صحافی کن ٹٹے نہیں ہوتے اور کن ٹٹے صحافی نہیں ہوتے


پرویز مشرف کی غیر آئینی حکومت میں میڈیا کا پھیلاؤ شروع ہواتو کئی چینل آئے۔ چینلوں میں فوری طور پر پرنٹ میڈیا کے لوگوں کی کھپت ہوئی جبکہ یونیورسٹیوں سے بھی نوجوانوں نے میڈیا کی جانب رخ کیا۔ مارکیٹ کی مناسبت سے تعلیمی اداروں نے میڈیا سائنسز کے پروگرام متعارف کرائے یعنی میڈیا میں پڑھے لکھے نوجوان وارد ہوئے۔ بلاشبہ میڈیا نے ترقی کی اور قابل اور ذہین نوجوانوں کو میڈیا نے سٹار بنادیا۔ دیکھا دیکھی کئی ایسے لوگ بھی میڈیا کے میدان میں در آئے جنہوں نے اخلاقیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے میڈیا کو محض ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی طرح ڈالی اور صحافتی پیشہ کو بے توقیر کردیا ہے۔

حد تو یہ ہے کہ چور اچکوں، رسہ گیروں، قبضہ مافیا تک نے اپنے اخبارات اور ٹی وی چینلز بنالئے ہیں۔ میڈیا انڈسٹری میں سرمایہ کاری کے زمرے کی بجائے کالا دھن سفید کرنے کی کوشش ہے۔ رسہ گیر، قبضہ مافیا اور چور اچکے سرمایہ کاری کی نیت سے میڈیا میں آتے بھی نہیں ہیں بلکہ اپنے کالے کرتوتوں کو تحفظ اور مزید دھونس و دھاندلی کی غرض سے آتے ہیں۔

ایسے اخبارات اور چینلز پر مالکان کی سوچ اور خواہش کے مطابق خبر دی جاتی ہے۔ بھرتی کردہ صحافی اور میڈیا کارکن پتلی کی طرح مالکان کے اشاروں پر ناچنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ پروگراموں میں اپنے مالکان کے لہجے میں ہی بات کی جاتی ہے۔ یہ کام کرنے والے حقیقت میں صحافی نہیں ہوتے ہیں۔ صحافی کا روپ دھارے ہوتے ہیں۔ تعلیم، اخلاقیات سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا ہے۔ چرب زبانی، نوسر بازی ہی ان کی قابلیت ہوتی ہے۔ میڈیا ان کا پیشہ ہرگز نہیں ہوتا ہے بلکہ ان کا کوئی بھی پیشہ نہیں ہوتا ہے۔ یہ کئی کام بیک وقت کر رہے ہوتے ہیں۔ ان کو آپ آسانی سے میڈیا کی کالی بھیڑیں کہہ سکتے ہیں۔

یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اچھی شہرت کے حامل صحافی معاوضے کے لالچ میں ایسے اخبارات اور چینلز میں نہیں جاتے ہیں۔ اگر جاتے بھی ہیں تو اپنی شرائط پر جاتے ہیں۔ مگر چینلز یا اخبار کے نان پروفیشنل ماحول کو دیکھ کر جلد واپسی کا راستہ اختیار کر لیتے ہیں۔

عمران خان حکومت میں میڈیا بحران سے دوچار ہوتا ہے۔ بے روزگار صحافیوں نے سوشل میڈیا کا سہارا لیا اور یوٹیوب چینلز بنا کر سکرین پر اپنی موجودگی برقرار رکھنے کی کوشش کی۔ قبل ازیں یوٹیوب چینلز پیشہ وارانہ طریقے سے چلائے جارہے تھے۔ مگر اب کچھ ایسے لوگوں نے یوٹیوب چینلز بنالیے ہیں جنہیں ضرورت تو قطعی نہیں ہے محض گند اچھالنے کے لئے جو مین سٹریم کیسی چینل پر نہیں اچھا ل سکتے تھے۔

طرفہ تماشا یہ ہے کہ یوٹیوب چینل بناکر کیمرہ اور مائیک اٹھائے چھاپے مارے جارہے ہیں۔ جنہیں صحافت کی الف بے بھی نہیں آتی ہے۔ وہ خود کو ورکنگ جرنلسٹ کہلانے پر بضد ہیں جبکہ اپنی دکان چلانے والے عامل صحافی کیسے کہلا سکتے ہیں۔

جگہ جگہ سے مار کھاتے ہیں۔ لوگ کپڑے تک پھاڑ دیتے ہیں۔ کہیں پولیس موقع پر پہنچ جاتی ہے اور جعلی صحافی قرار پاتے ہیں۔ خود تو بے عزت ہوتے ہیں مگر ساتھ صحافتی پیشہ بھی بدنام کر رہے ہیں۔

وزارت اطلاعات ونشریات سمیت دیگر صحافتی اداروں، پریس کلبوں، صحافیوں کی یونینز کوصحافتی پیشہ کے وقار کے لئے لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے کہ اگر کن ٹٹے صحافی بنتے ہیں تو انہیں صحافتی اخلاقیات بھی سکھائی جائیں۔ اصول تو یہ ہے کہ کن ٹٹے صحافی نہیں ہوتے ہیں اور صحافی کن ٹٹے نہیں ہوتے ہیں۔

یہ بات حقیقت ہے کہ کسی صحافی کے منہ پرتھپڑ پوری صحافت کے منہ پر تھپڑہے۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ جو صحافی ہیں وہ تھپڑ نہیں کھاتے ہیں۔ صحافی جیل جاتے ہیں۔ کوڑے کھاتے ہیں اور سرخرو ہوکر سربلند ہوتے ہیں۔ ہماری صحافتی تاریخ اس امر کی گواہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments