویا شک اتنا سیاہ اثر عامل ہے۔ ہمارے شاعر نے بھی “تہذیب حاضر کے گرفتار” کو متنبہ کر دیا تھا کہ “غلامی سے بدتر ہے بے یقینی”۔ اور صاحب ہم تو ویسے بھی غلامی سے بدکتے ہیں کہ بڑی مشکلوں سے آزادی حاصل کی تھی۔ اس بات کا یقین نصابی کتب دلا چکی ہیں کہ قائدین نے بے پناہ محنت کی تھی۔ استعمار کو للکارا تھا تو کہیں جا کر آزادی کا سورج طلوع ہوا تھا۔ چنانچہ شک کی گنجائش نہیں۔ قوم نے بات پلے باندھ لی۔ یقیں محکم کے ساتھ کوہکن میدان میں ہے۔ تیشے بغیر مرنے کا نام نہیں لیتا۔

وطنِ عزیزمیں یقین کی اس دولت کی ارزانی ہے ۔ الحمدوللہ۔ بے یقینی کی گنجائش نہیں۔ حالیہ کورونا بحران لے لیجیے۔ جب چین سے خبریں آنے لگیں تو یقین کی پہلی برکھا برسی کہ امریکہ نے حیاتیاتی جنگ مسلط کردی ہے۔ کوویڈ انیس (ایک کم بیس) ہم سے بالا ہی بالا اٹلی کی طرف لپکا، کشتوں کے پشتے لگاتا سپین اور یورپ کے دوسرے شہروں کو تاراج کرنے لگا۔ پھر ایک دن ٹرمپ کے دیس جا دھمکا۔ کہا گیا کہ مغربی ترقی کو سبق سکھانے کا موقع آ چکا۔ اعدادوشمار کے بڑھنے سے یقین کا گراف بھی بڑھنے لگا۔

اس دوران تافتان سے ہمیں بھی کچھ آہٹ ہوئی۔ لیجیے، بے حیائی کے خاتمے کی نوید سے گلشن کا کاروبار چلنے لگا ۔ لیکن یہ ماضی ہے۔ آج کل لاک ڈائون، جو “ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے”، کے دوران باہر جانا پڑے تو آپ کو دلیل آمیز سرگوشی سنائی دے گی۔” یہ سب میڈیا پر ہے، آپ نے اپنی آنکھوں سے کورونا سے کسی کو مرتے دیکھا ہے؟” جواب دینے کا خطرہ مول نہ لیں اور آگے بڑھ جائیں۔ فضا ایک اور نعرے سے لبریز ہے کہ “جو مرضی سازشیں کر لیں، کبھی قبضہ نہیں کرسکیں گے” ۔ اگر استفسار کریں کہ کہاں؟ تو جارحانہ مسکراہٹ بہت کچھ سمجھا دیتی ہے۔

یقین کی کمی نہیں، بنیادی مسئلہ البتہ موجود ہے۔ یہ دولت سب نے اپنے اپنے توشہ خانے میں رکھی ہوئی ہے ۔ اس میں کوئی حرج نہیں ۔ مصیبت یہ ہے کہ ہر کوئی بزورِ بازو سخاوت پر کمر بستہ ہے۔ یوسفی صاحب نے کہا کہ ہنر مند کے ہاتھ میں اوزار بھی ہتھیار بن جاتا ہے۔ درست، لیکن اگر ہتھیار ہی اوزار ہو تو؟ اسداللہ خان قیامت ہے۔

ہمارے ہاں خبروں کے اصل ذرائع وہ نہیں جو وزن رکھتے ہیں اور جگہ گھیرتے ہیں۔ نہیں، فضا میں غیر مرئی ارتعاش متبادل میڈیا ہے۔ اس کی بات سنی، سمجھی اور مانی جاتی ہے۔ یہ ارتعاش جذباتی تاروں کو چھیڑنے سے پیدا ہوتا ہے۔ روایتی میڈیا کا غالب حصہ صرف تار کسنے کا کام کرتا ہے ۔ ساز اور آواز کسی اور کی ہے۔ از کجا می آید ایں آوازِدوست ۔ فکری طور پر ہمارا نظام تعلیم تجزیہ کرنے کی بجائے تسلیم کرنا سکھاتا ہے یا رد کرنا۔ درمیان کا ہر راستہ سازش کی گھاٹی میں جا اترتا ہے۔

مغربی دنیا اس دولت سے تہی داماں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ تحقیق اور جستجو کرنے لگ جاتے ہیں۔ کورونا وائرس نے سر کیا اُٹھایا، لیبارٹریوں نے صف بندی کرلی۔ وائرس کو کھنگالا جانے لگا۔ چمگادڑ کا کھرا ناپا گیا۔ وائرس کے ڈی این اے میں ہونے والی کسی ممکنہ تبدیلی کی بو سونگھی جانے لگی۔ کچھ دیر کی ہی بات ہے ، وبا کا علاج دریافت ہوجائے گا، بالکل جس طرح اس سے پہلی وبائوں کا تدارک ہوا تھا ۔ انسان لڑنے کی  بے پناہ سکت رکھتا ہے ۔ اس سے بھی لڑ لے گا۔ اس لڑائی کا سب سے اہم ہتھیار تحقیق ہے ، اور تحقیق کے لیے پہلے سے طے شدہ حقائق سے آگے بڑھنا ضروری ہے۔

غالباً رسل نے کہا تھا کہ اس دنیا میں احمق یقین کی دولت سے مالا ہیں، جبکہ ذہین لوگ شک کرتے ہیں ۔ تو کیا ہر چیز پر شک کیا جائے تو عقل کی گرہ کھلے گی؟ نہیں، اس سے صرف فکری انتشار جنم لے گا۔ جدید تعلیم نے شک کرنے اور سوال اٹھانے کے کچھ اصول وضوابط طے کئے ہیں۔

موجودہ بحران نے جہاں انسانوں کو ماحولیاتی آلودگی کم کرنے، اشیائے خوردونوش کے پیمانے پرکھنے اور سمارٹ زندگی بسر کرنے کی راہ دکھائی ہے، ہمیں بھی قدرت نے موقع دیا ہے کہ اپنے نظام تعلیم کا از سرِنو جائزہ لیں ۔ یقین اپنے اپنے پاس رکھیں، اجتماعی دانش کو سوچنے دیں۔ دانائوں نے مہذب انسان کی ایک پہچان یہ بھی بتائی ہے کہ وہ جس چیز کو سمجھ نہیں سکتا، اُسے یک لخت مسترد نہیں کر دیتا۔ سمجھنے کی کوشش کرتا ہے ۔ نہ بھی سمجھ میں آئے تو کسی ٹھوس دلیل کے بغیر رد نہیں کرتا۔ اور ہاں، اُس کا یقین بغیر باڑ کے دالان ہوتا ہے ۔ سرسبز و شاداب؛ کھلا اور وسیع۔ لیکن ہمارے ہاں یہ آہنی دیواروں میں قید کا نام ہے ۔ اس سے رہائی کب ہوگی اور کیسے ہو گی؟ یہی ہمارے سامنے سب سے بڑا سوال ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments