لیلی بعلبکی غیر محفوظ دنیا میں بچے کو جنم نہیں دے گی


میرے خیال سے لبنانی ناول نگار لیلی بعلبکی نے کہا تھا ”میں بچوں سے بہت پیار کرتی ہوں۔ اس لیے میں نے اپنی کوکھ سے کسی بچے کو جنم نا دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ کیوں میں میں نہیں چاہتی کہ میرا بچہ اس دنیا میں آئے جو دنیا بہت غیر محفوظ ہے“ دنیا کو بھلے لیلی بعلبکی اس سماج سے تنگ ادیبہ لگے لیکن مجھے اس ادیبہ میں ایک ادیبہ کی تحریر نہیں، ایک ماں کا فیصلہ دکھائی دے رہا ہے۔ جس نے اس دنیا کو بچوں کے لئے غیرمحفوظ پا کر خود بہ خود بانجھ ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ جہاں کلیاں محفوظ نا رہیں وہ گلشن بانجھ بن جاتے ہیں۔

کافی وقت سے دو بچیوں کی تصاویر سماعتوں سے نہیں ہٹ رہیں۔ ایک پشاور، تہکال کی سات برس کی عشال جس کو سگے چچا ملزم فضل حیات نے مبینہ طور پر اس وجہ سے قتل کیا کہ وہ گھر کے صحن میں شور کر رہی تھی۔ اب وہ وقت آگیا ہے کہ چڑیا کو چہچہاہٹ پر قتل کر دیا جائے گا۔ ایک انسان میں اتنی وحشت ہے کہ وہ معصوم چڑیا ہو محض شور پر قتل کردیتا ہے آپ اندازہ لگائیں یہ درندگی کس حد تک بڑھ چکی ہے اور اس کے خلاف کوئی لائحہ عمل نہیں ہے۔ ذہنی امراض کی ایمرجنسی کب لگے گی کب اس معاشرے سے درندگی ختم ہوگی یا تب تک بچے ختم ہو جائیں گے؟

دوسری لاہور کے ایک علاقے کی سی سی ٹی وی فوٹیج جس میں ملزم وقاص ایک معصوم بچی کے ساتھ نازیبا حرکات کرتا دیکھا جا سکتا ہے۔ جسے غالباً لاہور پولیس نے گرفتار بھی کر لیا ہے۔ ترجمان لاہور پولیس کے مطابق وقاص نامی یہ ملزم اوکاڑہ کا رہائشی ہے اور ہجویری بلاک میں کرایہ کے گھر میں مقیم تھا، سوچیں تو پیڈوفلیا اس ملک میں کورونا وائرس سے زیادہ نقصان کر رہا ہے۔ جو سالوں سے معصوم بچوں کو جنسی درندگی کا نشانہ بنوا رہا ہے لیکن اس کے لئے بھی ہمارے پاس کوئی لائحہ عمل نہیں۔

اکثر تو گرفتار نہیں ہوتے ہوتے ہیں تو بھی چھوٹ جاتے ہیں اور پھر انہی گلیوں میں دن دھاڑے دندناتے پھرتے ہیں زیادتی کا نشانہ بننے والے بچے اگر جان دے دیں تو بھی والدین مرجاتے ہیں اگر زندہ رہیں تو بھی پوری زندگی اس صدمے سے نہیں نکل سکتے نا یہ غلیظ معاشرہ ان کو یہ ستم بھلانے دیتا ہے۔ ذہنی امراض میں جکڑا یہ معاشرہ بچوں کے لئے مکمل غیر محفوظ ہے۔ ایسی صورتحال میں والدین ہی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ بچے اتنے پیدا کریں جتنے پال سکیں، دوسرا بچے کو خوراک کے ساتھ تحفظ کی بھی ضرورت ہے۔ بچہ آپ کسی ایسے انسان کے ہاتھ بھی کیوں دے رہے ہیں جو غیر ہے۔ خواہ وہ رشتیدار ہی کیوں نا ہو، معلم، ٹیوٹر، دودھ والا، ریڑہی بان، ہر قسم کے لوگوں سے بچوں کو دور رکھیں، اپنے دل کے پاس رکھیں۔

یہ دو واقعات نہیں روز ایسی خبریں سننے کو ملتی ہیں۔ سوچتا ہوں کہ کون سی جگہ ہے جو بچوں کے لئے محفوظ ہے؟ ولیم شیکسپیئر نے کہتا ہے ”بچے کے لئے سب سے اچھی جگہ ماں کا دل ہی ہے، خواہ بچے کی عمر کتنی ہی کیوں نہ ہو“ لیکن لیلی پھر سوال اٹھا رہی ہے کہ جب بچہ ماں کے دل سے نکلے گا تو کہاں جائے گا؟ ہماری تمام نفرتوں، برائیوں، اور اناؤں کا اثر بچوں پر پڑتا ہے۔ بچے کی فطرت محبت ہے، اسے نفرت نہیں آتی بچہ تو اتنا معصوم ہوتا ہے کہ درندے میں شفقت دیکھ کر اس کے ساتھ چلا جاتا ہے اور اپنی عصمت تو کیا زندگی تک لٹا آتا ہے، بچہ ہی تو تھا؟ اپنی فطرت کی وجہ سے مارا جاتا ہے، چڑیا کی فطرت والے بچوں کو دانا دے کھا جاتے ہو۔ اے سماج کے درندو کتنے برے ہو؟

میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ بس لیلی بعلبکی ہی ٹھیک کہتی ہے۔ اس دنیا میں مزید بچوں کئی ضرورت نہیں۔ یہ بچے خدا کو شکایت کریں گے بالکل اس شامی بچے کی طرح جسے لہروں نے کنارے پر پھیک دیا تھا۔ اس بچے نے کافی ضمیر جھنجھوڑ دیے لیکن ہمارے ضمیر بھی مر چکے ہیں۔ ہم قومی طور پر بے ضمیر بن چکے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments