حکمرانوں کی خوش اعتقادی


وزیر اعظم عمران خان کی احساس ٹیلی تھون اس لحاظ سے تو کامیاب رہی کہ خان صاحب کی اپیل پر 55 کروڑروپے چندہ جمع ہو گیا۔ اس موقع پر قریباًتمام بڑے بڑے چینلز کے اینکرز کو مدعو کیا گیا تھا۔ لیکن اس سارے نیک مقصد کو مولانا طارق جمیل جنہیں نجیب الطرفین عالم اور مبلغ کہا جا سکتا ہے کی کچھ چینلز پر آمد اور ان کے بعض ریمارکس نے متنازعہ بنا دیا۔ مولانا اپنی خوش گفتاری جسے ناقدین چرب زبانی کہتے ہیں، کے حوالے سے خاصے معروف ہیں، وہ قریباً ہر چینل پراپنے فہم وفراست کے موتی بکھیررہے ہوتے ہیں۔

حکمرانوں، طاقتوروں اور بڑے لوگوں سے قربت رکھتے ہیں۔ وہ چودھری برادران کے بھی خاصے قریب ہیں، میاں نواز شریف سے ان کے تعلقات کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی اہلیہ محترمہ کلثوم نواز کی نمازجنازہ انہوں نے ہی پڑھائی تھی۔ عمران خان کے اقتدار میں آنے کے بعد جس اندازسے وہ ان کے حلقہ بگوش ہوئے ہیں اس کی مثال بھی کم ہی ملتی ہے لہٰذا اگر یہ کہا جائے کہ وہ شاہوں کے قرب پانے والے مولوی کا روپ دھار چکے ہیں تو غلط نہ ہو گا۔

موصوف رقت آمیز لہجے میں دعا کرانے کے ماہر ہیں۔ ماضی کے حکمران خو اہ وہ باوردی ہو یا سویلین اقتدار میں آکر حسب توفیق کسی نہ کسی کو مرشد مان کران کی مالا جپنا شروع کر دیتے تھے لیکن یہ شاید پاکستان کی تاریخ میں پہلا موقع تھا کہ ایک ایسے عالم کو باقاعدہ ایک میڈیا ایونٹ میں مدعو کر کے دعا کرائی گئی ہو۔ معاملہ اگر دعا تک ہی رہتا تو ٹھیک تھا لیکن خود مولانا طارق جمیل کے مطابق ان کی زبان پھسل گئی اورانہوں نے میڈیا کو جھوٹا قرار دے دیا۔

وزیر اعظم آپ اکیلے ہیں، دیا نتدار ہیں، عمران خان کو اجڑا ہوا چمن ملا کہاں تک آباد کرے گا۔ اللہ تعالیٰ ان کی مد د فرمائے، میڈیاپر بھی جھوٹ بولا جاتا ہے۔ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ایک میڈیا مالک نے ان سے رازدارانہ طور پر شیئر کیا کہ ہم جھوٹ نشر نہ کریں تو ہمارا کاروبار کیسے آگے چل سکتا ہے۔ اب مولانانے اپنے یہ الفاظ تو واپس لے لیے ہیں لیکن وہ بتانے سے انکاری ہیں آخر وہ کون سا میڈیا مالک تھا جس کی طرف انہوں نے اشارہ کیا تھا۔

میڈیا کا اپنا حال اتنا پتلا ہے کہ وہاں موجود کسی اینکر کو توفیق نہیں ہوئی کہ وہ احتجاج کرتا۔ مولانا نے یہ بھی فرمایا کہ خواتین کے عریاں لباس کی وجہ سے پاکستان پر یہ عذاب نازل ہوا ہے لہٰذا اب مسا جد میں جا کر ہمیں اللہ سے گڑگڑا کر معافی مانگنی چاہیے۔ مولانا کے ان ریمارکس پر خواتین کی تنظیمیں بھی سیخ پا ہیں لیکن انہوں نے اپنے الفاظ واپس نہیں لیے۔ وزیراعظم نے مولانا کو ان کے منفی ریمارکس پر نہیں ٹوکا چونکہ وہ خود بھی میڈیا کے بارے میں اسی قسم کے خیالات رکھتے ہیں۔

ٹیلی تھون سے اگلے ہی روز یو ٹیوب چینل کے حوالے سے ایک تقریب میں انہوں نے کہاہالی ووڈ اور بالی ووڈ فحاشی پھیلا رہے ہیں اور یہ فحاشی خاندانی نظام کو تباہ کر رہی ہے۔ وزیر اعظم نے مزید کہاماضی میں میڈیا کو کرپشن کے دفاع کے لیے ڈھال بنایا گیا، پلانٹڈ پروگرامز کے لیے پیسہ خرچ کیا گیا۔ گویا کہ جو میڈیا پر سنز خان صاحب پر تنقید کرتے ہیں وہ سب لفافہ خور ہیں، یعنی جو صحافی ان کی شان میں قصیدے لکھیں اور تعریف کے ڈونگرے برسائیں وہ سب ایماندارلیکن جو تنقید کریں وہ کرپٹ۔

مجھے یاد ہے وطن عزیز میں جب جنرل ایوب خان نے اقتدار سنبھالا تو وہ جلد ہی پیر آف دیول شریف کے معتقد ہو گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو توہم پرستی اور پیری فقیری کے چکروں میں نہیں پڑے لیکن جنرل ضیاء الحق جنہوں نے گیارہ برس پاکستان پر بلا شرکت غیرے حکومت کی، خود پیر تسمہ پاتھے۔ انھوں نے علماء مشائح کو وہ مقام دیا جو انھیں پاکستان کی تاریخ میں پہلے کبھی حاصل نہ تھا، اس لیے یہ انتہائی با اثر طبقہ ضیاء الحق کی لابی بن گیا۔

جہاں تک میاں نواز شریف کا تعلق ہے وہ تو اس معاملے میں اپنے مربی ضیاء الحق کے پیروکا رتھے۔ ڈاکٹر طاہر القادری جن سے بعد میں اختلاف پیدا ہو گئے ان کے والد میاں محمد شریف کی دریافت تھے جو انھیں شادمان مسجد سے اٹھا کر اتفاق مسجد کے خطیب کے طور پر لے گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے طاہرالقادری کو منہاج القرآن جیسے اداروں کے لیے ایکڑوں پر محیط قیمتی ترین زمین الاٹ کر دی گئی یہیں سے طاہر القادری شہرت کی بلندیوں پر پہنچے پھر وہ دن آیا جب ڈاکٹر صاحب یہ گیت گنگاتے ہوئے رخصت ہو گئے ہم چھوڑ چلے ہیں محفل کو، یاد آئے کبھی تو مت رونا۔

لیکن جب تک میاں نواز شریف کے ساتھ رہے انھیں بلندرتبہ حاصل رہا۔ میاں محمد شریف اوران کے تینوں بیٹے ہر جمعہ کو قادری صاحب کے حجرے میں حاضری دیتے تھے۔ ان سے پہلے شریف فیملی کا بہت قریبی تعلق مفتی محمد حسین نعیمی مرحوم کے ساتھ تھا۔ رائے ونڈ میں تبلیغی جماعت کا مرکز سینکڑوں ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہاں حال ہی میں ہونے والا اجتماع ملک بھر میں کورونا وباپھیلانے کا موجب بنا۔ شریف برادران باقاعدگی سے تبلیغی اجتماع میں شرکت کرتے تھے۔

ایک پیر صاحب کا تعلق مانسہرہ کے نو احی گاؤں دھنکا سے تھا جو چھڑیاں مارنے کے حوالے سے مشہور تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو بھی روشن خیال خاتون ہونے کے باوجود پیری فقیری میں گہری دلچسپی رکھتی تھیں وہ بھی دھنکا شریف حاضر ہوتی تھیں۔ ایک مصدقہ روایت کے مطابق جب ضیا ء الحق کے دورآمریت میں اپوزیشن میں تھیں تو وہ چٹا گانگ کے ایک نجومی کی شہرت سن کر ان کے پاس گئیں۔ انھوں نے پیر صاحب سے پوچھاکہ وہ کب اقتدار میں آئیں گی تو پیر صاحب نے عجیب جواب دیا کہ جب آم پھٹیں گے آپ اقتدار میں آئیں گی، ایسا ہی ہوا، 17 اگست 1988 ء کوجنرل ضیا ء الحق جس سی 130 طیارے حادثے میں جاں بحق ہوئے اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آموں کی پیٹیوں میں دھماکہ خیز مواد رکھا تھا جو بہاولپور سے طیارہ اڑنے کے تھوڑی دیر بعد ہی پھٹ گیا۔

ایچی سن کالج لاہورسے فارغ التحصیل جنوبی پنجاب کے زمیندار جہانگیر ابراہیم بھی بے نظیر بھٹو کے روحانی مشیر بن گئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو وزیراعظم بن کرکئی مرتبہ بری امام حاضری دیتی تھیں۔ آصف زرداری کے بھی قریب ایک پیر نما شخصیت تھی جو پیر اعجاز کہلاتی تھیں لیکن بعدازاں دونوں کے درمیان فاصلے بڑھ گئے۔ اگرچہ میاں نواز شریف نے اپنے پیروں اور مرشدوں کی میڈیا کے سامنے رونمائی نہیں کی لیکن کابینہ کے ارکان کو ان سے نصیحتیں کروایا کرتے تھے، 1999 ء میں اقتدار کے خاتمے سے چند ہفتے قبل سیالکوٹ سے ایک پیر صاحب جو گھیروی کپڑوں میں ملبوس ایک معاون کو ساتھ رکھتے تھے اس کے پاس منرل واٹر کی دو دم شدہ بوتلیں ہوتی تھیں سے ملاقات کی۔

میاں صاحب ان کی باتوں سے بہت متاثر ہوئے اور کہا کہ کا بینہ کا اجلاس ہونے والاہے آپ کابینہ کو نصیحتیں کریں۔ پیر صاحب کے ساتھی نے شکایت کی کہ فلموں اور ڈراموں میں فحاشی بہت بڑھ گئی ہے جس پر انھوں نے پرنسپل سیکرٹری سعید مہدی کو حکم صادر کیا کہ ان کوسنسر بورڈ کا چیئرمین بنا دیں، بعدمیں سعید مہدی نے میاں صاحب سے مودبانہ گزارش کی کہ یہ شخص توان پڑھ ہے تو میاں صاحب نے سختی سے کہا آپ اس کا نوٹیفکیشن کریں ورنہ آپ کا نوٹیفکیشن جاری ہوجائے گا۔

یہ الگ بات ہے کہ اس سے پہلے ہی میاں صاحب کی اپنی چھٹی کا نوٹیفیکیشن ہو گیا۔ خان صاحب بھی اپنے پیشروؤں سے زیادہ مختلف ثابت نہیں ہوئے، وہ درگاہوں پر حاضری دینے کو سکون سمجھتے ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے حکمران اتنے خوش عقیدہ کیوں ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے چونکہ پاکستان میں سویلین حکمران اپنے اقتدار کے حوالے سے ہمیشہ غیر یقینی صورتحال کا شکار رہتے ہیں لہٰذا وہ دعا کرانے کے علاوہ مستقبل کو پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستانی عوام کی خاصی اکثریت انہی باتوں پر اعتقاد کھتی ہے لہٰذا حکمران یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اپنے عقائد ونظریات کے بارے میں اسی طرح سوچتے ہیں۔
بشکریہ روزنامہ 92۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments